2۔ 1 دوسرا ترجمہ کہ جھڑ کر گرجائیں گے یعنی آسمان پر ان کا وجود ہی نہیں رہے گا
[٣] اِنْکَدَرَ : کدر بمعنی گدلاپن (ضد صفائ) اور انکدر کا معنی کسی چیز کا خود گدلا ہونا۔ رنگ میلا اور ہلکا پڑجانا یا ماند پڑجانا، یعنی ستاروں اور چاند کو جو روشنی حاصل ہے وہ انعکاس نور کے نتیجہ میں سورج یا ایسے کسی دوسرے ستارے سے حاصل ہوتی ہے۔ پھر جب ان ستاروں کا باہمی ربط ختم ہوجائے گا تو ان میں چمک اور آب و تاب بھی نہ رہے گی۔
(واذا النجوم انکدرت :” انکدرت “ طبری نے اس کے دو معانی نقل فرمائے ہیں، پہلا ” تناثرت “ یعنی بکھر کر گرجائیں گے اور دوسرا ” تغیرت “ یعنی متغیر ہوجائیں گے۔ کدورت صفائی کی ضد ہے۔ دونوں ملحوظ رکھے جائیں تو مطلب یہ ہوگا کہ ستارے بکھر کر گرجائیں گے، ان کی روشنی اور صفائی ختم ہو جائیگی اور وہ بےنور ہوجائیں گے۔
وَاِذَا النُّجُوْمُ انْكَدَرَتْ ، انکدار سے مشتق ہے اس کے معنے سقوط اور گرنے کے ہیں۔ سلف سے یہی تفسیر منقول ہے اور مراد یہ ہے کہ آسمان کے سب ستارے سمندر میں گر پڑیں گے جیسا کہ مذکورہ روایات میں اس کی تفصیل آچکی ہے۔
وَاِذَا النُّجُوْمُ انْكَدَرَتْ ٢ - نجم - أصل النَّجْم : الكوكب الطالع، وجمعه :- نُجُومٌ ، ونَجَمَ : طَلَعَ ، نُجُوماً ونَجْماً ، فصار النَّجْمُ مرّة اسما، ومرّة مصدرا، فَالنُّجُوم مرّة اسما کالقلُوب والجُيُوب، ومرّة مصدرا کالطُّلوع والغروب، ومنه شُبِّهَ به طلوعُ النّبات، والرّأي، فقیل : نَجَمَ النَّبْت والقَرْن، ونَجَمَ لي رأي نَجْما ونُجُوماً ، ونَجَمَ فلانٌ علی السّلطان : صار - عاصیا، ونَجَّمْتُ المالَ عليه : إذا وَزَّعْتُهُ ، كأنّك فرضت أن يدفع عند طلوع کلّ نَجْمٍ نصیباً ، ثم صار متعارفا في تقدیر دفعه بأيّ شيء قَدَّرْتَ ذلك . قال تعالی: وَعَلاماتٍ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ [ النحل 16] ، وقال : فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ [ الصافات 88] أي : في علم النُّجُوم، وقوله : وَالنَّجْمِ إِذا هَوى[ النجم 1] ، قيل : أراد به الكوكب، وإنما خصّ الهُوِيَّ دون الطّلوع، فإنّ لفظة النَّجْم تدلّ علی طلوعه، وقیل : أراد بِالنَّجْم الثُّرَيَّا، والعرب إذا أطلقتْ لفظَ النَّجم قصدتْ به الثُّرَيَّا . نحو : طلع النَّجْمُ غُدَيَّه ... وابْتَغَى الرَّاعِي شُكَيَّه «1»- وقیل : أراد بذلک القرآن المُنَجَّم المنزَّل قَدْراً فَقَدْراً ، ويعني بقوله : هَوى نزولَهُ ، وعلی هذا قوله : فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] فقد فُسِّرَ علی الوجهين، والتَّنَجُّم : الحکم بالنّجوم، وقوله تعالی: وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدانِ [ الرحمن 6] فَالنَّجْمُ : ما لا ساق له من النّبات، وقیل : أراد الکواكبَ.- ( ن ج م ) النجم - اصل میں طلوع ہونے ولاے ستارے کو کہتے ہیں اس کی جمع نجوم آتی ہے ۔ اور نجم ( ن ) نجوما ونجاما کے معنی طلوع ہونے کے ہیں نجم کا لفظ کبھی اسم ہوتا ہے اور کبھی مصدر اسی طرح نجوم کا لفظ کبھی قلوب وجیوب کی طرح جمع ہوتا ہے اور کبھی طلوع و غروب کی طرح مصدر اور تشبیہ کے طور پر سبزہ کے اگنے اور کسی رائے کے ظاہر ہونے پر بھی نجم النبت والقرن ونجم لی رای نجما کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ نجم فلان علی السلطان بادشاہ سے لغایت کرنا نجمت المال علیہ اس کے اصل منعی تو ستاروں کے طلوع کے لحاظ سے قرض کی قسطیں مقرر کرنے کے ہیں ۔ مثلا فلاں ستارے کے طلوع پر مال کی اتنی قسط ادا کرتا رہوں گا ۔ مگر عرف میں لطلق اقساط مقرر کرنے پر بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ [ النحل 16] اور لوگ ستاروں سے بھی رستے معلوم کرتے ہیں ۔ فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ [ الصافات 88] تب انہوں نے ستاروں کی طرف ایک نظر کی ۔ یعنی علم نجوم سے حساب نکالا ۔ اور آیت کریمہ ؛ ۔ وَالنَّجْمِ إِذا هَوى[ النجم 1] تارے کی قسم جب غائب ہونے لگے ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ نجم سے مراد ستارہ ہے اور طلع کی بجائے ھوی کا لفظ لانے کی وجہ یہ ہے کہ طلوع کے معنی پر تو لفظ نجم ہی دلالت کر رہا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ جنم سے مراد ثریا یعنی پر دین ہے کیونکہ اہل عرب جب مطلق النجم کا لفظ بولتے ہیں تو پر دین ہی مراد ہے جیسا کہ مقولہ ہے طلع النجم غد یہ وابتغی الراعی سکیہ صبح کا ستارہ طلوع ہوا اور چر واہے نے اپنا مشکیزہ سنبھالا ۔ بعض نے کہا ہے کہ آیت مذکورہ میں النجم سے مراد نجوم القرآن ہیں ۔ کیونکہ وہ بھی تد ریجا معین مقدار میں نازل ہوتا رہا ہے اور ھوی سے اس کا نزول مراد ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ میں بھی مواقع النجوم کی دو طرح تفسیر بیان کی گئی ہے یعنی بعض نے مواقع النجوم سے مراد ستاروں کے منازل لئے ہیں اور بعض نے نجوم القرآن مراد لئے ہیں ۔ التنجم علم نجوم کے حساب سے کوئی پیش گوئی کرنا اور آیت کریمہ : ۔ وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدانِ [ الرحمن 6] اور بوٹیاں اور درخت سجدے کر رہے ہیں ۔ میں نجم سے بےتنہ نباتات یعنی جڑی بوٹیاں مراد ہیں اور بعض نے ستارے مراد لئے ہیں ۔- كدر - الْكَدَرُ : ضدّ الصّفاء، يقال : عيش كَدِرٌ ، والکُدْرَةُ في اللّون خاصّة، والْكُدُورَةُ في الماء، وفي العیش، والِانْكِدَارُ : تغيّر من انتثار الشیء . قال تعالی: وَإِذَا النُّجُومُ انْكَدَرَتْ- [ التکوير 2] ، وانْكَدَرَ القوم علی كذا : إذا قصدوا متناثرین عليه .- ( ک د ر ) الکدر کے معنی کسی چیز میں گدلاپن کے ہیں اور یہ صفاء صفائی کی ضد ہے مثلا عیش کدر۔ تیرہ زندگی الکدرۃ کے معنی بھی گد لاپن کے ہیں مگر اس کا استعمال خصوصیت کے ساتھ رنگ میں ہوتا ہے اور کد ورۃ کا پانی اور زندگی میں ۔ الا نکدار ( انفعال ) اس تغیر کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے بکھر جانے سے واقع ہوتا ہے قرآن پاک میں ہے ۔ وَإِذَا النُّجُومُ انْكَدَرَتْ [ التکوير 2] اور جب ستارے بکھر کر بےنور ہوجائیں گے ۔ قوم بکھر کر اس پر ٹوٹ پڑی ۔
سورة التَّكْوِیْر حاشیہ نمبر :2 یعنی وہ بندش جس نے ان کو اپنے اپنے مدار اور مقام پر باندھ رکھا ہے ، کھل جائے گی اور سب تارے اور سیارے کائنات میں منتشر ہو جائیں گے ۔ اس کے علاوہ انکدار میں کدورت کا مفہوم بھی شامل ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ صرف منتشر ہی نہیں ہو گے بلکہ تاریک بھی ہو جائیں گے ۔