9۔ 1 خدا کا خوف بھی اس کے دل میں ہے۔
[٥] یعنی اندھا ہونے کے باوجود کوشش کرکے محض اسلام کی باتیں سمجھنے کے لیے آپ تک پہنچا ہے۔ اس کا کوئی ہاتھ پکڑنے والا بھی نہیں تھا۔ اسے یہ بھی اندیشہ تھا کہ کہیں کسی گڑھے میں نہ گرجائے یا کسی چیز سے ٹکرا کر گرپڑے۔ یا راہ میں اسلام دشمن لوگ اسے ستائیں تو وہ کیا کرے گا محض وہ طلب حق کی خاطر اور اللہ سے ڈرتے ہوئے آپ تک پہنچا ہے تو آپ کو اس کی اس محنت اور طلب صادق کی قدر کرنا چاہیے تھی اور اس کی طرف پہلے متوجہ ہونا چاہیے تھا۔
وَہُوَيَخْشٰى ٩ ۙ- خشی - الخَشْيَة : خوف يشوبه تعظیم، وأكثر ما يكون ذلک عن علم بما يخشی منه، ولذلک خصّ العلماء بها في قوله : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28]- ( خ ش ی ) الخشیۃ - ۔ اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہوجائے ، یہ بات عام طور پر اس چیز کا علم ہونے سے ہوتی ہے جس سے انسان ڈرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ؛۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] اور خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ میں خشیت الہی کے ساتھ علماء کو خاص کیا ہے ۔