من ای شیء خلفہ…: یعنی اس شخص کو تکبر اور ناشکری کس طرح زیب دیتی ہے جسے اس کے بنانے والے نے مٹی کے ایک حقیر قطرے سے پیدا فرمایا ؟ پیدا کرنے کے دوران اس کی ہر چیز کا اندازہ مقرر فرمایا کہ اتنی مدت نطفہ رہے گا، پھر علقہ، پھر مضغہ بےروح، پھر جاندار اور خبوصورت انسان بنے گا۔ پھر اس کی ہر چیز اندازے کے ساتھ بنائی، کوئی چیز بےڈھب نہیں۔ پھر ماں کے شکم ہی میں وہ سب کچھ فرشتے کو لکھوا دیا جو اس نے زندگی بھر کرنا تھا۔” فقدرہ “ میں تینوں چیزیں شامل ہیں۔
سابقہ آیات میں قرآن کریم کا عالیشان واجب الایمان ہونا بیان کرنے کے بعد کافر انسان جو قرآن کے منکر ہیں ان پر لعنت اور اللہ کی نعمت کی ناشکری کی تنبیہ ہے اور قرآن کا منجاب اللہ ایک نعمت عظیم ہونا تو ایک معنوی چیز ہے جس کو اہل علم وفہم ہی سمجھ سکتے ہیں آگے ان انعامات الہیہ کا ذکر ہے جو انسان کی تخلیق سے آخر تک انسان پر مبذول ہوتے رہتے ہیں۔ یہ مادی اور محسوس چیز ہے جسکو ادنی شعور والا انسان بھی سمجھ سکتا ہے۔ اسی سلسلے میں تخلیق انسانی کا ذکر فرمایا مِنْ اَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهٗ 18ۭ مِنْ نُّطْفَةٍ پہلے تو اس میں ایک سوال کیا گیا کہ اے انسان تو غور کر تجھے اللہ نے کس چیز سے پیدا کیا ہے اور چونکہ اس کا جواب متعین ہے، اس کے سوا کوئی دوسرا جواب ہو ہی نہیں سکتا، اس لئے پھر خود ہی فرمایا من نطفة یعنی انسان کو نطفہ سے پیدا کیا، پھر فرمایا خَلَقَهٗ فَقَدَّرَهٗ یعنی یہی نہیں کہ نطفہ سے ایک جاندار کا وجود بنادیا بلکہ اس کو ایک خاص اندازہ اور بڑی حکمت سے بنایا، اس کے قد و قامت اور جسامت اور شکل و صورت اور اعضا کے طول وعرض اور جوڑ بند اور آنکھ ناک کان وغیرہ کی تخلیق میں ایسا اندازہ قائم فرمایا کہ ذرا اس کے خلاف ہوجائے تو انسان کی صورت بگڑ جائے اور کام کاج مصیبت بن جائے۔
مِنْ اَيِّ شَيْءٍ خَلَقَہٗ ١٨ ۭ- أيا - أَيُّ في الاستخبار موضوع للبحث عن بعض الجنس والنوع وعن تعيينه، ويستعمل ذلک في الخبر والجزاء، نحو : أَيًّا ما تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الإسراء 110] ، وأَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلا عُدْوانَ عَلَيَّ [ القصص 28]- ( ا ی ی ) ای ۔- جب استفہام کیلئے ہو تو جنس یا نوع کی تعیین اور تحقیق کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور یہ خبر اور جزا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى ( سورة الإسراء 110) جس نام سے اسے پکارا اس کے سب نام اچھے ہیں أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ ( سورة القصص 28) کہ میں جونسی مدت ( چاہو ) پوری کردوں پھر مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو ۔- شيء - الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم .- ( ش ی ء ) الشئی - بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ،- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے