3۔ 1 یعنی جس بڑی خبر کی بابت ان کے درمیان اختلاف ہے اس کے متعلق استفسار ہے۔ اس بڑی خبر سے بعض نے قرآن مجید مراد لیا ہے کافر اس کے بارے میں مختلف باتیں کرتے تھے، کوئی اسے جادو، کوئی کہانت، کوئی شعرا اور کوئی پہلوں کی کہانیاں بتلاتا تھا۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد قیامت کا برپا ہونا اور دوبارہ زندہ ہونا ہے۔ اسکا ان کے درمیان کچھ اختلاف تھا کوئی بالکل انکار کرتا تھا کوئی صرف شک کا اظہار بعض کہتے تھے کہ سوال کرنے والے مومن و کافر دونوں ہی تھے، مومنین کا سوال تو اضافہ یقین یا بصیرت کے لئے تھا اور کافروں کا جھٹلانا اور مذاق کے طور پر۔
[٢] دور نبوی میں عقیدہ آخرت کے متعلق کئی طرح کے اختلاف پائے جاتے تھے۔ کچھ لوگ تو دہریے تھے جو سرے سے اللہ کی ہستی کے ہی قائل نہ تھے۔ ان کے لیے عقیدہ آخرت خارج از بحث تھا۔ مشرکین مکہ اللہ کی ہستی کے تو قائل تھے مگر آخرت کے منکر تھے۔ عیسائی آخرت کے تو قائل تھے مگر ان میں سے اکثریت کا عقیدہ یہ تھا کہ اخروی عذاب وثواب صرف روح پر وارد ہوگا۔ بدن جو گل سڑ چکا ہے اسے دوبارہ زندہ کرکے نہیں اٹھایا جائے گا اور کچھ لوگ نظریہ لا ادریت کے قائل تھے یعنی وہ شک و شبہ میں مبتلا تھے۔ ان کے خیال میں یہ دونوں صورتیں ممکنات سے تھیں یعنی یہ بھی ممکن ہے کہ قیامت قائم ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ مرنے کے ساتھ ہی انسان کا قصہ پاک ہوجائے۔ اور قیامت کا نظریہ محض ایک قیاسی اور وہمی نظریہ ہو۔ ان سب اختلافات کے باوجود یہ لوگ عملاً اور نتیجہ کے لحاظ سے آخرت کے منکر تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو آخرت کے منکر ہونے کی وجہ سے کافر ہی قرار دیا ہے۔
الَّذِيْ ہُمْ فِيْہِ مُخْـتَلِفُوْنَ ٣ ۭ- الاختلافُ والمخالفة- والاختلافُ والمخالفة : أن يأخذ کلّ واحد طریقا غير طریق الآخر في حاله أو قوله، والخِلَاف أعمّ من الضّدّ ، لأنّ كلّ ضدّين مختلفان، ولیس کلّ مختلفین ضدّين، ولمّا کان الاختلاف بين النّاس في القول قد يقتضي التّنازع استعیر ذلک للمنازعة والمجادلة، قال :- فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم 37] - ( خ ل ف ) الاختلاف والمخالفۃ - الاختلاف والمخالفۃ کے معنی کسی حالت یا قول میں ایک دوسرے کے خلاف کا لفظ ان دونوں سے اعم ہے کیونکہ ضدین کا مختلف ہونا تو ضروری ہوتا ہے مگر مختلفین کا ضدین ہونا ضروری نہیں ہوتا ۔ پھر لوگوں کا باہم کسی بات میں اختلاف کرنا عموما نزاع کا سبب بنتا ہے ۔ اس لئے استعارۃ اختلاف کا لفظ نزاع اور جدال کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم 37] پھر کتنے فرقے پھٹ گئے ۔
آیت ٣ الَّذِیْ ہُمْ فِیْہِ مُخْتَلِفُوْنَ ۔ ” جس کے بارے میں یہ اختلافِ رائے میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ “- قیامت کے بارے میں تفصیلات سن کر ان میں سے کوئی کچھ کہتا ہے کوئی کچھ۔ کوئی کہتا ہے کہ مرنے کے بعد انسانوں کا دوبارہ زندہ ہونا بالکل بعید از قیاس ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ ہمارے معبودوں کے ہوتے ہوئے ہم سے کوئی محاسبہ نہیں ہوسکتا۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں ہر کوئی اپنی اپنی رائے دے رہا ہے۔
