29۔ 1 یعنی لوح محفوظ میں۔ یا وہ ریکارڈ مراد ہے جو فرشتے لکھتے رہے۔ پہلا مفہوم زیادہ صحیح ہے۔
وَكُلَّ شَيْءٍ اَحْصَيْنٰہُ كِتٰبًا ٢٩ ۙ- شيء - الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم .- ( ش ی ء ) الشئی - بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ،- حصا - الإحصاء : التحصیل بالعدد، يقال : قد أحصیت کذا، وذلک من لفظ الحصا، واستعمال ذلک فيه من حيث إنهم کانوا يعتمدونه بالعدّ کا عتمادنا فيه علی الأصابع، قال اللہ تعالی:- وَأَحْصى كُلَّ شَيْءٍ عَدَداً [ الجن 28] ، أي : حصّله وأحاط به . وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «من أحصاها دخل الجنّة» وقال : «نفس تنجيها خير لک من إمارة لا تحصيها»- ( ح ص ی ) الا حصاء - ( افعال ) کے معنی عدد کو حاصل کرنا کہا جاتا ہے احصیت کذا میں نے اسے شمار کیا ۔ اصل میں یہ لفظ حصی ( کنکر یاں ) سے مشتق ہے اور اس سے گننے کا معنی اس لئے لیا گیا ہے کہ عرب لوگ گنتی میں کنکریوں پر اس طرح اعتماد کرتے تھے جس طرح ہم انگلیوں پر کرتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَحْصى كُلَّ شَيْءٍ عَدَداً [ الجن 28] یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو گن رکھا ہے ۔ اور اس کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ«من أحصاها دخل الجنّة» «2» وقال : «نفس تنجيها خير لک من إمارة لا تحصيها» جو شخص ان ( اسمائے حسنٰی ) کا احصا لرلیگا ( یعنی یاد کرلے گا ) ( وہ جنت میں داخل ہوگا نیز آنحضرت نے فرمایا کہ ایک جان کو ہلاکت سے بچالینا اس امارت سے بہتر ہے جسے تم نباہ سکو - كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو
(٢٩۔ ٣٠) اور ہم نے انسانوں کے تمام اعمال لوح محفوظ میں لکھ رکھے ہیں سو دوزخ کے عذاب کا مزہ چکھو، ہم ایک عذاب کے بعد دوسرا عذاب بڑھائے چلے جائیں گے۔
سورة النَّبَا حاشیہ نمبر :18 یعنی ان کے اقوال و افعال ، ان کی حرکات و سکنات ، حتی کہ ان کی نیتوں اور خیالات اور مقاصد تک کا مکمل ریکارڈ ہم تیار کرتے جا رہے تھے جس سے کوئی چیز چھوٹی ہوئی نہ تھی ، اور وہ بے وقوف اس سے بے خبر اپنی جگہ یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ وہ کسی اندھیر نگر میں جی رہے ہیں جہاں وہ اپنی مرضی اور خواہش سے جو کچھ چاہیں کرتے رہیں ، اس کی باز پرس کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