(١) کلا سیعلمون …:” کلا “ کا لفظ عربی میں عموماً اپنے سے پہلے والے کلام کو غلط اور بعد والے کلام کو صحیح قرار دینے کیلئے آتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ قیامت کے متعلق اختلاف ڈالنا، انکار کرنا یا شک کرنا بالکل غلط ہے اور اس کا آنا بالکل یقینی ہے۔- (٢) سیعلمون :” عنقریب وہ جان لیں گے “ یعنی اگر ان کی عقل قیامت کو نہیں مانتی اور اس میں یہ لوگ اختلاف کر رہے ہیں تو مرنے سے تو نہ یہ انکار کرسکتے ہیں، نہ شک کرسکتے ہیں اور نہ ہی اس میں کسی کا اختلاف ہے، تو بس مرنے کی دیر ہے، اس کے ساتھ ہی قیامت اور دوسری تمام حقیقتیں جنہیں یہ لوگ خلاف عقل قرار دے رہے ہیں، سب ان کی آنکھوں کے سامنے آجائیں ۔ تاکید کے لئے دوبارہ ” ثم کلا سیعلمون “ فرمایا ہے۔
كَلَّا سَيَعْلَمُوْنَ ٤ ۙ ثُمَّ كَلَّا سَيَعْلَمُوْنَ ٥- كلا - كَلَّا : ردع وزجر وإبطال لقول القائل، وذلک نقیض «إي» في الإثبات . قال تعالی: أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم 77- 79] وقال تعالی: لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون 100] إلى غير ذلک من الآیات، وقال : كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس 23] .- کلا یہ حرف روع اور زجر ہے اور ماقبل کلام کی نفی کے لئے آتا ہے اور یہ ای حرف ایجاب کی ضد ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں ہے ۔ أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم 77- 79] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں سے کفر کیا ۔ اور کہنے لگا اگر میں ازسر نو زندہ ہوا بھی تو یہی مال اور اولاد مجھے وہاں ملے گا کیا اس نے غیب کی خبر پالی ہے یا خدا کے یہاں ( سے ) عہد لے لیا ہے ہر گز نہیں ۔ لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون 100] تاکہ میں اس میں جسے چھوڑ آیا ہوں نیک کام کروں ہرگز نہیں ۔ كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس 23] کچھ شک نہیں کہ خدا نے سے جو حکم دیا ۔ اس نے ابھی تک اس پر عمل نہیں کیا ۔ اور اس نوع کی اور بھی بہت آیات ہیں ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا
آیت ٤ کَلَّا سَیَعْلَمُوْنَ ۔ ” نہیں عنقریب یہ جان لیں گے۔ “- عنقریب اصل حقیقت ان لوگوں پر منکشف ہوجائے گی۔ وقت آنے پر یہ لوگ اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ لیں گے۔ سورة قٓ میں اس کیفیت کا ذکر اس طرح ہوا ہے : لَقَدْ کُنْتَ فِیْ غَفْلَۃٍ مِّنْ ہٰذَا فَـکَشَفْنَا عَنْکَ غِطَآئَ کَ فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌ ۔ ” (اللہ فرمائے گا : اے انسان ) تو اس دن سے غفلت میں رہاتھانا تو آج ہم نے تجھ سے تیرا پردہ ہٹا دیا ہے ‘ تو آج تمہاری نگاہ کتنی تیز ہوگئی ہے۔ “
سورة النَّبَا حاشیہ نمبر :2 یعنی آخرت کے متعلق جو باتیں یہ لوگ بنا رہے ہیں سب غلط ہیں ۔ جو کچھ انہوں نے سمجھ رکھا ہے وہ ہرگز صحیح نہیں ہے ۔