سورة النَّبَا حاشیہ نمبر :1 بڑی خبر سے مراد قیامت اور آخرت کی خبر ہے جس کو اہل مکہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر سنتے تھے ، پھر ہر محفل میں اس پر طرح طرح کی چہ مگوئیاں ہوتی تھیں ۔ پوچھ گچھ سے مراد یہی چہ میگوئیاں ہیں ۔ لوگ جب ایک دوسرے سے ملتے تھے تو کہتے تھے کہ بھائی ، کبھی پہلے بھی تم نے سنا ہے کہ مر کے کوئی دوباہ زندہ ہو گا ؟ کیا یہ ماننے کے قابل بات ہے کہ گل سڑ کر جو ہڈیاں ریزہ ریزہ ہو چکی ہیں ان میں نئے سرے سے جان پڑے گی؟ کیا عقل میں یہ بات سماتی ہے کہ اگلی پچھلی ساری نسلیں اٹھ کر ایک جگہ جمع ہوں گی؟ کیا یہ ممکن ہے کہ یہ بڑے بڑے جمے ہوئے پہاڑ ہوا میں روئی کے گالوں کی طرح اڑنے لگیں گے؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ چاند سورج اور تارے سب بجھ کر رہ جائیں اور دنیا کا یہ سارا جما جمایا نظام الٹ پلٹ ہو جائے گا ؟ یہ صاحب جو کل تک اچھے خاصے دانا آدمی تھے آج انہیں یہ کیا ہو گیا ہے کہ ہمیں ایسی عجیب انہونی خبریں سنا رہے ہیں ۔ یہ جنت اور یہ دوزخ آخر پہلے کہاں تھیں جن کا ذکر ہم نے کبھی ان کی زبان سے نہ سنا تھا ؟ اب یہ ایک دم کہاں سے نکل آئی ہیں کہ انہوں نے ان کے عجیب و غریب نقشے ہمارے سامنے کھینچنے شروع کر دیے ہیں؟ ھم فیہ مختلفون کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ وہ اس کے بارے میں مختلف چہ میگوئیاں کر رہے ہیں ۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دنیا کے انجام کے بارے میں یہ لوگ خود بھی کوئی ایک متفق علیہ عقیدہ نہیں رکھتے بلکہ ان کے درمیان اس کے متعلق مختلف خیالات پائے جاتے ہیں ۔ ان میں سے کوئی عیسائیوں کے خیالات سے متاثر تھا اور زندگی بعد موت کو مانتا تھا مگر یہ سمجھتا تھا کہ وہ دوسری زندگی جسمانی نہیں بلکہ روحانی ہو گی ۔ کوئی آخرت کا قطعی منکر نہ تھا مگر اسے شک تھا کہ وہ ہو سکتی ہے یا نہیں ، چنانچہ قرآن مجید ہی میں اس خیال کے لوگوں کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ ان نظن الا ظنا و ما نحن بمستیقنین ، ہم تو بس ایک گمان سا رکھتے ہیں ، یقین ہم کو نہیں ہے ۔ ( الجاثیہ آیت 31 ) ۔ اور کوئی بالکل صاف صاف کہتا تھا کہ ان ھی الا حیاتنا الدنیا و ما نحن بمبعوثین ، جو کچھ بھی ہے بس ہماری یہی دنیا کی زندگی ہے اور ہم ہرگز مرنے کے بعد دوبارہ نہ اٹھائے جائیں گے ۔ ( الانعام ۔ آیت 29 ) ۔ پھر کچھ لوگ ان میں سے دہریے تھے اور کہتے تھے کہ ماھی الا حیاتنا الدنیا نموت و نحیا و ما یھلکنا الا الدھر ، زندگی بس یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے ، یہیں ہم مرتے اور جیتے ہیں اور گردش ایام کے سوا کوئی چیز نہیں جو ہمیں ہلاک کرتی ہو ۔ ( الجاثیہ ۔ 24 ) ۔ اور کچھ دوسرے لوگ دہریے تو نہ تھے مگر دوسری زندگی کو ناممکن قرار دیتے تھے ، یعنی ان کے نزدیک یہ خدا کی قدرت سے خارج تھا کہ وہ مرے ہوئے انسانوں کو پھر سے زندہ کر سکے ۔ ان کا قول تھا من یحیی العظام و ھی رمیم ، کون ان ہڈیوں کو زندہ کرے گا جبکہ یہ بوسیدہ ہو چکی ہوں گی؟ ۔ ( یٰسین ۔ 78 ) ۔ یہ ان کے مختلف اقوال خود ہی اس بات کا ثبوت تھے کہ ان کے پاس اس مسئلے میں کوئی علم نہ تھا ، بلکہ وہ محض گمان و قیاس کے تیر تکے چلا رہے تھے ، ورنہ علم ہوتا تو سب کسی ایک بات کے قائل ہوتے ( مزید تشریح کے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد پنجم ، الذاریات ، حاشیہ 6 ) ۔
1: اس سے قیامت اور آخرت مراد ہے۔ کافر لوگ قیامت کے بارے میں طرح طرح کی باتیں بنایا کرتے تھے۔ کوئی اُس کا مذاق اُڑاتا، کوئی اُس کے خلاف دلیلیں پیش کرتا، کوئی مسلمانوں سے اُس کی تفصیلات کے بارے میں سوالات کرتا، اور سوال کرنے کا مقصد حق کی تلاش نہیں، بلکہ اِستہزاء ہوتا تھا۔ ان آیتوں میں اُن کے اسی طرز ِعمل کی طرف اشارہ ہے۔ اس کے بعد اﷲ تعالیٰ نے کائنات میں پھیلی ہوئی اپنی قدرت کی نشانیوں کا ذِکر فرمایا ہے کہ جب تم یہ مانتے ہو کہ یہ سب کچھ اﷲ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہے، تو اُس کی یہ قدرت تسلیم کرنے میں تمہیں کیوں مشکل پیش آ رہی ہے کہ وہ اس عالم کو ایک مرتبہ ختم کر کے دوبارہ پیدا فرما دے گا۔