Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

یعنی سوج بےنور ہو جائیگا ، جاتا رہے گا اوندھا کر کے لپیٹ کر زمین پر پھینک دیا جائیگا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں سورج چاند اور ستاروں کو لپیٹ کر بےنور کر کے سمندروں میں ڈال دیا جائیگا اور پھر مغربی ہوائیں چلیں گی اور آگ لگ جائیگی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ اس کو تہہ کر کے جہنم میں ڈال دیا جائیگا ( ابن ابی حاتم ) اور ایک حدیث میں سورج کے ساتھ چاند کا ذکر بھی ہے لیکن وہ ضعیف ہے صحیح بخاری میں یہ حدیث الفاظ کی تبدیلی سے مروی ہے ، اس میں ہے کہ سورج اور چاند قیامت کے دن لپیٹ لیے جائیں گے امام بخاری اسے کتاب بدء الخلق میں لائے ہیں لیکن یہاں لانا زیادہ مناسب تھا یا مطابق عادت وہاں اور یہاں دونوں جگہ لاتے جیسے کہ امام صاحب کی عادت ہے حضرت ابو ہریرہ نے جب یہ حدیث بیان کی کہ قیامت کے دن یہ ہو گا ، تو حضرت حسن کہنے لگے ان کا کیا گناہ ہے؟ فرمایا میں نے حدیث کہی اور تم اس پر باتیں بناتے ہو سورج کی قیامت والے دن یہ حالت ہو گی ستارے سارے متغیر ہو کر جھڑ جائیں گے جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَاِذَا الْكَوَاكِبُ انْـتَثَرَتْ Ą۝ۙ ) 82- الإنفطار:2 ) یہ بھی گدلے اور بےنور ہو کر بجھ جائیں گے ، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں قیامت سے پہلے چھ نشانیاں ہوں گی لوگ اپنے بازاروں میں ہوں گے کہ اچانک سورج کی روشنی جاتی رہیگی اور پھر ناگہاں ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگیں گے پھر اچانک پہاڑ زمین پر گر پڑیں گے اور زمین زور زور سے جھٹکے لینے لگے گی اور بےطرح ہلنے لگے گی بس پھر کیا انسان کیا جنات کیا جانور اور کیا جنگلی جانور سب آپس میں خلط ملط ہو جائیں گے ، جانور بھی جو انسانوں سے بھاگے پھرتے ہیں انسانوں کے پاس آ جائیں گے لوگوں کو اس قدر بد حواسی اور گھبراہٹ ہو گی کہ بہتر سے بہتر مال اونٹیاں جو بیاہنے والیاں ہوں گی ان کی بھی خیر خبر نہ لیں گے ۔ جنات کہیں گے کہ ہم جاتے ہیں کہ تحقیق کریں کیا ہو رہا ہے لیکن وہ آئیں گے تو دیکھیں گے کہ سمندروں میں بھی آگ لگ رہی ہے ، اسی حال میں ایک دم زمین پھٹنے لگے گی اور آسمان بھی ٹوٹنے لگیں گے ، ساتوں زمینیں اور ساتوں آسمانوں کا یہی حال ہو گا ادھر سے ایک تند ہوا چلے گی جس سے تمام جاندار مر جائیں گے ۔ ( ابن ابی حاتم وغیرہ ) ایک اور روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ سارے ستارے اور جن جن کی اللہ کے سوا عبادت کی گئی ہے سب جہنم میں گرا دیئے جائیں صرف حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم بچ رہیں گے اگر یہ بھی اپنی عبادت سے خوش ہوتے تو یہ بھی جہنم میں داخل کر دئیے جاتے ( ابن ابی حاتم ) پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائیں گے اور بےنام و نشان ہو جائیں گے ، زمین چٹیل اور ہموار میدان رہ جائے گی ، اونٹنیاں بیکار چھوڑ دی جائیں گی ، نہ ان کی کوئی نگرانی کریگا نہ چرائے چگائے گا نہ دودھ نکالے گا نہ سواری لے گا عشار جمع ہے عشرا کی جو حاملہ اونٹی دسویں مہینہ میں لگ جائے اسے عشراء کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ گھبراہٹ اور بد حواسی بےچینی اور پریشانی اس قدر ہو گی کہ بہتر سے بہتر مال کی بھی پرواہ نہ رہیگی قیامت کی ان بلاؤں نے دل اڑا دیا ہو گا کلیجے منہ کو آئیں گے بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ قیامت کے دن ہو گا اور لوگوں کو اس سے کچھ سروکار نہ ہو گا ہاں ان کے دیکھنے میں یہ ہو گا اس قول کے قائل عشار کے کئی معنی بیان کرتے ہیں ایک تو یہ کہتے ہیں اس سے مراد بادل ہیں جو دنیا کی بربادی کی وجہ سے آسمان و زمین کے درمیان پھرتے پھریں گے بعض کہتے ہیں اس سے مراد وہ زمین ہے جس کا عشر دیا جاتا ہے بعض کہتے ہیں اس سے مراد گھر ہیں جو پہلے آباد تھے اب ویران ہیں امام قرطبی ان اقوال کو بیان کر کے ترجیح اسی کو دیتے ہیں کہ مراد اس سے اونٹنیاں ہیں اور اکثر مفسرین کا یہی قول ہے اور میں تو یہی کہتا ہوں کہ سلف سے اور ائمہ سے اس کے سوا کچھ وارد ہی نہیں ہوا واللہ اعلم اور وحشی جانور جمع کیے جائیں گے جیسے فرمان ہے آیت ( وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا طٰۗىِٕرٍ يَّطِيْرُ بِجَنَاحَيْهِ اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ 38؀ ) 6- الانعام:38 ) یعنی زمین پر چلنے والے کل جانور اور ہوا میں اڑنے والے کل پرند بھی تمہاری طرح گروہ ہیں ہم نے اپنی کتاب میں کوئی چیز نہیں چھوڑی پھر یہ سب اپنے رب کی طرف جمع کیے جائیں گے سب جانداروں کا حشر اسی کے پاس ہو گا یہاں تک کہ مکھیاں بھی ان سب میں اللہ تعالیٰ انصاف کے ساتھ فیصلے کریگا ان جانوروں کا حشر ان کی موت ہی ہے البتہ جن و انس اللہ کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے اور ان سے حساب کتاب ہو گا ربیع بن خثیم نے کہا مراد وحشیوں کے حشر سے ان پر اللہ کا امر آنا ہے لیکن ابن عباس نے یہ سن کر فرمایا کہ اس سے مراد موت ہے یہ تمام جانور بھی ایک دوسرے کے ساتھ اور انسانوں کے ساتھ ہو جائیں گے خود قرآن میں اور جگہ ہے آیت ( وَالطَّيْرَ مَحْشُوْرَةً ۭ كُلٌّ لَّهٗٓ اَوَّابٌ 1٩؀ ) 38-ص:19 ) پرند جمع کیے ہوئے پس ٹھیک مطلب اس آیت کا بھی یہی ہے کہ وحشی جانور جمع کیے جائیں گے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک یہودی سے پوچھا جہنم کہاں ہے؟ اس نے کہا سمندر میں آپ نے فرمایا میرے خیال میں یہ سچا ہے قرآن کہتا ہے آیت ( وَالْبَحْرِ الْمَسْجُوْرِ Č۝ۙ ) 52- الطور:6 ) اور فرماتا ہے آیت ( وَاِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ Č۝۽ ) 81- التكوير:6 ) ابن عباس وغیرہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ مغربی ہوائیں بھیجے گا وہ اسے بھڑکا دیں گی اور شعلے مارتی ہوئی آگ بن جائیگا آیت ( وَاِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ Č۝۽ ) 81- التكوير:6 ) کی تفسیر میں اس کا مفصل بیان گزر چکا ہے حضرت معاویہ بن سعید فرماتے ہیں بحر روم میں برکت ہے یہ زمین کے درمیان میں ہے سب نہریں اس میں گرتی ہیں اور بحر کبیر بھی اس میں پڑتا ہے اس کے نیچے کنویں ہیں جن کے منہ تانبہ سے بند کیے ہوئے ہیں قیام کے دن وہ سلگ اٹھیں گے ، یہ اثر عجیب ہے اور ساتھ ہی غریب بھی ہے ہاں ابو داؤد میں ایک حدیث ہے کہ سمندر کا سفر صرف حاجی کریں اور عمرہ کرنے والے یا جہاد کرنے والے