Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

42۔ 1 یعنی قیامت کب واقع اور قائم ہوگی ؟ جس طرح کشتی اپنے آخری مقام پر پہنچ کر لنگر انداز ہوتی ہے اسی طرح قیامت کے واقع کا صحیح وقت کیا ہے ؟

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

یسئلونک عن الساعۃ ایان مرسھا :” مرسھا “ ارسی یرسی “ (افعال) سے مصدر ہو تو معنی ہوگا ” اس کا وقوع یا قیام “ اور اگر ظرف ہو تو معنی ہے ” اس کے قیام کا وقت۔ “ کافر لوگ یہ سوال بار بار کرتے تھے، اس سے ان کا مقصد قیامت کا وقتا ور تاریخ معلوم کرنا نہیں تھا بلکہ اسے جھٹلانا اور اس کا مذاق اڑانا ہوتا تھا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يَسْـــَٔــلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَۃِ اَيَّانَ مُرْسٰـىہَا۝ ٤٢ ۭ- سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔- ساعة- السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187]- ( س و ع ) الساعۃ - ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔- أَيَّانَ- عبارة عن وقت الشیء، ويقارب معنی متی، قال تعالی: أَيَّانَ مُرْساها [ الأعراف 187] ، أَيَّانَ يَوْمُ الدِّينِ [ الذاریات 12] من قولهم : أي، وقیل : أصله : أيّ أوان، أي :- أيّ وقت، فحذف الألف ثم جعل الواو ياء فأدغم فصار أيّان . و :- ( ایان ) ایان - ( کب ) کسی شے کا وقت دریافت کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہ قریب قریب متی) کے ہم معنی ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ أَيَّانَ مُرْساها [ الأعراف 187] کہ اس ( قیامت ) کا وقوع کب ہوگا ۔ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ ( سورة النحل 21) ان کو بھی یہ معلوم نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے أَيَّانَ يَوْمُ الدِّينِ ( سورة الذاریات 12) کہ جزا کا دن کب ہوگا ۔ لفظ ایان دراصل امی سے مشتق ہے اور بعض کے نزدیک اس کی اصل ائ اوان ہے جس کے معنی ہیں کونسا وقت ، ، الف کو حذف کرکے واؤ کو یاء اور پھر اسے یاء میں ادغام کرکے ایان بنا لیا گیا ہے ۔ - رسا - يقال : رَسَا الشیء يَرْسُو : ثبت، وأَرْسَاهُ غيره، قال تعالی: وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ 13] ، وقال تعالی: ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها وَمُرْساها - من : أجریت، وأَرْسَيْتُ ، فالمُرْسَى يقال للمصدر، والمکان، والزمان، والمفعول، وقرئ : ( مجريها ومرسيها) - ( ر س و ) رسا الشئی - ۔ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے کسی جگہ پر ٹھہرنے اور استوار ہونے کے ہیں اور ارسٰی کے معنی ٹھہرانے اور استوار کردینے کے ۔ قرآن میں ہے : وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ 13] اور بڑی بھاری بھاری دیگیں جو ایک پر جمی رہیں ۔ اور قرآن میں جو ہے ۔ ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها وَمُرْساها«3» اللہ کے نام سے اس کا چلنا اور لنگر انداز ہونا ہے ۔ تو یہ اجریت وارسیت ( باب افعال ) سے موخوذ ہے ۔ اور مرسی کا لفظ مصدر میمی آتا ہے اور صیغہ ظرف زمان ومکان اور اسم مفعول بھی استعمال ہوتا ہے اور آیت نذکورۃ الصدر میں ایک قرات وقرئ : ( مجريها ومرسيها) - بھی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اے محمد کفار مکہ آپ سے بطور تعریض کے قیامت کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہ کب قائم ہوگی۔- شان نزول : يَسْـــَٔــلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ (الخ)- حاکم اور ابن جریر نے حضرت عائشہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم سے قیامت کے بارے میں دریافت کیا جاتا تھا یہاں تک کہ آپ پر یہ آیت نازل ہوئی۔- اور ابن ابی حاتم، ضحاک عن جبیر کے طریق سے حضرت ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ مشرین مکہ نے نبی اکرم سے بطور استہزاء کے دریافت کیا کہ قیامت کب قائم ہوگی اس پر اللہ تعالیٰ نے اخیر تک آپ پر یہ آیت نازل فرمائی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النّٰزِعٰت حاشیہ نمبر :22 کفار مکہ رسول اللہ سے یہ سوال بار بار کرتے تھے اور اس سے مقصود قیامت کی آمد کا وقت اور اس کی تاریخ معلوم کرنا نہیں ہوتا تھا بلکہ اس کا مذاق اڑانا ہوتا تھا ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد ششم ، تفسیر سورہ ملک ، حاشیہ 35 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani