19۔ 1 یعنی اس کی توحید اور عبادت کا راستہ، تاکہ تو اس کے عقاب سے ڈرے۔ اس لئے کہ اللہ کا خوف اسی دل میں پیدا ہوتا ہے جو ہدایت پر چلنے والا ہوتا ہے۔
[١٤] فرعون کو اللہ کا پیغام پہنچانا :۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اسی مقام پر ایک استدعا یہ بھی کی تھی کہ میرے بھائی ہارون کو بھی نبوت عطا کرکے میرے ہمراہ روانہ کیا جائے تاکہ کم از کم میرا ایک ساتھی تو میرا مددگار ہو۔ اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کی یہ استدعا قبول فرمائی اور سیدنا ہارون کو نبی بنا کر آپ کے ہمراہ کردیا مگر ساتھ ہی یہ تاکید کردی کہ فرعون چونکہ متکبر اور بددماغ ہے لہذا اس سے جو بات کہنی ہو نہایت نرم لہجے میں کہنا۔ اسی طرح ممکن ہے کہ وہ آپ کی بات سننے پر آمادہ ہوجائے ورنہ وہ جوش غضب میں بھڑک اٹھے گا۔ چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے نہایت نرم اور دل نشین انداز میں اسے سمجھایا کہ کیا تمہارے لیے یہ ممکن ہے کہ تم اس تکبر اور سرکشی کے رویہ سے باز آکر اللہ کے فرمانبردار بن جاؤ۔ اس طرح تمہاری یہ دنیا کی زندگی بھی سنور جائے گی اور آخرت بھی سنور جائے گی اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ میری رسالت کو تسلیم کرلو۔ میں تمہیں تمہارے پروردگار کی سیدھی راہ بتادوں گا۔ اگر تمہیں اپنے پروردگار کی صحیح معرفت حاصل ہوگئی تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ تم میں اللہ کی خشیت اور خوف پیدا ہوجائے گا اور جو کام بھی کرو گے اللہ سے ڈرتے ہوئے کرو گے اور یہ چیز تمہاری زندگی کو سنوارنے کا بہترین ذریعہ ہوگا۔
وَاَہْدِيَكَ اِلٰى رَبِّكَ فَتَخْشٰى ١٩ ۚ- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- خشی - الخَشْيَة : خوف يشوبه تعظیم، وأكثر ما يكون ذلک عن علم بما يخشی منه، ولذلک خصّ العلماء بها في قوله : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28]- ( خ ش ی ) الخشیۃ - ۔ اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہوجائے ، یہ بات عام طور پر اس چیز کا علم ہونے سے ہوتی ہے جس سے انسان ڈرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ؛۔ - إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] اور خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ میں خشیت الہی کے ساتھ علماء کو خاص کیا ہے ۔
سورة النّٰزِعٰت حاشیہ نمبر :8 یہاں چند باتیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہیں: ( 1 ) حضرت موسی کو منصب نبوت پر مقرر کرتے وقت جو باتیں ان کے اور اللہ کے درمیان ہوئی تھیں ان کو قرآن مجید میں حسب موقع کہیں مختصر اور کہیں مفصل بیان کیا گیا ہے ۔ یہاں موقع اختصار کا طالب تھا ، اس لیے ان کا صرف خلاصہ بیان کیا گیا ہے ۔ سورۃ طہٰ ، آیات 9 تا 48 ، سورۃ شعراء آیات 10 تا 17 ، سورہ نمل ، آیات 7 تا 12 ، اور سورہ قصص ، آیات 29 تا 35 میں ان کی تفصیل بیان ہوئی ہے ۔ ( 2 ) فرعون کی جس سرکشی کا یہاں ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد بندگی کی حد سے تجاوز کر کے خالق اور خلق ، دونوں کے مقابلے میں سرکشی کرنا ہے ۔ خالق کے مقابلے میں اس سرکشی کا ذکر تو آگے آ رہا ہے کہ اس نے اپنی رعیت کو جمع کر کے اعلان کیا کہ میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں ۔ اور خلق کے مقابلے میں اس کی سرکشی یہ تھی کہ اس نے اپنی مملکت کے باشندوں کو مختلف گروہوں اور طبقوں میں بانٹ رکھا تھا ، کمزور طبقوں پر وہ سخت ظلم و ستم ڈھا رہا تھا ، اور اپنی پوری قوم کو بیوقوف بنا کر اس نے غلام بنا رکھا تھا ، جیسا کہ سورہ قصص آیت 4 اور سورہ زخرف آیت 54 میں بیان کیا گیا ہے ۔ ( 3 ) حضرت موسی علیہ السلام کو ہدایت فرمائی گئی تھی کہ فقولا لہ قولا لینا لعلہ یتذکر او یخشی ، تم اور ہارون دونوں بھائی اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا ، شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے اور خدا سے ڈرے ۔ ( طہٰ ، آیت 44 ) اس نرم کلام کا ایک نمونہ تو ان آیات میں دیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مبلغ کو کسی بگڑے ہوئے آدمی کی ہدایت کے لیے کس حکمت کے ساتھ تبلیغ کرنی چاہیے ۔ دوسرے نمونے سورہ ، آیات 49 تا 52 ، الشعراء ، 23 تا 28 ، اور القصص ، آیت 37 میں دیے گئے ہیں ۔ یہ منجملہ ان آیات کے ہیں جن میں اللہ تعالی نے قرآن مجید میں حکمتِ تبلیغ کی تعلیم دی ہے ۔ ( 4 ) حضرت موسی صرف بنی اسرائیل کی رہائی کے لیے ہی فرعون کے پاس نہیں بھیجے گئے تھے ، جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے ، بلکہ ان کی بعثت کا پہلا مقصد فرعون اور اس کی قوم کو راہ راست دکھانا تھا اور دوسرا مقصد یہ تھا کہ اگر وہ راست قبول نہ کرے تو بنی اسرائیل کو ( جو اصل میں ایک مسلمان قوم تھے ) اس کی غلامی سے چھڑا کر مصر سے نکلال لائیں ۔ یہ بات ان آیات سے بھی ظاہر ہوتی ہے ، کیونکہ ان میں سرے سے بنی اسرائیل کی رہائی کا ذکر ہی نہیں ہے بلکہ حضرت موسی علیہ السلام کو فرعون کے سامنے صرف حق کی تبلیغ پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور ان مقامات سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے جہاں حضرت موسی نے تبلیغ اسلام بھی کی ہے اور بنی اسرائیل کی رہائی کا مطالبہ بھی فرمایا ہے ۔ مثلا ملاحظہ ہو ( الاعراف ، آیات 104 تا 105 ۔ طہٰ ، آیات 47 تا 52 ۔ الشعراء ، آیات 16 ۔ 17 ۔ و 23 تا 28 ) ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، یونس ، حاشیہ 74 ) ۔ ( 5 ) یہاں پاکیزگی ( تزکی ) اختیار کرنے کا مطلب عقیدے اور اخلاق اور اعمال کی پاکیزگی اختیار کرنا یا دوسرے الفاظ میں اسلام قبول کر لینا ہے ۔ چنانچہ وہ مثال میں قرآن مجید کی حسب ذیل تین آیات کو پیش کرتے ہیں ۔ و ذلک جزاؤ من تزکی ، اور یہ جزا ہے اس کی جو پاکیزگی اختیار کرے ۔ یعنی اسلام لائے ۔ وما یدریک لعلہ یزکی ، اور تمہیں کیا خبر شاید کہ وہ پاکیزگی اختیار کرے ۔ یعنی مسلمان ہو جائے ۔ وما علیک الا یزکی ، اور تم پر کیا ذمہ داری ہے اگر وہ پاکیزگی اختیار نہ کرے ۔ یعنی مسلمان نہ ہو ۔ ( ابن جریر ) ( 6 ) یہ ارشاد کہ میں تیرے رب کی طرف تیری رہنمائی کروں تو ( اس کا خوف ) تیرے دل میں پیدا ہو ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تو اپنے رب کو پہچان لے گا اور تجھے معلوم ہو جائے گا کہ تو اس کا بندہ ہے ، مردِ آزاد نہیں ہے ، تو لازماً تیرے دل میں اس کا خوف پیدا ہو گا ، اور خوف خدا ہی وہ چیز ہے جس پر دنیا میں آدمی کے رویے کے صحیح ہونے کا انحصار ہے ۔ خدا کی معرفت اور اس کے خوف کے بغیر کسی پاکیزگی کا تصور نہیں کیا جا سکتا ۔