Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٧] بارش کا زمین پر اثر : یعنی انسان اگر اپنے کھانے کی چیزوں میں ہی غور کرلیتا تو اسے اپنے پروردگار کی ناشکری کی کبھی جرأت نہ ہوسکتی تھی۔ انسان کا کام صرف اتنا ہے کہ وہ زمین میں سطح زمین سے تھوڑا سا نیچے بیج اتار دے۔ بس اس کے بعد اس کا کام ختم ہوجاتا ہے۔ خواہ انسان یہ کام زمین میں ہل چلا کر کرے یا کسی دوسرے ذریعہ سے کرے۔ زمین پر بارش برسانا اللہ کا کام ہے۔ یہی بارش کا پانی کبھی ندی نالوں، دریاؤں اور نہروں سے حاصل ہوتا ہے اور کبھی چشموں اور کنووں سے۔ بہرحال وہ بارش ہی کا جمع شدہ پانی ہوتا ہے۔ - خ زمین میں بالیدگی :۔ پانی اور زمین کی اوپر کی سطح جب مل جاتے ہیں تو ایسی مٹی میں اللہ تعالیٰ نے یہ خاصیت رکھی ہے کہ وہ بیج کو کھول دیتی ہے۔ اس مردہ اور بےجان بیج میں زندگی کی رمق پیدا ہوجاتی ہے اور وہ کونپل کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ - خ بیج میں درخت کی خصوصیات :۔ پھر اس نرم و نازک کونپل میں، جو ہوا کے ایک معمولی سے جھونکے کو بھی برداشت نہیں کرسکتی۔ اللہ تعالیٰ نے بالیدگی کی اتنی قوت بھر دی ہے کہ وہ کونپل دو تین دن بعد اوپر سے ملی ہوئی زمین کو پھاڑ کر زمین کے اندر سے یوں باہر نکل آتی ہے جیسے بچہ ماں کے پیٹ سے باہر نکل آتا ہے۔ پھر یہی بیج آہستہ آہستہ مکمل پودا یا تناور درخت بن جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ زمین میں بالیدگی کی استعداد نہ رکھتا یا بیج میں وہ تمام خصوصیات نہ رکھتا جو اس کے پودے یا درخت میں تھیں، یا بارش ہی نہ برساتا تو کیا انسان کے پاس کوئی ایسا ذریعہ ہے جس سے وہ اپنی خوراک حاصل کرسکتا ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(ثمشققنا الارض شقاً :” شقاً “ ایک قسم کا پھاڑنا ، یعنی زمین کو ہم نے عجیب طریقے سے پھاڑا۔ دانے سے نمودار ہونے والی کو پنل خود کبھی زمین سے باہر نہیں نکل سکتی تھی، زمین میں ضرورت کے مطابق نرمی و نمی اور بیج میں یہ طاقت وہم نے رکھی کہ وہ زمین پھاڑ کر باہر نکل آیا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ شَقَقْنَا الْاَرْضَ شَقًّا۝ ٢٦ ۙ- شق - الشَّقُّ : الخرم الواقع في الشیء . يقال : شَقَقْتُهُ بنصفین . قال تعالی: ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْضَ شَقًّا[ عبس 26] ، يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق 44] ، وَانْشَقَّتِ السَّماءُ [ الحاقة 16] ، إِذَا السَّماءُ انْشَقَّتْ [ الانشقاق 1] ، وَانْشَقَّ الْقَمَرُ [ القمر 1] ، وقیل : انْشِقَاقُهُ في زمن النّبيّ عليه الصلاة والسلام، وقیل : هو انْشِقَاقٌ يعرض فيه حين تقرب القیامة وقیل معناه : وضح الأمروالشِّقَّةُ : القطعة الْمُنْشَقَّةُ کالنّصف، ومنه قيل : طار فلان من الغضب شِقَاقًا، وطارت منهم شِقَّةٌ ، کقولک : قطع غضبا والشِّقُّ : الْمَشَقَّةُ والانکسار الذي يلحق النّفس والبدن، وذلک کاستعارة الانکسار لها . قال عزّ وجلّ : لَمْ تَكُونُوا بالِغِيهِ إِلَّا بِشِقِّ الْأَنْفُسِ- [ النحل 7] ، والشُّقَّةُ : النّاحية التي تلحقک المشقّة في الوصول إليها، وقال : بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ [ التوبة 42] ، - ( ش ق ق ) الشق - الشق ۔ شگاف کو کہتے ہیں ۔ شققتہ بنصفین میں نے اسے برابر دو ٹکڑوں میں کاٹ ڈالا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْضَ شَقًّا[ عبس 26] پھر ہم نے زمین کو چیرا پھاڑا ۔ يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق 44] اس روز زمین ( ان سے ) پھٹ جائے گی ۔ وَانْشَقَّتِ السَّماءُ [ الحاقة 16] اور آسمان پھٹ جائے گا ۔ إِذَا السَّماءُ انْشَقَّتْ [ الانشقاق 1] جب آسمان پھٹ جائیگا ۔ اور آیت کریمہ : وَانْشَقَّ الْقَمَرُ [ القمر 1] اور چاند شق ہوگیا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ انشقاق قمر آنحضرت کے زمانہ میں ہوچکا ہے ۔ اور بعض کا قول ہے کہ یہ قیامت کے قریب ظاہر ہوگا اور بعض نے انشق القمر کے معنی وضح الاسر کئے ہیں یعنی معاملہ واضح ہوگیا ۔ الشقۃ پھاڑا ہوا ٹکڑا ۔ اسی سے محاورہ ہے ۔ طار فلان من الغضب شقاقا فلاں غصہ سے پھٹ گیا ۔ جیسا کہ قطع غضبا کا محاورہ ہے ۔ طارت منھم شقۃ ۔ ان کا ایک حصہ اڑ گیا ۔ یعنی غضب ناک ہوئے ۔ الشق اس مشقت کو کہتے ہیں جو تگ و دو سے بدن یا نفس کو ناحق ہوتی ہے جیسا کہ الانکسار کا لفظ بطور استعارہ نفس کی درماندگی کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِلَّا بِشِقِّ الْأَنْفُسِ [ النحل 7] زحمت شاقہ کے بغیر الشقۃ وہ منزل مقصود جس تک بہ مشقت پہنچا جائے ۔ قرآن میں ہے َبَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ [ التوبة 42] لیکن مسافت ان کو دور ( دراز ) نظر آئی ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦ ثُمَّ شَقَقْنَا الْاَرْضَ شَقًّا ۔ ” پھر ہم نے زمین کو پھاڑا جیسے کہ وہ پھٹتی ہے۔ “- زمین پھٹتی ہے اور اس میں سے کو نپلیں برآمد ہوتی ہیں ‘ جو رفتہ رفتہ پورے پودے بلکہ تناور درخت کی صورت اختیار کرلیتی ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة عَبَس حاشیہ نمبر :19 زمین کو پھاڑنے سے مراد اس کو اس طرح پھاڑنا ہے کہ جو بیج یا گھٹلیاں یا نباتات کی پنیریاں انسان اس کے اندر بوئے ، یا جو ہواؤں اور پرندوں کے ذریعہ سے ، یا کسی اور طریقے سے اس کے اندر پہنچ جائیں ، وہ کونپلیں نکال سکیں ۔ انسان اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا کہ زمین کو کھودتا ہے یا اس میں ہل چلاتا ہے اور جو تخم خدا نے پیدا کر دیے ہیں ، انہیں زمین کے اندر اتار دیتا ہے ، اس کے سوا سب کچھ خدا کا کام ہے ۔ اسی نے بے شمار اقسام کی نباتات کے تخم پیدا کیے ہیں ۔ اسی نے ان تخموں میں یہ خاصیت پیدا کی ہے کہ زمین میں پہنچ کر وہ پھوٹیں اور ہر تخم سے اسی کی جنس کی نباتات اگے ۔ اور اسی نے زمین میں یہ صلاحیت پیدا کی ہے کہ پانی سے مل کر وہ ان تخموں کو کھولے اور ہر جنس کی نباتات کے لیے اس کے مناسب حال غذا بہم پنچا کر اسے نشو نما دے ۔ یہ تخم ان خاصیتوں کے ساتھ ، اور زمین کی یہ بالائی تہیں ان صلاحیتوں کے ساتھ خدا نے پیدا نہ کی ہوتیں تو کیا انسان کوئی غذا بھی یہاں پا سکتا تھا ؟

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

8: ایک ننھے سے پودے کی کونپل اتنی بھاری زمین کو پھاڑ کر جس طرح باہر نکل آتی ہے، وہ اﷲ تعالیٰ کی قدرت پر ایمان لانے کے لئے کافی ہونی چاہئے۔