اَنَّا صَبَبْنَا الْمَاۗءَ صَبًّا ٢٥ ۙ- صبب - صَبُّ الماء : إراقته من أعلی، يقال : صَبَّهُ فَانْصَبَّ ، وصَبَبْتُهُ فَتَصَبَّبَ. قال تعالی: أَنَّا صَبَبْنَا الْماءَ صَبًّا [ عبس 25] ، فَصَبَّ عَلَيْهِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذابٍ [ الفجر 13] ، يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُؤُسِهِمُ الْحَمِيمُ [ الحج 19] ، وصبا إلى كذا صبابة : مالت نفسه نحوه محبّة له، وخصّ اسم الفاعل منه بِالصَّبِّ ، فقیل : فلان صَبٌّ بکذا، والصُّبَّةُ کالصرمة «1» ، والصَّبِيبُ : الْمَصْبُوبُ من المطر، ومن عصارة الشیء، ومن الدّم، والصُّبَابَةُ والصُّبَّةُ : البقيّة التي من شأنها أن تصبّ ، وتَصَابَبْتُ الإناء : شربت صُبَابَتَهُ ، وتَصَبْصَبَ : ذهبت صبابته .- ( ص ب ب ) صب الماء کے معنی اوپر سے پانی گرانا کے ہیں محاورہ ہے صب الماء فانصب وصببتہ فتصب یعنی اس نے اوپر سے پانی گراناچنانچہ پانی گرگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ أَنَّا صَبَبْنَا الْماءَ صَبًّا [ عبس 25] بیشک ہم نے ہی ( اوپر سے ) پانی برسایافَصَبَّ عَلَيْهِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذابٍ [ الفجر 13] تو تمہارے پروردگار نے ان پر عذاب کا کوڑا برسایا ۔ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُؤُسِهِمُ الْحَمِيمُ [ الحج 19] ان کے سروں پر کھولتا ہوا پانی گرایا جائیگا ۔ صب الیٰ کذا صبابۃ ۔ عاشق ہونا اور صفت کا صیغہ خاص کر صب ( بروزن فعل ) آنا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ فلان صب بکذا فلاں اس پر فریفتہ ہے ۔ اور صرمۃ کی طرح صبۃ کے معنی بھی جانوروں کی ٹکڑی یا جماعت کے ہیں الصبیب بارش کا پانی ۔ کسی چیز کا عصارہ ۔ بہایا ہوا خون الصبابۃ والصبۃ کسی چیز کا باقی ماندہ جو گرانے کے لائق ہو تصاببت الاناء ( تفاعل ) میں نے برتن سے باقی ماندہ پانی بھی پی لیا ۔ تصبصب ( تفعلل کسی چیز کا باقی ماندہ بھی ختم ہوجانا ۔- ماء - قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه :- أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو،- ( م ی ہ ) الماء - کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے
(٢٥۔ ٣٢) اب اس تحویل کو بیان کرتا ہے کہ ہم نے عجیب طور سے زمین پر پانی برسایا اور پھر نباتات کے ذریعے سے پھاڑا پھر ہم نے اس زمین میں ہمہ قسم کے غلے اور انگور اور ترکاریاں اور زیتون اور کھجور اور گنجان باغ اور میوے اور چارہ پیدا کیا، غلے تمہارے فائدے کے لیے اور چارہ تمہارے جانوروں کے لیے۔
سورة عَبَس حاشیہ نمبر :18 اس سے مراد بارش ہے ۔ سورج کی حرارت سے بے حد و حساب مقدار میں سمندروں سے پانی بھاپ بنا کر اٹھایا جاتا ہے ، پھر اس سے کثیف بادل بنتے ہیں ، پھر ہوائیں ان کو لے کر دنیا کے مختلف حصوں میں پھیلاتی ہیں ، پھر عالم بالا کی ٹھنڈک سے وہ بھاپیں از سرنو پانی کی شکل اختیار کرتی اور ہر علاقے میں ایک خاص حساب سے برستی ہیں ، پھر وہ پانی براہ راست بھی زمین پر برستا ہے ، زیر زمین کنوؤں اور چشموں کی شکل بھی اختیار کرتا ہے ، دریاؤں اور ندی نالوں کی شکل میں بھی بہتا ہے ، اور پہاڑوں پر برف کی شکل میں جم کر پھر پگھلتا ہے اور بارش کے موسم کے سوا دوسرے موسموں میں بھی دریاؤں کے اندر رواں ہوتا ہے ۔ کیا یہ سارے انتظامات انسان نے خود کیے ہیں؟ اس کا خالق اس کی رزق رسانی کے لیے یہ انتظام نہ کرتا تو کیا انسان زمین پر جی سکتا تھا ؟