Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ننگے پاؤں ، ننگے بدن ۔ ۔ پسینے کا لباس حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ صاختہ قیامت کا نام ہے اور اس نام کی وجہ یہ ہے کہ اس کے نفخہ کی آواز اور ان کا شور و غل کانوں کے پردے پھاڑ دیگا ۔ اس دن انسان اپنے ان قریبی رشتہ داروں کو دیکھے گا لیکن بھاگتا پھرے گا کوئی کسی کے کام نہ آئیگا ، میاں بیوی کو دیکھ کر کہے گا کہ بتا تیرے ساتھ میں نے دنیا میں کیسا کچھ سلوک کیا وہ کہے گی کہ بیشک آپ نے میرے ساتھ بہت ہی اچھا سلوک کیا بہت پیار محبت سے رکھا یہ کہے گا کہ آج مجھے ضرورت ہے صرف ایک نیکی دے دو تاکہ اس آفت سے چھوٹ جاؤں ، تو وہ جواب دے گی کہ سوال تھوڑی سی چیز کا ہی ہے مگر کیا کروں یہی ضرورت مجھے درپیش ہے اور اسی کا خوف مجھے لگ رہا ہے میں تو نیکی نہیں دے سکتی ، بیٹا باپ سے ملے گا یہی کہے گا اور یہی جواب پائے گا ، صحیح حدیث میں شفاعت کا بیان فرماتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اولولعزم پیغمبروں سے لوگ شفاعت کی طلب کریں گے اور ان میں سے ہر ایک یہی کہے گا کہ نفسی نفسی یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ روح اللہ علیہ صلوات اللہ بھی یہی فرمائیں گے کہ آج میں اللہ کے سوائے اپنی جان کے اور کسی کے لیے کچھ نہ کہوں گا میں تو آج اپنی والدہ حضرت مریم علیہا السلام کیلئے بھی کچھ نہ کہوں گا جن کے بطن سے میں پیدا ہوا ہوں ، الغرض دوست دوست سے رشتہ دار رشتہ دار سے منہ چھپاتا پھرے گا ۔ ہر ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم ادھاپی میں لگا ہو گا ، کسی کو دوسرے کا ہوش نہ ہو گا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں تم ننگے پیروں ننگے بدن اور بےختنہ اللہ کے ہاں جمع کیے جاؤ گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی صاحبہ نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر تو ایک دوسروں کی شرمگاہوں پر نظریں پڑیں گی فرمایا اس روز گھبراہٹ کا حیرت انگیز ہنگامہ ہر شخص کو مشغول کیے ہوئے ہو گا ، بھلا کسی کو دوسرے کی طرف دیکھنے کا موقعہ اس دن کہاں؟ ( ابن ابی حاتم ) بعض روایات میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اسی آیت کی تلاوت فرمائی لکل امری الخ دوسری روایت میں ہے کہ یہ بیوی صاحبہ حضرت ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عہما تھیں اور روایت میں ہے کہ ایک دن حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوں میں ایک بات پوچھتی ہوں ذرا بتا دیجئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میں جانتا ہوں تو ضرور بتاؤں گا پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کا حشر کس طرح ہو گا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ننگے پیروں اور ننگے بدن تھوڑی دیر کے بعد پوچھا کیا عورتیں بھی اسی حالت میں ہوں گی؟ فرمایا ہاں ۔ یہ سن کر ام المومنین افسوس کرنے لگیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ اس آیت کو سن لو پھر تمہیں اس کا کوئی رنج و غم نہ رہے گا کہ کپڑے پہنے یا نہیں؟ پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہ آیت کونسی ہے فرمایا لکل امری الخ ، ایک روایت میں ہے کہ ام المومنین حضرت سودہ نے پوچھا یہ سن کر کہ لوگ اس طرح ننگے بدن ننگے پاؤں بےختنہ جمع کیے جائیں گے پسینے میں غرض ہوں گے کسی کے منہ تک پسینہ پہنچ جائے گا اور کسی کے کانوں تک تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھ سنائی ، پھر ارشاد ہوتا ہے کہ وہاں لوگوں کے دو گروہ ہوں گے بعض تو وہ ہوں گے جن کے چہرے خوشی سے چمک رہے ہوں گے دل خوشی سے مطمئن ہوں گے منہ خوبصورت اور نورانی ہوں گے یہ تو جتنی جماعت ہے دوسرا گروہ جہنمیوں کا ہو گا ان کے چہرے سیاہ ہوں گے گرد آلود ہوں گے ، حدیث میں ہے کہ ان کا پسینہ مثل لگا کے ہو رہا ہو گا پھر گرد و غبار پڑا ہوا ہو گا جن کے دلوں میں کفر تھا اور اعما میں بدکاری تھی جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَلَا يَلِدُوْٓا اِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا 27؀ ) 71-نوح:27 ) یعنی ان کفار کی اولاد بھی بدکار کافر ہی ہو گی ۔ سورہ عبس کی تفسیر ختم ہوئی ، فالحمد اللہ

