10۔ 1 یعنی ایسے لوگوں کی قدر افزائی کی ضرورت ہے نہ کہ ان سے بےرخی برتنے کی۔ ان آیات سے یہ معلوم ہوا کہ دعوت و تبلیغ میں کسی کو خاص نہیں کرنا چاہیے بلکہ صاحب حیثیت اور بےحیثیت، امیر اور غریب، آقا اور غلام مرد اور عورت، چھوٹے اور بڑے سب کو یکساں حیثیت دی جائے اور سب کو مشترکہ خطاب کیا جائے۔
فَاَنْتَ عَنْہُ تَلَہّٰى ١٠ ۚ كَلَّآ اِنَّہَا تَذْكِرَۃٌ ١١ ۚ- تلهّى: فيه إعلال بالقلب شأنه شأن استغنی، وفيه حذف إحدی التاء ین تخفیفا .- كلا - كَلَّا : ردع وزجر وإبطال لقول القائل، وذلک نقیض «إي» في الإثبات . قال تعالی: أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم 77- 79] وقال تعالی: لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون 100] إلى غير ذلک من الآیات، وقال : كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس 23] .- کلا یہ حرف روع اور زجر ہے اور ماقبل کلام کی نفی کے لئے آتا ہے اور یہ ای حرف ایجاب کی ضد ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں ہے ۔ أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم 77- 79] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں سے کفر کیا ۔ اور کہنے لگا اگر میں ازسر نو زندہ ہوا بھی تو یہی مال اور اولاد مجھے وہاں ملے گا کیا اس نے غیب کی خبر پالی ہے یا خدا کے یہاں ( سے ) عہد لے لیا ہے ہر گز نہیں ۔ لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون 100] تاکہ میں اس میں جسے چھوڑ آیا ہوں نیک کام کروں ہرگز نہیں ۔ كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس 23] کچھ شک نہیں کہ خدا نے سے جو حکم دیا ۔ اس نے ابھی تک اس پر عمل نہیں کیا ۔ اور اس نوع کی اور بھی بہت آیات ہیں ۔- تَّذْكِرَةُ- : ما يتذكّر به الشیء، وهو أعمّ من الدّلالة والأمارة، قال تعالی: فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر 49] ، كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس 11] ، أي : القرآن . وذَكَّرْتُهُ - التذکرۃ - جس کے ذریعہ کسی چیز کو یاد لایا جائے اور یہ دلالت اور امارت سے اعم ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر 49] ان کو کیا ہوا کہ نصیحت سے روگرداں ہورہے ہیں ۔ كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس 11] دیکھو یہ ( قرآن ) نصیحت ہے ۔ مراد قرآن پاک ہے ۔ ذَكَّرْتُهُ كذا
سورة عَبَس حاشیہ نمبر :2 یہی ہے وہ اصل نکتہ جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین کے معاملہ میں اس موقع پر نظر انداز کر دیا تھا ، اور اسی کو سمجھانے کے لیے اللہ تعالی نے پہلے ابن ام مکتوم کے ساتھ آپ کے طرز عمل پر گرفت فرمائی ، پھر آپ کو بتایا کہ داعی حق کی نگاہ میں حقیقی اہمیت کس چیز کی ہونی چاہیے اور کس کی نہ ہونی چاہیے ۔ ایک وہ شخص ہے جس کی ظاہری حالت صاف بتا رہی ہے کہ وہ طالب حق ہے ، اس بات سے ڈر رہا ہے کہ کہیں وہ باطل کی پیروی کر کے خدا کے غضب میں مبتلا نہ ہو جائے ، اس لیے وہ راہ راست کا علم حاصل کرنے کی خاطر خود چل کر آتا ہے ۔ دوسرا وہ شخص ہے جس کا رویہ صریحا یہ ظاہر کر رہا ہے کہ اس میں حق کی کوئی طلب نہیں پائی جاتی ، بلکہ وہ اپنے آپ کو اس سے بے نیاز سمجھتا ہے کہ اسے راہ راست بتائی جائے ۔ ان دونوں قسم کے آدمیوں کے درمیان دیکھنے کی چیز یہ نہیں ہے کہ کون ایمان لے آئے تو دین کے لیے بہت مفید ہو سکتا ہے اور کس کا ایمان لانا دین کے فروغ میں کچھ زیادہ مفید نہیں ہو سکتا ۔ بلکہ دیکھنا یہ چاہیے کہ کون ہدایت کو قبول کر کے سدھرنے کے لیے تیار ہے اور کون اس متاع گراں مایہ کا سرے سے قدر دان ہی نہیں ہے ۔ پہلی قسم کا آدمی ، خواہ اندھا ہو ، لنگڑا ہو ، لولا ہو ، فقیر بے نوا ہو ، بظاہر دین کی طرف اسے توجہ کرنی چاہیے ، کیونکہ اس دعوت کا اصل مقصد بندگان خدا کی اصلاح ہے ، اور اس شخص کا حال یہ بتا رہا ہے کہ اسے نصیحت کی جائے گی تو وہ اصلاح قبول کر لے گا ۔ رہا دوسری قسم کا آدمی ، تو خواہ وہ معاشرے میں کتنا ہی با اثر ہو ، اس کے پیچھے پڑنے کی داعی حق کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ کیونکہ اس کی روش علانیہ یہ بتا رہی ہے کہ وہ سدھرنا نہیں چاہتا ، اس لیے اس کی اصلاح کی کوشش میں وقت صرف کرنا وقت کا ضیاع ہے وہ اگر نہ سدھرنا چاہے تو نہ سدھرے ، نقصان اس کا اپنا ہو گا ، داعی حق پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ۔