14۔ 1 یہ قیامت کی منظر کشی ہے کہ ایک ہی نفخے سے سب لوگ ایک میدان میں جمع ہوجائیں گے۔
[١٠] یعنی جس کام کو یہ کافر خلاف عقل اور ناممکن العمل سمجھ رہے ہیں۔ اس کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ جب دوسری مرتبہ صور پھونکا یا ڈانٹ پلائی جائے گی تو اس وقت سب اگلے پچھلے لوگ بلا توقف میدان حشر کی طرف اکٹھے ہونا شروع ہوجائیں گے۔
فَاِذَا ہُمْ بِالسَّاہِرَۃِ ١٤ ۭ- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ - (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- سهر - السَّاهِرَةُ قيل : وجه الأرض، وقیل : هي أرض القیامة، وحقیقتها : التي يكثر الوطء بها، فكأنها سَهَرَتْ بذلک إشارة إلى قول الشاعر : تحرّك يقظان التّراب ونائمة والْأَسْهَرَانِ : عرقان في الأنف - ( س ھ ر ) الساھرۃ کے معنی میدان یا روئے زمین کے ہیں قرآن میں ہے : السَّاهِرَةُ «4»اس وقت وہ ( سب ) میدان ( حشر ) میں آجمع ہوں گے ۔ بعض نے کہا ہے کہ ساھرۃ سے مراد روئے زمین ( یعنی یہی زمین ) ہے اور بعض کے نزدیک ارض آخرت مراد ہے اور اصل میں ساھرۃ اس زمین کو کہتے ہیں جس پر کثرت سے آمد ورفت ہو ۔ گویا وہ آمد دروفت سے بیدار ہوچکی ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) ( 243 ) تحرک یقظان التراب ونائیتہ تو بیدار اور سوئی زمین مل جاتی ہے ۔ اور ناک کی دونوں رگوں کو اسھران کہا جاتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بس وہ ایک ہی آواز ہوگی جس سے سب روئے زمین پر یا یہ کہ میدان حشر میں آموجود ہوں گے۔
آیت ١٤ فَاِذَا ہُمْ بِالسَّاہِرَۃِ ۔ ” تو وہ سب کے سب ایک چٹیل میدان میں ہوں گے۔ “- نفخہ ثانیہ کے بعد سب کے سب انسان زندہ ہو کر میدانِ حشر میں جمع ہوجائیں گے۔
سورة النّٰزِعٰت حاشیہ نمبر :5 یعنی یہ لوگ اسے ایک امر محال سمجھ کر اس کو ہنسی اڑا رہے ہیں ، حالانکہ اللہ کے لیے یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے جس کو انجام دینے کے لیے کچھ بڑی لمبی چوڑی تیاریوں کی ضرورت ہو ۔ اس کے لیے صرف ایک ڈانٹ یا جھڑکی کافی ہے جس کے ساتھ ہی تمہاری خاک یا راکھ ، خواہ کہیں پڑی ہو ، ہر طرف سے سمٹ کر ایک جگہ جمع ہو جا ئے گی اور تم یکایک اپنے آپ کو زمین کی پیٹھ پر زندہ موجود پاؤ گے ۔ اس واپسی کو گھاٹے کی واپسی سمجھ کر چاہے تم اس سے کتنا ہی فرار کرنے کی کوشش کرو ، یہ تو ہو کر رہنی ہے ، تمہارے انکار یا فرار یا تمسخر سے یہ رک نہیں سکتی ،