11۔ 1 یعنی غریب سے یہ روگردانی اور اصحاب حیثیت کی طرف خصوصی توجہ، یہ ٹھیک نہیں۔ مطلب ہے کہ، آئندہ ایسا دوبارہ نہ ہو۔
[٦] یعنی قرآن کی عزت و وقعت کا انحصار ایسے مغرور اور سر پھروں کے ماننے پر نہیں ہے۔ اگر یہ لوگ قرآن کی نصیحت پر عمل نہیں کرتے تو اپنا ہی نقصان کریں گے۔ قرآن کو ان کی کیا پروا ہوسکتی ہے اور نہ ہی آپ کو ایسے لوگوں کے پیچھے پڑنے کی ضرورت ہے۔
کلا انھا تذکرہ…:” کلا “ ہرگز نہیں ، یعنی جو ہوا سو ہوا، آئندہ ہرگز اس طرح نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ یہ قرآن تو ایک نصیحت ہے جو ہر خاص و عام کے لئے ہے، اس میں کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح نہیں دی جانی چاہیے، پھر جو چاہے نصیحت قبول کرلے، اس کا اپنا فائدہ ہے اور کوئی متکبر اگر صنیحت سن لینے کے باوجود اسے قبول نہیں کرتا تو آپ کو بھی قبول کرنے والوں کو چھوڑ کر اس کے پیھچے پڑنے کی ضرورت نہیں۔
سورة عَبَس حاشیہ نمبر :3 یعنی ایسا ہرگز نہ کرو ۔ خدا کو بھولے ہوئے اور اپنی دنیوی وجاہت پر پھولے ہوئے لوگوں کو بے جا اہمیت نہ دو ۔ نہ اسلام کی تعلیم ایسی چیز ہے کہ جو اس سے منہ موڑے اس کے سامنے اسے بالحاح پیش کیا جائے ، اور نہ تمہاری یہ شان ہے کہ ان مغرور لوگوں کو اسلام کی طرف لانے کے لیے کسی ایسے اندازے سے کوشش کرو جس سے یہ اس غلط فہمی میں پڑ جائیں کہ تمہاری کوئی غرض ان سے اٹکی ہوئی ہے ، یہ مان لیں گے تو تمہاری دعوت فروغ پا سکے گی ورنہ ناکام ہو جائے گی ۔ حق ان سے اتنا ہی بے نیاز ہے جتنے یہ حق سے بے نیاز ہیں ۔ سورة عَبَس حاشیہ نمبر :4 مراد ہے قرآن ۔