Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

موت و حیات کی سرگزشت جو لوگ مرنے کے بعد زندہ ہونے کے منکر تھے ، انہیں پروردگار دلیلیں دیتا ہے کہ تمہاری پیدائش سے تو بہت زیادہ مشکل پیدائش آسمانوں کی ہے جیسے اور جگہ ہے آیت ( لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ 57؀ ) 40-غافر:57 ) یعنی زمین و آسمان کی پیدائش انسانوں کی پیدائش سے زیادہ بھاری ہے اور جگہ ہے آیت ( اَوَلَيْسَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓي اَنْ يَّخْلُقَ مِثْلَهُمْ ڲ بَلٰى ۤ وَهُوَ الْخَــلّٰقُ الْعَلِـيْمُ 81؀ ) 36-يس:81 ) کیا جس نے زمین و آسمان پیدا کر دیا ہے ان جیسے انسانوں کو دوبارہ پیدا کرنے پر قدرت نہیں رکھتا ؟ ضرور وہ قادر ہے اور وہ ہی بڑا پیدا کرنے والا اور خوب جاننے والا ہے ، آسمان کو اس نے بنایا یعنی بلند و بالا خوب چوڑا اور کشادہ اور بالکل برابر بنایا پھر اندھیری راتوں میں خوب چمکنے والے ستارے اس میں جڑ دیئے ، رات کو سیاہ اور اندھیرے والی بنایا اور دن کو روشن اور نور والا بنایا اور زمین کو اس کے بعد بچھا دیا یعنی پانی اور چارہ نکالا ۔ سورہ حم سجدہ میں یہ بیان گزر چکا ہے کہ زمین کی پیدائش تو آسمان سے پہلے ہے ہاں اس کی برکات کا اظہار آسمانوں کی پیدائش کے بعد ہوا جس کا بیان یہاں ہو رہا ہے ، ابن عباس اور بہت سے مفسرین سے یہی مروی ہے ، امام ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں ، اس کا تفصیلی بیان گزر چکا ہے اور پہاڑوں کو اس نے خوب مضبوط گاڑ دیا ہے وہ حکمتوں والا صحیح علم والا ہے اور ساتھ ہی اپنی مخلوق پر بیحد مہربان ہے ، مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے زمین کو پیدا کیا وہ ہلنے لگی پروردگار نے پہاڑوں کو پیدا کر کے زمین پر گاڑ دیا جس سے وہ ٹھہر گئی فرشتوں کو اس سے سخت تر تعجب ہوا اور پوچھنے لگے اللہ تیری مخلوق میں ان پہاڑوں سے بھی زیادہ سخت چیز کوئی اور ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہاں لوہا ، پوچھا اس سے بھی زیادہ سخت ؟ فرمایا آگ ، پوچھا اس سے بھی زیادہ سخت؟ فرمایا ہاں پانی ، پوچھا اس سے بھی زیادہ سخت؟ فرمایا ہوا ، پوچھا پروردگار کیا تیری مخلوق میں اس سے بھاری کوئی اور چیز ہے؟ فرمایا ہاں ابن آدم وہ یہ ہے کہ اپنے دائیں ہاتھ سے جو خرچ کرتا ہے اس کی خبر پائیں ہاتھ کو بھی نہیں ہوتی ، ابن جریر میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جب زمین کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا تو وہ کانپنے لگی اور کہنے لگی تو آدم اور اس کی اولاد کو پیدا کرنے والا ہے جو اپنی گندگی مجھ پر ڈالیں گے اور میری پیٹھ پر تیری نافرمانیاں کریں گے ، اللہ تعالیٰ نے پہاڑ گاڑ کر زمین کو ٹھہرا دیا بہت سے پہاڑ تم دیکھ رہے ہو اور بہت سے تمہاری نگاہوں سے اوجھل ہیں ، زمین کا پہاڑوں کے بعد سکون حاصل کرنا بالکل ایسا ہی تھا جیسے اونٹ کو ذبح کرتے ہی اس کا گوشت تھرکتا رہتا ہے پھر کچھ دیر بعد ٹھہر جاتا ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ یہ سب تمہارے اور تمہارے جانوروں کے فائدے کے لئے ہے ، یعنی زمین سے چشموں اور نہروں کا جاری کرنا زمین کے پوشیدہ خزانوں کو ظاہر کرنا کھیتیاں اور درخت اگانا پہاڑوں کا گاڑنا تاکہ زمین سے پورا پورا فائدہ تم اٹھا سکو ، یہ سب باتیں انسانوں کے فائدے کیلئے ہیں اور ان کے جانوروں کے فائدے کے لئے پھر وہ جانور بھی انہی کے فائدے کے لئے ہیں کہ بعض کا گوشت کھاتے ہیں بعض پر سواریاں لیتے ہیں اور اپنی عمر اس دنیا میں سکھ چین سے بسر کر رہے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

27۔ 1 یہ کفار مکہ کو خطاب ہے اور مقصود تنبیہ ہے کہ جو اللہ اتنے بڑے آسمانوں اور ان کے عجائبات کو پیدا کرسکتا ہے، اس کے لئے تمہارا دوبارہ پیدا کرنا آسمان بنانے سے زیادہ مشکل ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٩] مختصر طور پر قصہ فرعون بیان کرنے کے بعد اب پھر اصل مضمون یعنی عقیدہ آخرت کی طرف رجوع کرتے ہوئے کافروں سے سوال کیا جارہا ہے کہ کیا اس کائنات کو وجود میں لانا زیادہ مشکل کام ہے یا تمہیں پہلی بار یا دوسری بار پیدا کرنا ؟ یہاں لفظ سماء استعمال ہوا ہے جس سے مراد آسمان بھی ہوسکتا ہے اور تمام عالم بالا بھی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ء انتم اشد خلقاً …: شرع سورت میں قیامت حق ہونے کی دلیل کے طور پر فرشتوں کا اور ان چند امور کا ذکر فرمایا جو وہ سر انجام دیتے ہیں، یعنی ان فرشتوں کے رب کے لئے تمہیں دوبارہ زندہ کرنا کون سا مشکل کام ہے ؟ یہاں سے پھر قیامت کے دلائل کا ذکر شروع ہوتا ہے۔ چناچہ آیت (٢٧) سے (٣٣) تک اللہ تعالیٰ نے اپنی کئی عظیم الشان مخلوقات کا ذکر فرمایا کہ اتنی قدرتوں والے پروردگار کے لئے تمہیں دوبارہ زندہ کرنے میں کیا دشواری ہوسکتی ہے ؟

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ءَ اَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَاۗءُ۝ ٠ ۭ بَنٰىہَا۝ ٢٧ ۪- الف ( ا)- الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع :- نوع في صدر الکلام .- ونوع في وسطه .- ونوع في آخره .- فالذي في صدر الکلام أضرب :- الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية .- فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام 144] .- والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم .- وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة :- 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر 37] .- الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو :- أسمع وأبصر .- الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم 11] ونحوهما .- الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو :- العالمین .- الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد .- والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين .- والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو :- اذهبا .- والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ .- ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1) أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَلَسْتُ بِرَبِّكُم [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ أَوَلَا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں " کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا الْعَالَمِينَ [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ اذْهَبَا [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب : 10] فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف " اشباع پڑھاد یتے ہیں )- شد - الشَّدُّ : العقد القويّ. يقال : شَدَدْتُ الشّيء :- قوّيت عقده، قال اللہ : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] ،- ( ش دد ) الشد - یہ شدد ت الشئی ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی مضبوط گرہ لگانے کے ہیں ۔ قرآں میں ہے - : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] اور ان کے مفاصل کو مضبوط بنایا ۔ - خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - أَمْ»حرف - إذا قوبل به ألف الاستفهام فمعناه :- أي نحو : أزيد أم عمرو، أي : أيّهما، وإذا جرّد عن ذلک يقتضي معنی ألف الاستفهام مع بل، نحو : أَمْ زاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصارُ [ ص 63] أي : بل زاغت . ( ا م حرف ) ام ۔ جب یہ ہمزہ استفہام کے بالمقابل استعمال ہو تو بمعنی اور ہوتا ہے جیسے ازید فی الدار ام عمرو ۔ یعنی ان دونوں میں سے کون ہے ؟ اور اگر ہمزہ استفہام کے بعد نہ آئے تو بمعنیٰ بل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ ( سورة ص 63) ( یا) ہماری آنکھیں ان ( کی طرف ) سے پھر گئی ہیں ۔- سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- بنی - يقال : بَنَيْتُ أَبْنِي بِنَاءً وبِنْيَةً وبِنًى. قال عزّ وجلّ : وَبَنَيْنا فَوْقَكُمْ سَبْعاً شِداداً [ النبأ 12] . والبِنَاء : اسم لما يبنی بناء، قال تعالی: لَهُمْ غُرَفٌ مِنْ فَوْقِها غُرَفٌ مَبْنِيَّةٌ [ الزمر 20] ، والبَنِيَّة يعبر بها عن بيت اللہ تعالیٰ «2» . قال تعالی: وَالسَّماءَ بَنَيْناها بِأَيْدٍ [ الذاریات 47] ، وَالسَّماءِ وَما بَناها [ الشمس 5] ، والبُنيان واحد لا جمع، لقوله تعالی: لا يَزالُ بُنْيانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ [ التوبة 110] ، وقال : كَأَنَّهُمْ بُنْيانٌ مَرْصُوصٌ [ الصف 4] ، قالُوا : ابْنُوا لَهُ بُنْياناً [ الصافات 97] ، وقال بعضهم : بُنْيَان جمع بُنْيَانَة، فهو مثل : شعیر وشعیرة، وتمر وتمرة، ونخل ونخلة، وهذا النحو من الجمع يصح تذكيره وتأنيثه .- و - ( ب ن ی )- بنیت ابنی بناء وبنیتہ وبنیا کے معنی تعمیر کرنے کے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَبَنَيْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعًا شِدَادًا ( سورة النبأ 12) اور تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان بنائے وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ ( سورة الذاریات 47) اور آسمانوں کو ہم ہی نے ہاتھوں سے بنایا ۔ وَالسَّمَاءِ وَمَا بَنَاهَا ( سورة الشمس 5) اور آسمان اور اس ذات کی ( قسم ) جس نے اسے بنایا ۔ البنیان یہ واحد ہے جمع نہیں ہے جیسا کہ آیات ۔ لَا يَزَالُ بُنْيَانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ ( سورة التوبة 110) یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے ہمیشہ ان کے دلوں میں ( موجب ) خلجان رہے گی ۔ كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ ( سورة الصف 4) کہ گویا سیساپلائی ہوئی دیوار ہیں : قَالُوا ابْنُوا لَهُ بُنْيَانًا فَأَلْقُوهُ فِي الْجَحِيمِ ( سورة الصافات 97) وہ کہنے لگے کہ اس کے لئے ایک عمارت بناؤ ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ بعض کے نزدیک یہ بنیانۃ کی جمع ہے اور یہ : شعیر شعیر وتمر وتمر ونخل ونخلتہ کی طرح ہے یعنی جمع اور مفرد میں تا کے ساتھ فرق کرتے ہیں اور جمع کی اس قسم میں تذکر وتانیث دونوں جائز ہوتے ہیں لَهُمْ غُرَفٌ مِنْ فَوْقِها غُرَفٌ مَبْنِيَّةٌ [ الزمر 20] ان کے لئے اونچے اونچے محل ہیں جن کے اوپر بالا خانے بنے ہوئے ہیں ۔ بناء ( مصدر بمعنی مفعول ) عمارت جمع ابنیتہ البنیتہ سے بیت اللہ مراد لیا جاتا ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٧۔ ٣٣) اے مکہ والو بھلا تمہار دوسری دفعہ پیدا کرنا زیادہ سخت ہے یا آسمان کا بنانا، اللہ نے اس کی چھت کو بلند کیا۔- اور زمین پر درست کیا اور اس کی رات کو سیاہ اور اندھیرے والی بنایا اور اس کے دن اور اس کے سورج کو روشن بنایا اور اس کے ساتھ زمین کو پانی پر بچھایا، یا یہ کہ اس کے دو ہزار سال بعد بچھایا اور زمین سے اس کا جاری اور غیر جاری پانی اور چارہ نکالا اور پہاڑوں کو اس کی میخیں بنایا، اور یہ پانی اور گھاس تمہارے اور تمہارے مویشیوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

اب اگلی آیات میں بعث بعد الموت کے حوالے سے مشرکین کے طنزیہ تبصروں کا تفصیلی جواب دیا جارہا ہے :

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النّٰزِعٰت حاشیہ نمبر :13 اب قیامت اور حیات بعد الموت کے ممکن اور مقضائے حکمت ہونے کے دلائل بیان کیے جا رہے ہیں ۔ سورة النّٰزِعٰت حاشیہ نمبر :14 تخلیق سے مراد انسانوں کی دوبارہ تخلیق ہے اور آسمان سے مراد وہ پورا عالم بالا ہے جس میں بے شمار ستارے اور سیارے ، بے حد و حساب شمسی نظام اور ان گنت کہکشاں پائے جاتے ہیں مطلب یہ ہے کہ تم جو موت کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے کو کوئی بڑی ہی امر محال سمجھتے ہو ، اور بار بار کہتے ہو کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ جب ہماری ہڈیاں تک بوسیدہ ہو چکی ہوں گی اس حالت میں ہمارے پراگندہ اجزائے جسم پھر سے جمع کر دیے جائیں اور ان میں جان ڈال دی جائے ، کبھی اس بات پر بھی غور کرتے ہو کہ اس عظیم کائنات کا بنانا زیادہ سخت مشکل کام ہے یا تمہیں ایک مرتبہ پیدا کر چکنے کے بعد دوبارہ اسی شکل میں پیدا کر دینا ؟ جس خدا کے لیے وہ کوئی مشکل کام نہ تھا اس کے لیے ( آخر یہ کیوں ایسا مشکل کام ہے کہ وہ اس پر قادر نہ ہو سکے؟ حیات بعد الموت پر یہی دلیل قرآن مجید میں متعدد مقامات پر دی گئی ہے ۔ مثلاً سورۃ یسین میں ہے اور کیا وہ جس نے آسمان اور زمین کو بنایا اس پر قادر نہیں ہے کہ ان جیسوں کو ( پھر سے ) پیدا کر دے؟ کیوں نہیں ، وہ تو بڑا زبردست خالق ہے ، تخلیق کے کام کو خوب جانتا ہے ( آیت 81 ) ۔ اور سورہ مومن میں فرمایا یقیناً آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنا انسانوں کو پیدا کرنے سے زیادہ بڑا کام ہے ، مگر اکثر جانتے نہیں ہیں ( آیت 57 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

9: عرب کے کافر لوگ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کا جو اِنکار کرتے تھے، اُس کی وجہ یہ تھی کہ وہ کسی مُردے کے زندہ ہونے کو بہت مشکل سمجھتے تھے۔ اﷲ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ کائنات کی دوسری چیزوں، مثلا آسمان، کے مقابلے میں اِنسان کو پیدا کرنا زیادہ آسان ہے، اگر تم مانتے ہو کہ آسمان اﷲ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہے تو پھر اِنسان کو دوبارہ پیدا کرنا اُس کے لئے کیا مشکل ہے؟