17۔ 1 یعنی کفر و معصیت اور تکبر میں حد سے تجاوز کر گیا ہے۔
[١٣] فرعون کے پاس جانے کا حکم :۔ نبوت عطا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) پر جو ذمہ داری لگائی وہ آپ کے لیے بڑی کڑی آزمائش تھی۔ آپ کے ہاتھ سے اتفاقاً ایک قبطی کی موت واقع ہوگئی تھی ایک خیر خواہ کی اطلاع پر کہ آپ کے قتل کے مشورے فرعونی پارلیمنٹ میں ہو رہے ہیں آپ عارضی طور پر مدین کی جانب چلے گئے اس وجہ سے فرعون کی حکومت آپ کو مجرم سمجھتی تھی۔ آپ کا نام ریکارڈ پر موجود تھا۔ علاوہ ازیں فرعون ایک انتہائی مغرور اور سرکش حکمران تھا جسے اس قسم کا پیغام پہنچانا بذات خود جان جوکھوں کا کام تھا۔ ان خطرات کا موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کے دوران اظہار بھی کیا تھا اور یہ ایک طویل قصہ ہے جس کا ذکر پہلے متعدد مقامات پر گزر چکا ہے۔ یہاں ایسی سب باتوں کو حذف کردیا گیا ہے۔
١٩(١) اذھب الی فرعون…: فرعون کے پاس جانے کا حکم دینے کے ساتھ اسے دی جانے والی دعوت بھی سکھلائی، دعوت کے الفاظ میں اختصار کے باوجود نرمی اور ترغیب و ترہیب واضح طور پر نمایاں ہیں۔ سورة طہ میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور ہ اورن (علیہ السلام) کو فرمایا تھا :(فقولا لہ قولاً لیناً لعلہ یتذکراویخشی) (طہ : ٣٣)” فرعون سے نرم بات کرنا، شاید وہ نصیحت قبول کرلے یا ڈر جائے۔ “- (٢) انہ طغی :” یقیناً وہ حد سے بڑھ گیا ہے۔ “ فرعون کا حد سے بڑھنا ایک تو بندگی کی حد سے بڑھ کر یہ کہنا تھا کہ میں تمہارا رب اعلیٰ ہوں، دوسرا خلق خدا پر اس کی طغیانی یہ تھی کہ اس نے قوم کو طبقوں میں تقسیم کر کے اپنا غلام بنا رکھا تھا۔ خصوصاً بنی اسرائیل کے بیٹے ذبح کرتا اور عورتیں زندہ رکھتا تھا۔- (٣) فقل ھل لک …” تزکی “ پاک ہوجائے، یعنی شرک و کفر کی گندگی سے پاک ہوجائے۔ ” فتخشی “ پس تو ڈر جائے، یعنی اپنے رب کا راستہ معلوم ہوجانے کے بعد تو ڈر جائے کہ پروردگار اپنی دی ہوئی حکوتم چھین کر نعمتوں کی جگہ اپنی گرفت ہی میں نہ لے لے، چناچہ تو اس ڈر سے اس کا شریک بننے اور بندوں پر ظلم کرنے سے بچ جائے، کیونکہ دل میں ڈر علم ہی سے پیدا ہوتا ہے ، جیسا کہ فرمایا :(انما یخشی اللہ من عبادہ العلمٓوا) (فاطر : ٢٨)” اللہ سے صرف اس کے علم والے بندے ہی ڈرتے ہیں۔ “
اِذْہَبْ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰى ١٧ ۡ ۖ- ذهب - الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ويستعمل ذلک في الأعيان والمعاني، قال اللہ تعالی: وَقالَ إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] ،- ( ذ ھ ب ) الذھب - ذھب ( ف) بالشیء واذھبتہ لے جانا ۔ یہ اعیان ومعانی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں ۔ - إلى- إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت .- الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ : وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں - فِرْعَوْنُ- : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة .- فرعون - یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔- طغی - طَغَوْتُ وطَغَيْتُ «2» طَغَوَاناً وطُغْيَاناً ، وأَطْغَاهُ كذا : حمله علی الطُّغْيَانِ ، وذلک تجاوز الحدّ في العصیان . قال تعالی: اذْهَبْ إِلى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغى[ النازعات 17] - ( ط غ ی) طغوت وطغیت طغوانا وطغیانا - کے معنی طغیان اور سرکشی کرنے کے ہیں اور أَطْغَاهُ ( افعال) کے معنی ہیں اسے طغیان سرکشی پر ابھارا اور طغیان کے معنی نافرمانی میں حد سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنَّهُ طَغى[ النازعات 17] وہ بےحد سرکش ہوچکا ہے ۔
(١٧۔ ٢٠) کہ تم فرعون کے پاس جاؤ اس نے بڑا تکبر اور کفر اختیار کیا ہے اور اس سے کہو کہ اے فرعون کیا تجھے اس بات کی خواہش ہے کہ تو درست ہوجائے اور توحید خداوندی کا قائل ہوجائے اور میں تجھ کو تیرے پروردگار کی طرف بلاؤں تو تو اس سے ڈرنے لگے اور اسلام قبول کرے، پھر موسیٰ نے اس کو بڑی نشانی یعنی عصا اور ید بیضا دکھایا تو اس نے اس کے اللہ کی جانب سے ہونے کو جھٹلایا اور اسے قبول نہیں کیا۔
آیت ١٧ اِذْہَبْ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰی ۔ ” کہ جائو فرعون کے پاس ‘ وہ بہت سرکش ہوگیا ہے۔ “- حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس حکم کے تحت اللہ تعالیٰ کے رسول کی حیثیت سے فرعون کے پاس گئے تھے۔