معفرت دل حق کا مطیع و فرماں بردار ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دیتا ہے کہ اس نے اپنے بندے اور رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کی طرف بھیجا اور معجزات سے ان کی تائید کی ، لیکن باوجود اس کے فرعون اپنی سرکشی اور اپنے کفر سے باز نہ آیا بالاخر اللہ کا عذاب اترا اور برباد ہو گیا ، اسی طرح اے پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے مخالفین کا بھی حشر ہو گا ۔ اسی لئے اس واقعہ کے خاتمہ پر فریاد ڈر والوں کے لئے اس میں عبرت ہے ، پس فرماتا ہے کہ تجھے خبر بھی ہے؟ موسیٰ علیہ السلام کو اس کے رب نے آواز دی جبکہ وہ ایک مقدس میدان میں تھے جس کا نام طویٰ ہے ۔ اس کا تفصیل سے بیان سورہ طہ میں گزر چکا ہے ، آواز دے کر فرمایا کہ فرعون نے سرکشی تکبر ، تجبر اور تمرد اختیار کر رکھا ہے تم اس کے پاس پہنچو اور اسے میرا یہ پیغام دو کہ کیا تو چاہتا ہے کہ میری بات مان کر اس راہ پر چلے جو پاکیزگی کی راہ ہے ، میری سن میری مان ، سلامتی کے ساتھ پاکیزگی حاصل کر لے گا ، میں تجھے اللہ کی عبادت کے وہ ریقے بتاؤں گا جس سے تیرا دل نرم اور روشن ہو جائے اس میں خشوع و خضع پیدا ہو اور دل کی سختی اور بدبختی دور ہو ۔ حضرت موسیٰ فرعون کے پاس پہنچے اللہ کا فرمان پہنچایا ، حجت ختم کی دلائل بیان کئے یہاں تک کہ اپنی سچائی کے ثبوت میں معجزات بھی دکھائے لیکن وہ برابر حق کی تکذیب کرتا رہا اور حضرت موسیٰ کی باتوں کی نافرمانی پر جما رہا چونکہ دل میں کفر جا گزیں ہو چکا تھا اس سے طبیعت نہ ہٹی اور حق واضح ہو جانے کے باوجود ایمان و تسلیم نصیب نہ ہوئی ، یہ اور بات ہے کہ دل سے جانتا تھا کہ یہ حق برحق نبی ہیں اور ان کی تعلیم بھی برحق ہے لیکن دل کی معرفت اور چیز ہے اور ایمان اور چیز ہے دل کی معرفت پر عمل کرنے کا نام ایمان ہے کہ حق کا تابع فرمان بن جائے اور اللہ رسول کی باتوں پر عمل کرنے کے لئے جھک جائے ۔ پھر اس نے حق سے منہ موڑ لیا اور خلاف حق کوشش کرنے لگا جادو گروں کو جمع کر کے ان کے ہاتھوں حضرت موسیٰ کو نیچا دکھانا چاہا ۔ اپنی قوم کو جمع کیا اور اس میں منادی کی کہ تم سب میں بلند و بالا میں ہی ہوں ، اس سے چالیس سال پہلے وہ کہہ چکا تھا کہ آیت ( مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرِيْ 38 ) 28- القصص:38 ) یعنی میں نہیں جانتا کہ میرے سوا تمہارا معبود کوئی اور بھی ہو ، اب تو اس کی طغیانی حد سے بڑھ گئی اور صاف کہہ دیا کہ میں ہی رب ہوں ، بلندیوں والا اور سب پر غالب میں ہی ہوں ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے بھی اس سے وہ اتنقام لیا جو اس جیسے تمام سرکشوں کے لئے ہمیشہ ہمیشہ سبب عبرت بن جائے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی جس کے بدترین عذاب تو ابھی باقی ہیں ، جیسے فرمایا آیت ( وَجَعَلْنٰهُمْ اَىِٕمَّةً يَّدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ ۚ وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ لَا يُنْصَرُوْنَ 41 ) 28- القصص:41 ) یعنی ہم نے انہیں جہنم کی طرف بلانے والے پیش رو بنائے قیامت کے دن یہ مدد نہ کئے جائیں گے ، پس صحیح تر معنی آیت کے یہی ہیں کہ آخرت اور اولیٰ سے مراد دنیا اور آخرت ہے ، بعض نے کہا ہے اول آخر سے مراد اس کے دونوں قول ہیں یعنی پہلے یہ کہنا کہ میرے علم میں میرے سوا تمہارا کوئی اللہ نہیں ، پھر یہ کہنا کہ تمہارا سب کا بلند رب میں ہوں ، بعض کہتے ہیں مراد کفر و نافرمانی ہے ، لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ، اس میں ان لوگوں کے لئے عبرت و نصیحت ہے جو نصیحت حاصل کریں اور باز آ جائیں ۔
[١١] قصہ موسیٰ و فرعون :۔ قیامت کے ذکر میں فرعون کا ذکر آپ کو تسلی دینے کے خاطر لایا گیا ہے۔ یعنی یہ مکہ کے کافر تو فرعون کے مقابلہ میں کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتے۔ وہ مصر کے بہت سے علاقہ کا واحد حکمران انتہائی مغرور اور سرکش بادشاہ تھا۔ اس نے بھی جب ہمارے بھیجے ہوئے پیغمبروں کو جھٹلایا۔ ان کی دعوت کو تسلیم کرنے کی بجائے اکڑ بیٹھا تو ہم نے اسے اور اس کی آل کو سمندر میں غرق کردیا تھا۔ اور اب یہ کفار بھی اگر فرعون جیسا ہی کردار ادا کریں گے تو یہ اللہ کی گرفت سے کیونکر بچ سکیں گے ؟
ھل اتک حدیث موسیٰ :” کیا تیرے پاس موسیٰ کی بات پہنچی ہے ؟ “ قیامت اور اس کا انکار کرنے والوں کے ذکر کے ساتھ ہی موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کا ذکر فرمایا۔ اس سے ایک تو منکرین کو ڈرانا مقصود ہے کہ قح کا انکار کرنے والوں کا انجام کیا ہوتا ہے، دوسرا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا مقصود ہے کہ آپ ان کافروں کے جھٹلانے پر رنجیدہ نہ ہوں، آپ سے پہلے لوگوں نے بھی رسولوں کو جھٹلایا تو ان کا یہ انجام ہوا۔
ہَلْ اَتٰىكَ حَدِيْثُ مُوْسٰى ١٥ ۘ- هَلْ- : حرف استخبار، إما علی سبیل الاستفهام، وذلک لا يكون من اللہ عزّ وجلّ : قال تعالی: قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنا[ الأنعام 148] وإمّا علی التّقریر تنبيها، أو تبكيتا، أو نفیا . نحو : هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً [ مریم 98] . وقوله :- هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم 65] ، فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک 3] كلّ ذلک تنبيه علی النّفي . وقوله تعالی: هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ وَالْمَلائِكَةُ- [ البقرة 210] ، لْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل 33] ، هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ [ الزخرف 66] ، هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا ما کانوا يَعْمَلُونَ [ سبأ 33] ، هَلْ هذا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ [ الأنبیاء 3] قيل : ذلک تنبيه علی قدرة الله، و تخویف من سطوته .- ( ھل ) ھل یہ حرف استخبار اور کبھی استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جیسے قرآن پاک میں ہے : هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنا[ الأنعام 148] کہدو کہ تمہارے پاس کوئی سند ہے اگر ہے تو اسے ہمارے سامنے نکالو ۔ اور کبھی تنبیہ تبکیت یا نفی کے لئے چناچہ آیات : ۔ هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً [ مریم 98] بھلا تم ان میں سے کسی کو دیکھتے ہو یار کہیں ان کی بھنکسنتے ہو ۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم 65] بھلا ئم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک 3] ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھو کیا تجھے ( آسمان میں ) کوئی شگاف نظر آتا ہے ۔ میں نفی کے معنی پائے جاتے ہیں ۔ اور آیات : ۔ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ وَالْمَلائِكَةُ [ البقرة 210] کیا یہ لوگ اسی بات کے منتظر ہیں کہ ان پر خدا کا عذاب ) بادل کے سائبانوں میں نازل ہو اور فرشتے بھی اتر آئیں ۔ ھلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل 33] یہ اس کے سوا اور کسی بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں ۔ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ [ الزخرف 66] یہ صرف اس بات کے منتظر ہیں کہ قیامت هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا ما کانوا يَعْمَلُونَ [ سبأ 33] یہ جیسے عمل کرتے ہیں ویسا ہی ان کو بدلہ ملے گا ۔ هَلْ هذا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ [ الأنبیاء 3] یہ شخص کچھ بھی ) نہیں ہے مگر تمہارے جیسا آدمی ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت پر تنبیہ اور اس کی سطوت سے تخو یف کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے : ۔- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعرأتيت المروءة من بابها فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم 27] . يقال : أتيته وأتوته ويقال للسقاء إذا مخض وجاء زبده : قد جاء أتوه، وتحقیقه : جاء ما من شأنه أن يأتي منه، فهو مصدر في معنی الفاعل . وهذه أرض کثيرة الإتاء أي : الرّيع، وقوله تعالی: مَأْتِيًّا[ مریم 61] مفعول من أتيته . قال بعضهم معناه : آتیا، فجعل المفعول فاعلًا، ولیس کذلک بل يقال : أتيت الأمر وأتاني الأمر، ويقال : أتيته بکذا وآتیته كذا . قال تعالی: وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء 54] .[ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني . والإِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247] .- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو أَتَى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت وَجَاءَ رَبُّكَ [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) " اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ ارض کثیرۃ الاباء ۔ زرخیز زمین جس میں بکثرت پیداوار ہو اور آیت کریمہ : إِنَّهُ كَانَ وَعْدُهُ مَأْتِيًّا [ مریم : 61] بیشک اس کا وعدہ آیا ہوا ہے ) میں ماتیا ( فعل ) اتیتہ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے بعض علماء کا خیال ہے کہ یہاں ماتیا بمعنی آتیا ہے ( یعنی مفعول بمعنی فاعل ) ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ محاورہ میں اتیت الامر واتانی الامر دونوں طرح بولا جاتا ہے اتیتہ بکذا واتیتہ کذا ۔ کے معنی کوئی چیز لانا یا دینا کے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ مُلْكًا عَظِيمًا [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔ الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - حدیث - وكلّ کلام يبلغ الإنسان من جهة السمع أو الوحي في يقظته أو منامه يقال له : حدیث، قال عزّ وجلّ : وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم 3] ، وقال تعالی: هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية 1] ، وقال عزّ وجلّ : وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ- [يوسف 101] ، أي : ما يحدّث به الإنسان في نومه،- حدیث - ہر وہ بات جو انسان تک سماع یا وحی کے ذریعہ پہنچے اسے حدیث کہا جاتا ہے عام اس سے کہ وہ وحی خواب میں ہو یا بحالت بیداری قرآن میں ہے ؛وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم 3] اور ( یاد کرو ) جب پیغمبر نے اپنی ایک بی بی سے ایک بھید کی بات کہی ۔ أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية 1] بھلا ترکو ڈھانپ لینے والی ( یعنی قیامت کا ) حال معلوم ہوا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ [يوسف 101] اور خوابوں کی تعبیر کا علم بخشا۔ میں احادیث سے رویا مراد ہیں - موسی - مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته .
(١٥۔ ١٦) کیا آپ کو حضرت موسیٰ کا قصہ پہنچا ہے جبکہ ان کو ان کے پروردگار نے ایک پاک میدان یعنی وادی طوی میں پکارا، انبیاء کا گزر اس وادی پر بکثرت ہوا اس واسطے اس کا یہ نام پڑگیا۔
سورة النّٰزِعٰت حاشیہ نمبر :6 چونکہ کفار مکہ کا قیامت اور آخرت کو نہ ماننا اور اس کا مذاق اڑانا دراصل کسی فلسفے کو رد کرنا نہیں تھا بلکہ اللہ کے رسول کو جھٹلانا تھا ، اور جو چالیں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف چل رہے تھے وہ کسی عام آدمی کے خلاف نہیں بلکہ اللہ کے رسول کی دعوت کو زک دینے کے لیے تھیں ، اس لیے وقوع آخرت کے مزید دلائل دینے سے پہلے ان کو حضرت موسی اور فرعون کا قصہ سنایا جا رہا ہے تاکہ وہ خبردار ہو جائیں کہ رسالت سے ٹکرانے اور رسول کے بھیجنے والے خدا کے مقابلے میں سر اٹھانے کا انجام کیا ہوتا ہے ۔