(وجوہ یومئذ مسفرۃ…: چہروں کی یہ روشنی اور خوشی اعمال نامے دائیں ہاتھ میں دیئے جانے کے بعد ہوگی، جیسا کہ فرمایا :(فاما من اوتی کتبہ بیمینہ، فسوف بحاسب حساباً یسیراً ، وینقلب الی اھلہ مسروراً ، (الانشقاق : ٨ تا ٩)” تو اس وقت جس شخص کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اس کا حساب آسان لیا جائے گا اور وہ خوش خوش اپنے گھر والوں کی طرف واپس آئے گا۔ “
وُجُوْہٌ يَّوْمَىِٕذٍ مُّسْفِرَۃٌ ٣٨ ۙ- وجه - أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6]- ( و ج ہ ) الوجہ - کے اصل معنی چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔- سفر - السَّفْرُ : كشف الغطاء، ويختصّ ذلک بالأعيان، نحو : سَفَرَ العمامة عن الرّأس، والخمار عن الوجه، وسَفْرُ البیتِ : كَنْسُهُ بِالْمِسْفَرِ ، أي : المکنس، وذلک إزالة السَّفِيرِ عنه، وهو التّراب الذي يكنس منه، والإِسْفارُ يختصّ باللّون، نحو : وَالصُّبْحِ إِذا أَسْفَرَ- [ المدثر 34] ، أي : أشرق لونه، قال تعالی: وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُسْفِرَةٌ [ عبس 38] ، و «أَسْفِرُوا بالصّبح تؤجروا» »من قولهم : أَسْفَرْتُ ، أي : دخلت فيه، نحو : أصبحت، وسَفَرَ الرّجل فهو سَافِرٌ ، والجمع السَّفْرُ ، نحو : ركب . وسَافَرَ خصّ بالمفاعلة اعتبارا بأنّ الإنسان قد سَفَرَ عن المکان، والمکان سفر عنه، ومن لفظ السَّفْرِ اشتقّ السُّفْرَةُ لطعام السَّفَرِ ، ولما يوضع فيه . قال تعالی: وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضى أَوْ عَلى سَفَرٍ [ النساء 43] ، والسِّفْرُ : الکتاب الذي يُسْفِرُ عن الحقائق، وجمعه أَسْفَارٌ ، قال تعالی: كَمَثَلِ الْحِمارِ يَحْمِلُ أَسْفاراً [ الجمعة 5] ، وخصّ لفظ الأسفار في هذا المکان تنبيها أنّ التّوراة۔ وإن کانت تحقّق ما فيها۔ فالجاهل لا يكاد يستبینها کالحمار الحامل لها، وقوله تعالی: بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ- [ عبس 15- 16] ، فهم الملائكة الموصوفون بقوله : كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار 11] ، والسَّفَرَةُ : جمع سَافِرٍ ، ککاتب وکتبة، والسَّفِيرُ : الرّسول بين القوم يكشف ويزيل ما بينهم من الوحشة، فهو فعیل في معنی فاعل، والسِّفَارَةُ : الرّسالة، فالرّسول، والملائكة، والکتب، مشترکة في كونها سَافِرَةٌ عن القوم ما استبهم عليهم، والسَّفِيرُ : فيما يكنس في معنی المفعول، والسِّفَارُ في قول الشاعر :- 235-- وما السّفار قبّح السّفار - «1» فقیل : هو حدیدة تجعل في أنف البعیر، فإن لم يكن في ذلک حجّة غير هذا البیت، فالبیت يحتمل أن يكون مصدر سَافَرْتُ «2» .- ( س ف ر ) السفر - اصل میں اس کے معنی کشف غطاء یعنی پردہ اٹھانے کے ہیں اور یہ اعیان کے ساتھ مخصوص ہے جیسے سفر العمامۃ عن الراس اس نے سر سے عمامہ اتارا دیا ۔ سعر عن الوجہ چہرہ کھولا اور سفر البیت کے معنی گھر میں جھاڑو دینے اور کوڑا کرکٹ صاف کرنے کے ہیں اور جھاڑو کو مسفرۃ اور اس گرد و غبار کو سفیر کہا جاتا ہے جو جھاڑو دے کر دور کی جاتی ہے ۔ الاسفار ( افعال ) یہ الوان کے ساتھ مختص ہے یعنی کسی رنگ کے ظاہر ہونے پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَالصُّبْحِ إِذا أَسْفَرَ [ المدثر 34] اور قسم ہے صبح کی جب روشن ہو ۔ اور فرمایا : ۔ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُسْفِرَةٌ [ عبس 38] کتنے منہ اس روز چمک رہے ہوں گے ۔ اور حدیث «أَسْفِرُوا بالصّبح تؤجروا» صبح خوب روشن ہونے کے بعد نماز پڑھا کرو تو زیادہ ثواب ملے گا ۔ میں اسفروا اسفرت کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی روشنی میں داخل ہونے کے ہیں جیسے اصبحت ( میں صبح میں داخل ہوا ) سفر الرجل اس نے سفر کیا اور سافر ( مسافر ) کی جمع سفر آتی ہے جیسے راکب کی جمع رکب رد علی ہذا القیاس ) اور سافر کے معنی ہیں اس نے سفر کیا یہ خاص کر باب مفاعلۃ سے آتا ہے گویا اس میں جانبین یعنی وطن اور آدمی کے ایک دوسرے سے دور ہونے کے معنی کا لحاظ کیا گیا ہے ۔ اور سفر سے ہی سفرۃ کا لفظ مشتق ہے جس کے معنی طعام سفر یا توشہ دان ہیں جس میں سفری کھانا رکھا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضى أَوْ عَلى سَفَرٍ [ النساء 43] اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو ۔ السفر اس کتاب کو کہتے ہیں جس میں حقائق کا بیان ہو گویا وہ حقائق کو بےنقاب کرتی ہے اس کی جمع اسفار آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الْحِمارِ يَحْمِلُ أَسْفاراً [ الجمعة 5] کی مثال گدھے کی سی ہے جس پر بڑی بڑی کتابیں لدی ہوئی ہوں ۔ یہاں ممثل بہ میں خصوصیت کے ساتھ اسفار کا لفظ ذکر کرنے سے اس بات پر متنبہ کرنا مقصود ہے کہ تورات اگر چہ اپنے مضامین کو محقق طور پر بیان کرتی ہے لیکن جاہل ( یہود ) پھر بھی اس کو نہیں سمجھ پاتے ۔ لہذا ان کی مثال بعینہ اس گدھے کی سی ہے جو علم و حکمت کے پشتارے اٹھائے ہوئے ہو اور آیت بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس 15- 16] ایسے لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سردار نیکو کار ہیں ۔ میں سفرۃ سے مراد وہ فرشتے ہیں جنہیں دوسری جگہ كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار 11] عالی قدر لکھنے والے کہا ہے اور یہ سافر کی جمع ہے جیسے کاتب کی جمع کتبۃ السفیر ۔ اس فرستادہ کو کہا جاتا ہے جو مرسل کی غرض کو مرسل الیہ پر کھولتا اور فریقین سے منافرت کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ یہ فعیل بمعنی فاعل سے ہے اور سفارۃ بمعنی رسالت آتا ہے پیغمبر فرشتے اور سماوی ) کتابیں لوگوں پر حقائق کی کشادگی کرنے میں باہم شریک ہیں ( اس نے ان سب کو سفیر کہہ سکتے ہیں ۔ اور سفیر ( فعیل ) بمعنی مفعول ہو تو اس کے معنی کوڑا کرکٹ کے ہوتے ہیں جو جھاڑ دے کر صاف کردیا جاتا ہے ۔ اور شاعر کے قول ۔ ( 229 ) وما السّفار قبّح السّفار میں بعض نے سفار کے معنی اس لوہے کے لئے ہیں جو اونٹ کی ناک میں ڈالا جاتا ہے اور اس معنی پر اگر اس شعر کے علاوہ اور کوئی دلیل نہ ہو تو یہ سافرت ( مفاعلہ ) کا مصدر بھی ہوسکتا ہے
آیت ٣٨ وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ مُّسْفِرَۃٌ ۔ ” کچھ چہرے اس دن روشن ہوں گے۔ “- یہ مضمون اس سے پہلے سورة القیامہ کی ان آیات میں بھی آچکا ہے : وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ - اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ - وَوُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍم بَاسِرَۃٌ - تَظُنُّ اَنْ یُّفْعَلَ بِہَا فَاقِرَۃٌ ۔ ” بہت سے چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے ‘ وہ اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے۔ اور بہت سے چہرے اس روز اترے ہوئے ہوں گے۔ ان کو یقین ہوگا کہ اب ان کے ساتھ کمر توڑ سلوک ہوگا۔ “