37۔ 1 یا اپنے اقربا اور احباب سے بےنیاز اور بےپروا کر دے گا حدیث میں آتا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سب لوگ میدان محشر میں ننگے بدن ننگے پیر، پیدل اور بغیر ختنے کئے ہوئے ہوں گے۔
[٢١] ننگے بدن حشر :۔ اس آیت کی بہترین تفسیر درج ذیل حدیث پیش کرتی ہے۔- ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : لوگ میدان حشر میں ننگے سر، ننگے بدن اور بےختنہ اکٹھے کیے جائیں گے۔ ایک عورت (سیدہ عائشہ (رض) نے پوچھا : کیا پھر وہ ایک دوسرے کے ستر نہ دیکھیں گے ؟ آپ نے فرمایا : اے فلاں (عورت) اس دن ہر شخص کو اپنی اپنی پڑی ہوگی جو اسے (دوسروں سے) غافل کر دے گی۔ (ترمذی۔ کتاب التفسیر)
(لکل امری منھم یومئذ…: عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(تحشرون حفاۃ عراۃ غرلاً ، قالت عائشۃ فقلت یا رسول اللہ الرجال والنساء ینظر بعضھم الی بعض ؟ فقال الامر اشد من ان یھمھم ذاک) (بخاری، الرقاق، باب کیف الحشر : ٦٥٢٨)” تم ننگے پاؤں، ننگے جسم، بغیر ختنہ کی حالت میں اٹھائے جاؤ گے۔ “ عائشہ (رض) فرماتی ہیں، میں نے کہا :” اے اللہ کے رسول پھر تو مرد اور عورتیں ایک دوسرے کو دیکھیں گے ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” معاملہ اس سے سخت ہوگا کہ یہ بات ان کی سوچ میں بھی آئے۔ “ ترمذی میں عبداللہ بن عباس (رض) سے مروی اس حدیث میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس موقع پر یہ آیت پڑھی :(لکل امری منھم یومئذ شان یغنیہ) (عباس : ٣٨)” اس دن ان میں سے ہر آدمی کی ایک ایسی حالت ہوگی جو اسے دوسروں سے بےپروا بنا دے گی۔ “ (ترمذی ، تفسیر القرآن، باب ومن سورة عباس : ٣٣٣٢، قال الشیخ الالبانی حسن صحیح)
لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْہُمْ يَوْمَىِٕذٍ شَاْنٌ يُّغْنِيْہِ ٣٧ ۭ- يَوْمَئِذٍ- ويركّب يَوْمٌ مع «إذ» ، فيقال : يَوْمَئِذٍ نحو قوله عزّ وجلّ : فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر 9] وربّما يعرب ويبنی، وإذا بني فللإضافة إلى إذ .- اور کبھی یوم کے بعد اذ بڑھا دیاجاتا ہے اور ( اضافت کے ساتھ ) یومئذ پڑھا جاتا ہے اور یہ کسی معین زمانہ کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس صورت میں یہ معرب بھی ہوسکتا ہے اور اذ کی طرف مضاف ہونے کی وجہ سے مبنی بھی ۔ جیسے فرمایا : وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ [ النحل 87] اور اس روز خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے ۔ فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر 9] وہ دن بڑی مشکل کا دن ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم 5] اور ان کو خدا کے دن یا ددلاؤ۔ میں ایام کی لفظ جلالت کی طرف اضافت تشریفی ہے اور ا یام سے وہ زمانہ مراد ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے فضلو انعام کے سمندر بہا دیئے تھے ۔- شأن - الشَّأْنُ : الحال والأمر الذي يتّفق ويصلح، ولا يقال إلّا فيما يعظم من الأحوال والأمور . قال اللہ تعالی: كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن 29] ، وشَأْنُ الرّأس جمعه : شَئُونٌ ، وهو الوصلة بين متقابلاته التي بها قوام الإنسان .- ( ش ء ن ) شان کے معنی حالت اور اس اتفاقی معاملہ کے ہیں جو کسی کے مناسب حال ہو ۔ اسکا اطلاق صرف اہم امور اور حالات پر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن 29] ہر روز کام میں مصروف رہتا ہے شان الراس کھوپڑی کی چھوٹی چھوٹی ہڈیوں کے ملنے کی جگہ جس سے انسان کا قوام ہے اسکی جمع شؤون آتی ہے ۔- غنی( فایدة)- أَغْنَانِي كذا، وأغْنَى عنه كذا : إذا کفاه . قال تعالی: ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة 28] ، ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد 2] ، لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران 10] ، - ( غ ن ی ) الغنیٰ- اور اغنانی کذا اور اغنی کذا عنہ کذا کسی چیز کا کا فی ہونا اور فائدہ بخشنا ۔ قر آں میں ہے : ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة 28] میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد 2] تو اس کا مال ہی اس کے کچھ کام آیا ۔۔۔۔ لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران 10] نہ تو ان کا مال ہی خدا کے عذاب سے انہیں بچا سکے گا اور نہ ان کی اولاد ہی کچھ کام آئیگی
(٣٧۔ ٤٢) قیامت کے دن ان میں ہر ایک شخص کو اپنا ہی فکر ہوگا جو اس کو اور طرف متوجہ نہ ہونے دے گا، سچے مومنین قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی وجہ سے روشن اور شاداں ہوں گے اور کافروں اور منافقوں کی صورتوں پر قیامت کے دن ظلمت ہوگی اور ان پر کدورت اور پسماندگی چھائی ہوگی۔ یہی لوگ کافر و فاجر ہیں۔
آیت ٣٧ لِکُلِّ امْرِیٍٔ مِّنْہُمْ یَوْمَئِذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْہِ ۔ ” اس دن ان میں سے ہر شخص کو ایسی فکر لاحق ہوگی جو اسے (ہر ایک سے) بےپروا کر دے گی۔ “- اس دن ہر انسان نفسا نفسی کی کیفیت میں ہوگا۔ ہر انسان کو اپنی پریشانی کی وجہ سے اپنے عزیز ترین رشتوں سمیت کسی دوسرے کی کوئی پروا نہیں ہوگی۔
سورة عَبَس حاشیہ نمبر :23 احادیث میں مختلف طریقوں اور سندوں سے یہ روایت آئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے روز سب لوگ ننگے بچے اٹھیں گے ۔ آپ کی ازواج مطہرات میں سے کسی نے ( بروایت بعض حضرت عائشہ نے ، اور برویتِ بعض حضرت سودہ نے اور بروایتِ بعض ایک خاتون نے ) گھبرا کر پوچھا ، یا رسول اللہ کیا ہمارے ستر اس روز سب کے سامنے کھلے ہوں گے؟ حضور نے یہی آیت تلاوت فرما کر بتایا کہ اس روز کسی کو کسی کی طرف دیکھنے کا ہوش نہ ہو گا ( نسائی ، ترمذی ، ابن ابی حاتم ، ابن جریر ، طبرانی ، ابن مردویہ ، بہیقی ، حاکم ) ۔