Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

فضول اور گناہوں سے پاک دنیا نیک لوگوں کے لئے اللہ کے ہاں جو نعمتیں و رحمتیں ہیں ان کا بیان ہو رہا ہے کہ یہ کامیاب مقصد ور اور نصیب دار ہیں کہ جہنم سے نجات پائی اور جنت میں پہنچ گئے ، حدائق کہتے ہیں کھجور وغیرہ کے باغات کو ، انہیں نوجوان کنواری حوریں بھی ملیں گی جو ابھرے ہوئے سینے والیاں اور ہم عمر ہوں گی ، جیسے کہ سورہ واقعہ کی تفسیر میں اس کا پورا بیان گزر چکا ، اس حدیث میں ہے کہ جنتیوں کے لباس ہی اللہ کی رضا مندی کے ہوں گے ، بادل ان پر آئیں گے اور ان سے کہیں گے کہ بتاؤ ہم تم پر کیا برسائیں؟ پھر جو وہ فرمائیں گے ، بادل ان پر برسائیں گے یہاں تک کہ نوجوان کنواری لڑکیاں بھی ان پر برسیں گی ( ابن ابی حاتم ) انہیں شراب طہور کے چھلکتے ہوئے ، پاک صاف ، بھرپور جام پر جام ملیں گے جس پر نشہ نہ ہو گا کہ بیہودہ گوئی اور لغو باتیں منہ سے نکلیں اور کان میں پڑیں ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( لَّا لَغْوٌ فِيْهَا وَلَا تَاْثِيْمٌ 23؀ ) 52- الطور:23 ) اس میں نہ لغو ہو گا نہ فضول گوئی اور نہ گناہ کی باتیں ، کوئی بات جھوٹ اور فضول نہ ہو گی ، وہ دارالسلام ہے جس میں کوئی عیب کی اور برائی کی بات ہی نہیں ، یہ ان پارسا بزرگوں کو جو کچھ بدلے ملے ہیں یہ ان کے نیک اعمال کا نتیجہ ہے جو اللہ کے فضل و کرم احسان و انعام کی بناء پر ملے ہیں ، بیحد کافی ، بکثرت اور بھرپور ہیں ۔ عرب کہتے ہیں اعطانی فاحسبنی انعام دیا اور بھرپور دیا اسی طرح کہتے ہیں حسبی اللہ یعنی اللہ مجھے ہر طرح کافی وافی ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٠] مَفَازًا کا لغوی مفہوم :۔ مَفَازًا : فاز بمعنی نجات حاصل کرنا اور مصیبتوں سے نجات حاصل کرکے خیر و عافیت کے ساتھ سلامتی کی جگہ پہنچنا ہے۔ اسی لیے فاز الرجل اور فَوْزَ الرجل کے معنی مرنا اور ہلاک ہونا بھی آتا ہے اور اس میں تصور یہ ہے کہ انسان مر کر دنیا کی پریشانیوں اور مصیبتوں سے نجات حاصل کرلیتا ہے۔ گویا پرہیزگاروں کے لیے سب سے بڑی کامیابی یہی ہے کہ انہیں قیامت کے دن کے مصائب و آلام اور دوزخ کے عذاب سے نجات مل جائے اور وہ ایسے محفوظ اور سلامتی والے مقام پر پہنچا دیئے جائیں جہاں جہنم کے عذاب کی لو تک بھی نہ پہنچ سکے۔ رہا اس کے بعد جنت میں داخلہ اور جنت کی نعمتوں کا حصول تو وہ اللہ کے فضل اور مہربانی سے زائد انعام ہوگا۔ اور اس مضمون پر پہلے متعدد مقامات پر بحث گزر چکی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ان للمتقین مفازاً : جہنم اور جہنمیوں کے بعد جنت اور جنتیوں کا ذکر ہے۔ یہاں متقین کا ذکر ان لوگوں کے مقابلے میں آیا ہے جنہیں کسی حساب کی توقع نہ تھی اور جنہوں نے اللہ کی آیات کو بالکل جھٹلا دیا تھا، یعنی اعمال کے حساب سے ڈرنے والوں اور کفر و تکذیب سے ڈرنے والوں کے لئے ایک بڑی کامیابی ہے۔ ” مفازاً “ مصدر ہو تو معنی ہے ” کامیابی “ اور ظرف ہو تو معنی ہے ” کامیابی کا مقام۔ “” مفازاً “ میں تنوین ” ایک بڑی “ کا مفہوم ادا کر رہی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ لِلْمُتَّقِيْنَ مَفَازًا۝ ٣١ ۙ- تَّقْوَى- والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، ثمّ يسمّى الخوف تارة تَقْوًى، والتَّقْوَى خوفاً حسب تسمية مقتضی الشیء بمقتضيه والمقتضي بمقتضاه، وصار التَّقْوَى في تعارف الشّرع حفظ النّفس عمّا يؤثم، وذلک بترک المحظور، ويتمّ ذلک بترک بعض المباحات لما روي : «الحلال بيّن، والحرام بيّن، ومن رتع حول الحمی فحقیق أن يقع فيه» قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] ، إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا - [ النحل 128] ، وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر 73] ولجعل التَّقْوَى منازل قال : وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة 281] ، واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء 1] ، وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ [ النور 52] ، وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسائَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحامَ [ النساء 1] ، اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران 102] . و تخصیص کلّ واحد من هذه الألفاظ له ما بعد هذا الکتاب . ويقال : اتَّقَى فلانٌ بکذا : إذا جعله وِقَايَةً