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

33۔ 1 یعنی قیامت وہ ایک نہایت سخت چیخ کے ساتھ واقع ہوگی جو کانوں کو بہرہ کر دے گی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٩] الصَّاخَّۃُ ، صخّ ایسی آواز کو کہتے ہیں جو کانوں کو بہرہ کردے۔ ایسی سخت اور کرخت آواز جس سے کانوں کے پردے پھٹ جائیں اور الصاخہ سے مراد قیامت ہے اور یہ کیفیت پہلے نفخہ صور کے وقت ہوگی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فاذا جآء ت الضاحۃ : ” الضآختہ “ یعنی کانوں کو بہرا کردینے والی نفخ صور کی ہولناک آواز جس سے قیامت قائم ہوجائے گی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

فَاِذَا جَاۗءَتِ الصَّاۗخَّةُ ، صاخہ ایسے شور اور شخت آواز کو کہتے ہیں جس سے انسان کے کان بہرے ہوجائیں مراد اس سے شور قیامت یعنی نفخ صور ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَاِذَا جَاۗءَتِ الصَّاۗخَّۃُ۝ ٣٣ ۡ- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ - (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- صخ - الصَّاخَّةُ : شدّة صوت ذي النّطق، يقال : صَخَّ يَصِخُّ صَخّاً فهو صَاخٌّ. قال تعالی: فَإِذا جاءَتِ الصَّاخَّةُ [ عبس 33] ، وهي عبارة عن القیامة حسب المشار إليه بقوله : يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ الأنعام 73] ، وقد قلب عنه : أَصَاخَ يُصِيخُ.- ( ص خ خ ) الصاخۃ یہ صخ یصخ فھو صاخ سے اسم ہے جس کے معنی کسی ذی نطق کی آواز کی سختی اور کرخت پن کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : فَإِذا جاءَتِ الصَّاخَّةُ [ عبس 33] تو جب ( قیامت کا غل مچے گا ) ۔ میں صاخۃ سے مراد قیامت ہے جس کی طرف کہ آیت کریمہ : يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ الأنعام 73] میں اشارہ پایا جاتا ہے اور اسی سے اصاخ یصیخ مقلوب ہے جس کے معنی آواز کی سختی سے کسی کو بہرہ کردینا کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٣۔ ٣٦) پھر جس وقت قیامت قائم ہوگی اور اس کا شور برپا ہوگا جس کا ہر ایک چیز جواب دے گی اور جان لیں گے کہ یقینا قیام قائم ہورہی ہے، اب وہ کب قائم ہوگی تو جس دن مومن اپنے کافر بھائی سے اور اپنی ماں سے اور اپنے باپ سے اور اپنی بیوی سے اور اپنی اولاد سے بھاگے گا۔ یا یہ کہ ہابیل قابیل سے اور محمد حضرت آمنہ سے اور ابراہیم اپنے باپ سے اور لوط اپنی بیوی سے اور نوح اپنے بیٹے کنعان سے بھاگیں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٣ فَاِذَا جَآئَ تِ الصَّآخَّۃُ ۔ ” تو جب وہ آجائے گی کان پھوڑنے والی (آواز) ۔ “- یعنی جب قیامت برپا کرنے کے لیے صور میں پھونکا جائے گا تو اس کی آواز سے کان پھٹ جائیں گے۔ اس آیت کی مشابہت سورة النازعات کی اس آیت سے ہے : فَاِذَا جَآئَ تِ الطَّآمَّۃُ الْکُبْرٰی ۔ ” پھر جب وہ آجائے گا بڑا ہنگامہ۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة عَبَس حاشیہ نمبر :21 مراد ہے آخری نفخ صور کی قیامت خیز آواز جس کے بلند ہوتے ہی تمام مرے ہوئے انسان جی اٹھیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

9: اس سے مراد قیامت ہے جس کا آغاز صور کی آواز سے ہوگا۔