غازی اس لیے کہ سمندر کے نیچے آگ ہے اور آگ کے نیچے پانی ہے اس کا بیان بھی سورہ فاطر کی تفسیر میں گزر چکا ہے سجرت کے معنی یہ بھی کیے گئے ہیں کہ خشک کر دیا جائیگا ایک قطرہ بھی باقی نہ رہیگا ، یہ معنی بھی کیے گئے ہیں کہ بہا دیا جائے گا اور ادھر ادھر بہ نکلے گا پھر فرماتا ہے کہ ہر قسم کے لوگ یکجا جمع کر دئیے جائیں گے جیسے اور جگہ ہے آیت ( اُحْشُرُوا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْوَاجَهُمْ وَمَا كَانُوْا يَعْبُدُوْنَ 22؀ۙ ) 37- الصافات:22 ) ظالموں کو اور ان کے جوڑوں یعنی ان جیسوں کو جمع کرو حدیث میں ہے ہر شخص کا اس قوم کے ساتھ حشر کیا جائے گا جو اس جیسے اعمال کرتی ہو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت ( وَّكُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰثَةً Ċ۝ۭ ) 56- الواقعة:7 ) تم تین طرح کے گروہ ہو جاؤ گے کچھ وہ جن کے داہنے ہاتھ میں نامہ اعمال ہوں گے کچھ بائیں ہاتھ والے کچھ سبقت کرنے والے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خطبہ پڑھتے ہوئے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا ہر جماعت اپنے جیسوں سے مل جائیگی ، دوسری روایت میں ہے کہ وہ دو شخص جن کے عمل ایک جیسے ہوں وہ یا تو جنت میں ساتھ رہیں گے یا جہنم میں ساتھ جلیں گے ، حضرت عمر سے اس آیت کی تفسیر پوچھی گئی تو فرمایا نیک نیکوں کے ساتھ مل جائیں گے اور بدبدوں کے ساتھ آگ میں ، حضرت فاروق اعظم نے ایک مرتبہ لوگوں سے اس آیت کی تفسیر پوچھی تو سب خاموش رہے ، آپ نے فرمایا لو میں بتاؤں ، آدمی کا جوڑا جنت میں اسی جیسا ہو گا اسی طرح جہنم میں بھی ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں مطلب اس سے یہی ہے کہ تین قسم کے لوگ ہو جائیں گے یعنی اصحاب الیمین اصحاب الشمال اور سابقین ۔ مجاہد فرماتے ہیں ہر قسم کے لوگ ایک ساتھ ہوں گے یہی قول امام ابن جریر بھی پسند کرتے ہیں اور یہی ٹھیک بھی ہے دوسرا قول یہ ہے کہ عرش کے پاس سے پانی کا ایک دریا جاری ہو گا جو چالیس سال تک بہتا رہیگا اور بڑی نمایاں چوڑان میں ہو گا اس سے تمام مرے سڑے گلے اگنے لگیں گے اس طرح کے ہو جائیں گے کہ جو انہیں پہچانتا ہو وہ اگر انہیں اب دیکھ لے توبہ یک نگاہ پہچان لے پھر روحیں چھوڑی جائیں گی اور ہر روح اپنے جسم میں آ جائے گی یہی معنی ہیں آیت ( وَاِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ Ċ۝۽ ) 81- التكوير:7 ) یعنی روحیں جسموں میں ملا دی جائیں گی اور یہ معنی بھی بیان کیے گئے ہیں کہ مومنوں کا جوڑا حوروں سے لگایا جائیگا اور کافروں کا شیطانوں سے ( تذکرہ قرطبی ) پھر ارشاد ہوتا ہے آیت ( وَاِذَا الْمَوْءٗدَةُ سُىِٕلَتْ Ď۝۽ ) 81- التكوير:8 ) جمہور کی قراۃ یہی ہے اہل جاہلیت لڑکیوں کو ناپسند کرتے تھے اور انہیں زندہ درگور کر دیا کرتے تھے ان سے قیامت کے دن سوال ہو گا کہ یہ کیوں قتل کی گئیں؟ تاکہ ان کے قاتلوں کو زیادہ ڈانٹ ڈپٹ اور شرمندگی ہو اور یہ بھی سمجھ لیجئے کہ جب مظلوم سے سوال ہوا تو ظالم کا تو کہنا ہی کیا ہے؟ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ خود پوچھیں گی کہ انہیں کس بنا پر زندہ درگور کیا گیا ؟ اس کے متعلق احادیث سنئے مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں نے قصد کیا کہ لوگوں کو حالت حمل کی مجامعت سے روک دوں لیکن میں نے دیکھا کہ رومی اور فارسی یہ کام کرتے ہیں اور ان کی اولاد کو اس سے کچھ نقصان نہیں پہنچتا ۔ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عزل کے بارے میں سوال کیا یعنی بروقت نطفہ کو باہر ڈال دینے کے بارے میں تو آپ نے فرمایا کہ یہ درپردہ زندہ گاڑ دینا ہے اور اسی کا بیان واذا الموؤدۃ الخ میں ہے ۔ سلمہ بن یزید اور ان کے بھائی سرکار نبوت میں حاضر ہو کر سوال کرتے ہیں کہ ہماری ماں امیر زادی تھیں وہ صلہ رحمی کرتی تھیں مہمان نوازی کرتی تھیں اور بھی نیک کام بہت کچھ کرتی تھیں لیکن جاہلیت میں ہی مر گئی ہیں تو کیا اس کے یہ نیک کام اسے کچھ نفع دیں گے؟ آپ نے فرمایا نہیں انہوں نے کہا کہ اس نے ہماری ایک بہن کو زندہ دفن کر دیا ہے کیا وہ بھی اسے کچھ نفع دے گی؟ آپ نے فرمایا زندہ گاڑی ہوئی اور زندہ گاڑنے والی جہنم میں ہیں ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ اسلام کو قبول کر لے ( مسند احمد ) ابن ابی حاتم میں ہے زندہ دفن کرنے والی اور جسے دفن کیا ہے دونوں جہنم میں ہیں ایک صحابیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سوال پر کہ جنت میں کون جائے گا آپ نے فرمایا نبی ، شہید ، بچے اور زندہ درگور کی ہوئی ۔ یہ حدیث مرسل ہے حضرت حسن سے جسے بعض محدثین نے قبولیت کا مرتبہ دیا ہے ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ مشرکوں کے چھوٹی عمر میں مرے ہوئے بچے جنتی ہیں جو انہیں جہنمی کہے وہ جھوٹا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ( وَاِذَا الْمَوْءٗدَةُ سُىِٕلَتْ Ď۝۽ ) 81- التكوير:8 ) ( ابن ابی حاتم ) قیس بن عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سوال کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نے جاہلیت کے زمانے میں اپنی بچیوں کو زندہ دبا دیا ہے میں کیا کروں؟ آپ نے فرمایا ہر ایک کے بدلے ایک غلام آزاد کرو انہوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم غلام والا تو میں ہوں نہیں البتہ میرے پاس اونٹ ہیں فرمایا ہر ایک کے بدلے ایک اونٹ اللہ کے نام پر قربان کرو ( عبدالرزاق ) دوسری روایت میں ہے کہ میں نے بارہ تیرہ لڑکیاں زندہ دفن کر دی ہیں آپ نے فرمایا ان کی گنتی کے مطابق غلام آزاد کرو انہوں نے کہا بہت بہتر میں یہی کروں گا دوسرے سال وہاں یک سو اونٹ لے کر آئے اور کہنے لگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ میری قوم کا صدقہ ہے جو اس کے بدلے ہے جو میں نے مسلمانوں کے ساتھ کیا ۔ حضرت علی فرماتے ہیں ہم ان اونٹوں کو لے جاتے تھے اور ان کا قیسیہ رکھ چھوڑا تھا ۔ پھر ارشاد ہے کہ نامہ اعمال بانٹے جائیں گے کسی کے داہنے ہاتھ میں اور کسی کے بائیں ہاتھ میں ، اے ابن آدم تو لکھوا رہا ہے جو لپیٹ کر پھیلا کر تجھے دیا جائے گا دیکھ لے کہ کیا لکھوا کے لایا ہے آسمان گھسیٹ لیا جائے گا اور کھینچ لیا جائے گا اور سمیٹ لیا جائے گا اور برباد ہو جائے گا جہنم بھڑکائی جائے گی اللہ کے غضب اور بنی آدم کے گناہوں سے اس کی آگ تیز ہو جائے گی جنت جنتیوں کے پاس آ جائے گی جب یہ تمام کام ہو چکیں گے اس وقت ہر شخص