لنفسه، وقوله : أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 24] تنبيه علی شدّة ما ينالهم، وأنّ أجدر شيء يَتَّقُونَ به من العذاب يوم القیامة هو وجوههم، فصار ذلک کقوله : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم 50] ، يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر 48] . التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز سے بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ جس طرح کہ سبب بول کر مسبب اور مسبب بولکر سبب مراد لیا جاتا ہے اور اصطلاح شریعت میں نفس کو ہر اس چیز سے بچا نیکا نام تقوی ہے جو گناہوں کا موجب ہو ۔ اور یہ بات محظو رات شرعیہ کے ترک کرنے سے حاصل ہوجاتی ہے مگر اس میں درجہ کمال حاصل کرنے کے لئے بعض مباحات کو بھی ترک کرنا پڑتا ہے ۔ چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے ۔ ( 149 ) الحلال بین واحرام بین ومن وقع حول الحمی فحقیق ان یقع فیہ کہ حلال بھی بین ہے اور حرام بھی بین ہے اور جو شخص چراگاہ کے اردگرد چرائے گا تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس میں داخل ہوجائے ( یعنی مشتبہ چیزیں اگرچہ درجہ اباحت میں ہوتی ہیں لیکن ورع کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں بھی چھوڑ دایا جائے ) قرآن پاک میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا[ النحل 128] کچھ شک نہیں کہ جو پرہیز گار ہیں اللہ ان کا مدد گار ہے ۔ وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر 73] اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کو گروہ بناکر بہشت کی طرف لے جائیں گے ۔ پھر تقویٰ کے چونکہ بہت سے مدارج ہیں اس لئے آیات وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة 281] اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم خدا کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے ۔ واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء 1] اپنے پروردگار سے ڈرو ۔ اور اس سے ڈرے گا ۔ اور خدا سے جس کا نام کو تم اپنی حاجت برآری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو ۔ اور قطع مودت ارجام سے ۔ اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران 102] خدا سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔ میں ہر جگہ تقویٰ کا ایک خاص معنی مراد ہے جس کی تفصیل اس کتاب کے اور بعد بیان ہوگی ۔ اتقٰی فلان بکذا کے معنی کسی چیز کے ذریعہ بچاؤ حاصل کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 24] بھلا جو شخص قیامت کے دن اپنے منہ سے برے عذاب کو روکتا ہوا ۔ میں اس عذاب شدید پر تنبیہ کی ہے جو قیامت کے دن ان پر نازل ہوگا اور یہ کہ سب سے بڑی چیز جس کے ذریعہ وہ و عذاب سے بچنے کی کوشش کریں گے وہ ان کے چہرے ہی ہوں گے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم 50] اور ان کے مونہوں کو آگ لپٹ رہی ہوگی ۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر 48] اس روز منہ کے بل دوزخ میں گھسٹیے جائیں گے ۔- فوز - الْفَوْزُ : الظّفر بالخیر مع حصول السّلامة . قال تعالی: ذلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ [ البروج 11] ، فازَ فَوْزاً عَظِيماً [ الأحزاب 71] ، - ( ف و ز ) الفوز - کے معنی سلامتی کے ساتھ خیر حاصل کرلینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ ذلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ [ البروج 11] یہی بڑی کامیابی ہے ۔ فازَ فَوْزاً عَظِيماً [ الأحزاب 71] تو بیشک بڑی مراد پایئکا ۔ یہی صریح کامیابی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣١۔ ٣٣) کفر و شرک اور فواہش سے بچنے والوں کے لیے جنت میں نجات اور اللہ تعالیٰ کا قرب ہے اور مختلف قسم کے باغوں کے انگور ہیں اور دل بہلانے کو نوخاستہ ہم عمر عورتیں ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النَّبَا حاشیہ نمبر :19 یہاں متقیوں کا لفظ ان لوگوں کے مقابلے میں استعمال کیا گیا ہے جو کسی حساب کی توقع نہ رکھتے تھے اور جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا تھا ۔ اس لیے لامحالہ اس لفظ سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کی آیات کو مانا اور دنیا میں یہ سمجھتے ہوئے زندگی بسر کی کہ انہیں اپنے اعمال کا حساب دینا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani