[١٧] فرعون کا رعایا میں پروپیگنڈا :۔ میدان مقابلہ میں مات کھانے کے بعد بہت سے لوگ درپردہ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے لگے تو فرعون بہت سیخ پا ہوگیا۔ اس نے ایک دوسرا پینترا بدلا اور لوگوں سے کہنے لگا تم لوگ میرے مقابلہ میں اس شخص کی پیروی کرنے لگے ہو جو میرے مقابلہ میں ایک کمزور اور حقیر انسان ہے جبکہ میں تمہارا سب سے بڑا حکمران ہوں۔ تمہارے تمام وسائل معاش بھی میرے ہاتھ میں ہیں۔ فرعون نے اپنے آپ کو ان معنوں میں رب الاعلیٰ نہیں کہا تھا کہ وہ اپنے آپ کو خالق کائنات سمجھتا تھا بلکہ وہ اللہ تعالیٰ ہی کو کائنات کا خالق ومالک سمجھتا تھا۔ وہ اپنے آپ کو لوگوں کا معبود بھی نہیں کہتا تھا بلکہ وہ تو خود سورج دیوتا کی پرستش کرتا تھا۔ وہ اپنے آپ کو ملک میں سب سے بڑا سیاسی اقتدار کا مالک اور حکمران سمجھتا تھا۔ وہ یہ کہتا تھا کہ اس ملک میں سب سے بڑا سیاسی مقتدر اعلیٰ میں ہوں۔ میرے بغیر یہاں کسی دوسرے کا قانون یا حکم نہیں چل سکتا۔
فَقَالَ اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى ٢٤ ۡ ۖ- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔
آیت ٢٤ فَقَالَ اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی ۔ ” پس کہا کہ میں ہوں تمہارا سب سے بڑا ربّ “- ظاہر ہے فرعون نے خود کو ” ربّ “ اس معنی میں نہیں کہا تھا کہ وہ اس کائنات کا یا اپنے ملک کے لوگوں کا خالق ہے ‘ بلکہ وہ تو خود باطل معبودوں کو پوجتا تھا ( سورة الاعراف کی آیت ١٢٧ سے ثابت ہوتا ہے کہ فرعون اور اس کی قوم کے لوگوں نے پوجا پاٹ کے لیے اپنے کچھ معبود بھی بنا رکھے تھے) ۔ پھر اس کی رعیت میں بہت سے بڑے بوڑھے لوگ ایسے بھی ہوں گے جن کے سامنے وہ پیدا ہوا ہوگا اور جنہوں نے اس کا بچپن بھی دیکھا ہوگا۔ گویا اسے خود بھی معلوم تھا اور اس کی رعیت کے تمام لوگ بھی جانتے تھے کہ وہ عام انسانوں کی طرح پیدا ہوا ہے اور بحیثیت انسان وہ دوسرے عام انسانوں جیسا ہی ہے۔ چناچہ اس کا مذکورہ دعویٰ دراصل حکومت اوراقتدارِ اعلیٰ کے مالک ہونے کا دعویٰ تھا۔ اپنے اس دعوے کی مزید وضاحت اس نے ان الفاظ میں کی تھی : یٰـــقَوْمِ اَلَـیْسَ لِیْ مُلْکُ مِصْرَ وَہٰذِہِ الْاَنْہٰرُ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِیْج (الزخرف : ٥١) ” اے میری قوم کے لوگو کیا مصر کی حکومت میری نہیں ہے ؟ اور کیا یہ نہریں میرے نیچے نہیں بہہ رہی ہیں ؟ “ کہ دیکھو اس پورے ملک پر میرا حکم چلتا ہے ‘ پورے ملک کا نہری نظام بھی میرے تابع ہے ‘ میں جسے جو چاہوں عطا کروں اور جسے چاہوں محروم رکھوں ‘ میں مطلق اختیار اور اقتدار کا مالک ہوں۔ یہ تھا اس کا اصل دعویٰ اور یہی دعویٰ اپنے زمانے میں نمرود کا بھی تھا۔ - یہ دعویٰ دراصل اللہ تعالیٰ کے اقتدار و اختیار کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے اور اس لحاظ سے بہت بڑا شرک ہے۔ آج بدقسمتی سے یہ سیاسی شرک ” عوام کی حکومت “ کے لیبل کے ساتھ پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔ نمرودی اور فرعونی دور میں تو شرک کی گندگی کا یہ ٹوکرا کوئی ایک شخص اٹھائے پھرتا تھا ‘ یعنی ” حاکمیت “ کا دعوے دار کوئی ایک شخص ہوا کرتا تھا ‘ جبکہ آج اس گندگی کو تولوں اور ماشوں میں بانٹ کر ملک کے ہر شہری کو اس میں حصہ دار بنا دیا گیا ہے۔ ” جدید دور “ میں اس سیاسی شرک کو نئے بھیس میں متعارف کرانے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ اس کی تعبیر علامہ اقبال نے اپنی نظم ” ابلیس کی مجلس شوریٰ “ میں ابلیس کی زبان سے اس طرح کی ہے : ؎- ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس - جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر
سورة النّٰزِعٰت حاشیہ نمبر :11 فرعون کا یہ دعویٰ کئی مقامات پر قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے ۔ ایک موقع پر اس نے حضرت موسی سے کہا کہ اگر تم نے میرے سوا کسی اور کو خدا بنایا تو میں تمہیں قید کر دوں گا ۔ ( الشعراء آیت 29 ) ۔ ایک اور موقع پر اس نے اپنے دربار میں لوگوں کو خطاب کر کے کہا اے سرداران قوم ، میں نہیں جانتا کہ میرے سوا تمہارا کوئی اور خدا بھی ہے ۔ ( القصص ، آیت 38 ) ۔ ان ساری باتوں سے فرعون کا یہ مطلب نہ تھا اور نہیں ہو سکتا تھا کہ وہی کائنات کا خالق ہے اور اسی نے یہ دنیا پیدا کی ہے ۔ یہ مطلب بھی نہ تھا کہ وہ اللہ تعالی کی ہستی کا منکر اور خود رب العالمین ہونے کا مدعی تھا ۔ یہ مطلب بھی نہ تھا کہ وہ صرف اپنے آپ ہی کو مذہبی معنوں میں لوگوں کا معبود قرار دیتا تھا ۔ قرآن مجید ہی میں اس بات کی شہادت موجود ہے کہ جہاں تک مذہب کا تعلق ہے وہ خود دوسرے معبودوں کی پرستش کرتا تھا ۔ چنانچہ اس کے اہل دربار ایک موقع پر اس کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ کیا آپ موسی اور اس کی قوم کو یہ آزادی دیتے چلے جائیں گے کہ وہ ملک میں فساد پھیلائیں اور آپ کو اور آپ کے معبودوں کو چھوڑ دیں؟ ( الاعراف ، آیت127 ) ۔ اور قرآن میں فرعون کا یہ قول بھی نقل کیا گیا ہے کہ اگر موسی خدا کا بھیجا ہوا ہوتا تو کیوں نے اس پر سونے کے کنگن اتارے گئے؟ یا اس کے ساتھ ملائکہ اس کی اردلی میں کیوں نہ آئے؟ ( الزخرف ، آیت 53 ) ۔ پس درحقیقت وہ مذہبی معنی میں نہیں بلکہ سیاسی معنی میں اپنےآپ کو الہ اور رب اعلی کہتا تھا ، یعنی اس کا مطلب یہ تھا کہ اقتدار اعلی کا مالک میں ہوں ، میرے سوا کسی کو میری مملکت میں حکم چلانے کا حق نہیں ہے ، اور میرے اوپر کوئی بالاتر طاقت نہیں ہے جس کا فرمان یہاں جاری ہو سکتا ہو ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الاعراف ، حاشیہ 85 ۔ جلد سوم ، طٰہٰ ، حاشیہ 21 ۔ الشعراء ، حواشی 24 ۔ 26 ۔ القصص ، حواشی 52 ۔ 53 ۔ جلد چہارم ، الزخرف ، حاشیہ 49 ) ۔