جان لے گا کہ اس نے اپنی دنیا کی زندگی میں کیا کچھ اعمال کیے تھے وہ سب عمل اس کے سامنے موجود ہوں گے جیسے اور جگہ ہے آیت ( يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُّحْضَرًا ) 3-آل عمران:30 ) جس دن ہر شخص اپنے کیے ہوئے اعمال کو پا لے گا نیک ہیں تو سامنے دیکھ لے گا اور بد ہیں تو اس دن وہ آرزو کریگا کہ کاش اس کے اور اس کے درمیان بہت دوری ہوتی اور جگہ ہے آیت ( يُنَبَّؤُا الْاِنْسَانُ يَوْمَىِٕذٍۢ بِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ 13؀ۭ ) 75- القيامة:13 ) اس دن انسان کو اس کے تمام اگلے پچھلے اعمال سے تنبیہہ کی جائے گی حضرت عمر اس سورت کو سنتے رہے اور اس کو سنتے ہی فرمایا اگلی تمام باتیں اسی لیے بیان ہوئی تھیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 یعنی جس طرح سر پر پگڑی کو لپیٹا جاتا ہے، اسی طرح سورج کے وجود کو لپیٹ کر پھینک دیا جائے گا جس سے اس کی روشنی از خود ختم ہوجائے گی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢] کوّر بمعنی کسی چیز کو عمامہ یا پگڑی کی طرح لپیٹنا اور اوپر تلے گھمانا۔ اور اس میں گولائی اور تجمع کے دونوں تصور موجود ہوتے ہیں یعنی کسی چیز کو گولائی میں لپیٹنا اور جماتے جانا۔ مطلب یہ ہے کہ سورج کی شعاعیں، اس کی روشنی اور اس کی حرارت سب کچھ سمیٹ لیا جائے گا اور وہ بس ایک بےنور جسم رہ جائے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(اذا الشمس کورت :” کور العمامۃ و تکویریھا “ پگڑی لپیٹنا۔ ” تکویر المتاع “ سامان جمع کر کے باندھ دینا۔ (خلاصہ قاموس)” کو رث “ یعنی اتنی وسعت والے سورج، اس کی شعاعوں اور روشنی کو لپیٹ دیا جائے گا اور وہ بالکل بےنور ہوجائے گا۔ چاند کا بھی یہی حال ہوگا، چناچہ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(الشمس والقمر مکوران یوم القیامۃ) (بخاری، بدہ الخلق، باب صفۃ الشمس والقمر : ٣٢٠٠)” سورج اور چاند قیامت کے دن لپیٹ دیئے جائیں گے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - جب آفتاب بےنور ہوجاوے گا اور جب ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر گر پڑیں گے اور جب پہاڑ چلائے جاویں گے اور جب دس مہینے کی گابھن اونٹنیاں چھٹی پھریں گی، اور جب وحشی جانور (مارے گھبراہٹ کے) سب جمع ہوجاویں گے اور جب دریا بھڑکائے جاویں گے ( یہ چھ واقعے تو نفخہ اولیٰ کے وقت ہوں گے جبکہ دنیا آباد ہوگی اور اس نفخہ سے یہ تغیرات و تبدلات واقع ہوں گے اور اس وقت اونٹنیاں وغیرہ بھی اپنی اپنی حالت پر ہوں گی جنمیں بعضے وضع حمل کے قریب ہوں گی جو کہ عرب کے نزدیک سب سے زیادہ قیمتی مال ہے جس کی ہر وقت دیکھ بھال کرتے رہتے ہیں مگر اس وقت ہل چل میں کسی کو کسی کا ہوش نہ رہے گا اور وحوش بھی مارے گھبراہٹ کے سب گڈمڈ ہوجاویگے اور دریاؤں میں اول طغیانی پیدا ہوگی اور زمین میں شقوق واقع ہوجاویں گے جس سے سب شیریں اور شور دریا ایک ہوجاویں گے جس کا ذکر آئندہ سورة میں (آیت) واذا البحار فجرت میں فرمایا ہے۔ پھر شدت حرارت سے سب کا پانی آگ ہوجاوے گا، شاید اول ہوا ہوجاوے پھر ہوا آگ بن جاوے اس کے بعد عالم فنا ہوجاوے گا) اور (اگلے چھ واقعات بعد نفخہ ثانیہ کے ہوں گے جن کا بیان یہ ہے کہ) جب ایک ایک قسم کے لوگ اکٹھے کئے جاویں گے (کافر الگ مسلمان الگ، پھر ان میں ایک ایک طریقہ کے الگ الگ) اور جب زندہ گاڑھی ہوئی لڑکی سے پوچھا جاوے گا کہ وہ کس گناہ پر قتل کیے گئی تھی ( مقصود اس پوچھنے سے زندہ درگور کرنیوالے ظالموں کا اظہار جرم ہے) اور جب نامہ اعمال کھول دیئے جاویں گے (تاکہ سب اپنے اپنے عمل دیکھ لیں کقولہ تعالیٰ (یلقہ منشورا) اور جب آسمان کھل جاوے گا (اور اس کے کھلنے سے آسمان کے اوپر کی چیزیں نظر آنے لگیں گی اور نیز اس کے کھلنے سے غمام کا نزول ہوگا جسکا ذکر پارہ 19 (آیت) وقال الذین لایرجون ، ( آیت) و یوم تشقق السماء میں آیا ہے) اور جب دوزخ (اور زیادہ) دہکائی جاوے گی، اور جب جنت نزدیک کردی جاوے گی (کمافی سورة ق (آیت) وازلفت الجنتہ للمتقین، جب یہ سب واقعات نفخہ اولیٰ اور ثانیہ کے واقع ہوجاویں گے تو اس وقت) ہر شخص ان اعمال کو جان لیگا جو لے کر آیا ہے) اور جب ایسا واقعہ ہائلہ ہونیوالا ہے) تو ( میں منکرین کو اس کی حقیقت بتلاتا ہوں اور مصدقین کو اسکے لئے آمادہ کرتا ہوں، اور یہ دونوں امر قرآن کی تصدیق اور اس پر عمل کرنے سے حاصل ہوتے ہیں کہ اس میں اس کا اثبات اور نجات کا طریق ہے اسلئے) میں قسم کھاتا ہوں ان ستاروں کی جو (سیدھے چلتے چلتے) پیچھے کو ہٹنے لگتے ہیں (اور پھر پیچھے ہی کو) چلتے رہتے ( اور کبھی پیچھے چلتے چلتے اپنے مطالع میں) جا چھپتے ہیں (ایسا امر پانچ سیاروں کو پیش آتا ہے کہ کبھی سیدھے چلتے ہیں کبھی پیچھے چلتے ہیں اور ان کو خمسہ متحیرہ کہتے ہیں۔ زحل، مشتری، عطارد، مریخ، زہرہ) اور قسم ہے رات کی جب وہ جانے لگے، اور قسم ہے صبح کی جب وہ آنے لگے (آگے جواب قسم ہے) کہ یہ قرآن (اللہ کا) کلام ہے ایک معزز فرشتہ (یعنی جبرئیل علیہ السلام) کا لایا ہوا جو قوت والا ہے (کمافی النجم علمہ شدید القوی اور) مالک عرش کے نزدیک ذی رتبہ ہے (اور) وہاں (یعنی آسمانوں میں) اس کا کہنا مانا جاتا ہے (یعنی فرشتے اس کا کہنا مانتے ہیں جیسا حدیث معراج سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ انکے کہنے سے فرشتوں نے آسمانوں کے دروازے کھول دیئے اور (امانتدار ہے) کہ وحی کو صحیح پہنچا دیتا ہے پس وحی لانیوالا تو ایسا ہے) اور (آگے جن پر وحی نازل ہوئی ان کی نسبت ارشاد ہے کہ) یہ تمہارے ساتھ کے رہنے والے (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جن کا حال بخوبی تم کو معلوم ہے) مجنوں نہیں ہیں (جیسا منکرین نبوت کہتے تھے) اور انہوں نے اس فرشتہ کو (اصلی صورت میں آسمان کے) صاف کنارہ پر دیکھا بھی ہے (صاف کنارہ سے مراد بلند کنارہ ہے کہ صاف نظر آتا ہے کمافی النجم وھو بالافق الاعلے ٰ ، اور اس کا مفصل بیان سورة نجم میں گزرا ہے) اور یہ پیغمبر مخفی (بتلائی ہوئی وحی کی) باتوں پر بخل کرنیوالے بھی نہیں (جیسا کاہنوں کی عادت تھی کہ رقم لے کر کوئی بات بتلاتے تھے اس سے کہانت کی بھی نفی ہوگئی اور اس کی بھی کہ آپ اپنے کام کا کسی سے معاوضہ لیں) اور یہ قرآن کسی شیطان مردود کی کہی ہوئی بات نہیں ہے ( اس سے نفی کہانت کی اور تاکید ہوگئی، حاصل یہ کہ نہ آپ مجنوں ہیں نہ کاہن، نہ صاحب غرض، اور وحی لانیوالے کو پہچانتے بھی ہیں اور وحی لانیوالا ایسا ایسا ہے پس لا محالہ یہ اللہ کا کلام اور آپ اللہ کے رسول ہیں، اور یہ قسمیں مطلوب مقام کے نہایت مناسب ہیں چناچہ ستاروں کا سیدھا چلنا اور لوٹنا اور چھپ جانا مشابہ ہے فرشتے کے آنے اور واپس جانے اور عالم ملکوت میں جا چھپنے کے اور رات کا گزرنا اور صبح کا آنا مشابہ ہے قرآن کے سب ظلمت کفر کے رفع ہوجانے اور نور ہدایت کے ظاہر ہوجانے کے، جب یہ بات ثابت ہے) تو تم لوگ (اس بارہ میں) کدھر کو چلے جارہے ہو (کہ نبوت کے منکر ہو رہے ہو) بس یہ تو (بالعموم) دنیا جہان والوں کے لئے ایک بڑا نصیحت نامہ ہے (اور بالخصوص) ایسے شخص کے لئے جو تم میں سے سیدھا چلنا چاہے (عام لوگوں کے لئے ہدایت اس معنے سے ہے کہ ان کو سیدھا راستہ بتلادیا اور مومنین متقین کے لئے اس معنے سے کہ ان کو منزل مقصود پر پہنچا دیا) اور (بعض کے نصیحت قبول نہ کرنے سے اسکے نصیحت نامہ ہونے میں شبہ نہ کیا جاوے کیونکہ) تم بدون خدائے رب العالمین کے چاہے کچھ نہیں چاہ سکتے ہو (یعنی فی نفسہ تو نصیحت ہے لیکن تاثیر اس کی موقوف مشیت پر ہے جو بعض لوگوں کے لئے متعلق ہوتی ہے اور بعض کے لئے کسی حکمت سے متعلق نہیں ہوتی) - معارف ومسائل - اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ ، تکویر سے مشتق ہے اسکے معنے بےنور ہو جانے کے بھی آتے ہیں۔ جس بصری (رح) کی یہی تفسیر ہے اور اسکے معنے ڈال دینے پھینک دینے کے بھی آتے ہیں۔ ربیع ابن خیثم نے اس کی یہی تفسیر کی ہے کہ مراد اس سے یہ ہے کہ آفتاب کو سمندر میں ڈالدیا جائیگا جس کی گرمی سے سارا سمندر آگ بن جائیگا، اور ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہوسکتا ہے کہ اول آفتاب کے بےنور کردیا جائے پھر اس کو سمندر میں ڈال دیا جائے۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ شمس و قمر قیامت کے دن دریا میں ڈال دیئے جاویں گے اور مسند بزار میں اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ جہنم میں ڈال دیئے جاویں گے ابن ابی حاتم، ابن ابی الدنیا اور ابو الشیخ نے ان آیات کے متعلق یہ نقل کیا ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ شمس وقمر اور تمام ستاروں کو سمندر میں ڈال دیں گے اور پھر اس پر تیز ہوا چلے گی جس سے سارا سمندر آگ ہوجاوے گا، اس طرح یہ کہنا بھی صحیح ہوگیا کہ شمس وقمر کو دریا میں ڈالدیا جائے گا، اور یہ کہنا بھی درست رہا کہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا کیونکہ سارا سمندر اس وقت جہنم بن جائے گا۔ (مستفاد من المظہری و القرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ۝ ١ ۠- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ - (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- شمس - الشَّمْسُ يقال للقرصة، وللضّوء المنتشر عنها، وتجمع علی شُمُوسٍ. قال تعالی: وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس 38] ، وقال :- الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن 5] ، وشَمَسَ يومَنا، وأَشْمَسَ : صار ذا شَمْسٍ ، وشَمَسَ فلان شِمَاساً : إذا ندّ ولم يستقرّ تشبيها بالشمس في عدم استقرارها .- ( ش م س ) الشمس - کے معنی سورج کی نکیر یا وہوپ کے ہیں ج شموس قرآن میں ہے ۔ وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس 38] اور سورج اپنے مقرر راستے پر چلتا رہتا ہے ۔ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن 5] سورج اور چاند ایک حساب مقرر سے چل رہے ہیں ۔ شمس یومنا واشمس ۔ دن کا دھوپ ولا ہونا شمس فلان شماسا گھوڑے کا بدکنا ایک جگہ پر قرار نہ پکڑناز ۔ گویا قرار نہ پکڑنے ہیں میں سورج کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے ۔- كور - كَوْرُ الشیءِ : إدارته وضمّ بعضه إلى بعض، كَكَوْرِ العمامةِ ، وقوله تعالی: يُكَوِّرُ اللَّيْلَ عَلَى النَّهارِ وَيُكَوِّرُ النَّهارَ عَلَى اللَّيْلِ [ الزمر 5] فإشارة إلى جریان الشمس في مطالعها وانتقاص اللیل والنهار وازدیادهما . وطعنه فَكَوَّرَهُ : إذا ألقاه مجتمعاواکْتَارَ الفَرَسُ : إذا أدار ذنبه في عدوه، وقیل لإبل کثيرة : كَوْرٌ ، وكَوَّارَةُ النّحل معروفة . والْكُورُ : الرّحلُ ، وقیل لكلّ مصر :- كُورَةٌ ، وهي البقعة التي يجتمع فيها قری ومحالّ.- ( ک و ر ) الکور ۔ کے معنی کسی چیز کو عمامہ کی طرح لپیٹنے اور اس کو اوپر تلے گھمانے کے ہیں چناچہ آیت : ۔ يُكَوِّرُ اللَّيْلَ عَلَى النَّهارِ وَيُكَوِّرُ النَّهارَ عَلَى اللَّيْلِ [ الزمر 5] اور وہی رات کو دن پر لپیٹتا اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے ۔ میں مطالع شمسی کے تبدیل ہونے سے دن رات کے بڑھنے اور گھنٹے کو تکویر سے تعبیر فرمایا ہے ۔ طعنہ فکو رہ اس کو نیز ہ مار کر گچھلی کردیا اکتارالفرس ۔ گھوڑے کا دوڑ تے وقت اپنی دم گھمانا اور بہت سے اونٹوں کو بھی کور کہا جاتا ہے اور کو ارۃ النحل کے معنی شہد کے چھتہ کے ہیں ۔ الکور کے معنی اونٹ کا پالان بھی آتے ہیں اور ہر بڑے شہر کو کورۃ کہاجاتا ہے یعنی وہ علاقہ جس میں بہت سی بستیاں اور دیہات جمع ہوں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١۔ ٢) جب سورج عمامہ کی طرح پلٹ جائے گا، یا یہ کہ بےنور ہوجائے گا، اور جب ستارے ٹوٹ پھوٹ کر روئے زمین پر گر پڑیں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة التَّكْوِیْر حاشیہ نمبر :1 سورج کے بے نور کر دیے جانے کے لیے یہ ایک بے نظیر استعارہ ہے ۔ عربی زبان میں تکویر کے معنی لپیٹنے کے ہیں ۔ سر پر عمامہ باندھنے کے لیے تکویر العمامہ کے الفاظ بولے جاتے ہیں کیونکہ عمامہ پھیلا ہوا ہوتا ہے اور پھر سر کے گرد اسے لپیٹا جاتا ہے ۔ اسی مناسبت سے اس روشنی کو جو سورج سے نکل کر سارے نظام شمسی میں پھیلتی عمامہ سے تشبیہ دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ قیامت کے روز یہ پھیلا ہوا عمامہ سورج پر لپیٹ دیا جائے گا ، یعنی اس کی روشنی کا پھیلنا بند ہو جائے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

1: یہاں سے آیت نمبر 14 تک قیامت اور آخرت کے حالات بیان فرمائے گئے ہیں۔ سورج کو لپیٹنے کی کیا کیفیت ہوگی؟ اس کی حقیقت تو اﷲ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے۔ البتہ یہ بات ظاہر ہے کہ اس کے نتیجے میں سورج میں روشنی باقی نہیں رہے گی۔ چنانچہ بعض حضرات نے اس آیت کا ترجمہ یہ بھی فرمایا ہے کہ: ’’جب سورج بے نور ہوجائے گا۔‘‘ چونکہ لپیٹنے کو عربی میں ’’تکویر‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس لئے اس سورت کا نام سورۃ تکویر ہے۔