[١٢] یہ وقت وہ ہوگا جب لوگوں کا حساب کتاب لیا جارہا ہوگا اور اللہ کے فرمانبردار جہنم کو دیکھ کر یہ سمجھ لیں گے کہ اگر وہ اللہ کی فرمانبرداری نہ کرتے تو یہ بھڑکتی ہوئی جہنم ان کا ٹھکانا ہوتا۔ اس پر وہ اللہ کا مزید شکر بجا لائیں گے۔ جس نے دنیا میں انہیں راہ راست پر رکھا۔ اور مجرم لوگ جب جنت کی نعمتوں کو دیکھیں گے پھر یہ خیال کریں گے کہ ان کا اصلی ٹھکانا دوزخ ہے تو ان کی حسرت و یاس میں مزید اضافہ ہوگا۔
وَاِذَا الْجَنَّۃُ اُزْلِفَتْ ١٣ - جَنَّةُ :- كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]- الجنۃ - ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ - حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔- زلف - الزُّلْفَةُ : المنزلة والحظوة «2» ، وقوله تعالی: فَلَمَّا رَأَوْهُ زُلْفَةً [ الملک 27] - وقیل لمنازل اللیل : زُلَفٌ قال : وَزُلَفاً مِنَ اللَّيْلِ [هود 114] - ( ز ل ف ) الزلفۃ - اس کے معنی قریب اور مرتبہ کے ہیں چناچہ آیت : ۔ فَلَمَّا رَأَوْهُ زُلْفَةً [ الملک 27] سو جب وہ قریب دیکھیں گے ۔ اور منازل لیل یعنی رات کے حصوں کو بھی زلف کہا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَزُلَفاً مِنَ اللَّيْلِ [هود 114] اور رات کے کچھ حصوں میں۔
آیت ١٣ وَاِذَا الْجَنَّۃُ اُزْلِفَتْ ۔ ” اور جب جنت قریب لے آئی جائے گی۔ “- ان تیرہ آیات میں قیامت کے دن کی مختلف کیفیات کا ذکر کرنے کے بعد جو اہم اور اصل بات بتانا مقصود ہے وہ یہ ہے :
سورة التَّكْوِیْر حاشیہ نمبر :11 یعنی میدان حشر میں جب لوگوں کے مقدمات کی سماعت ہو رہی ہو گی اس وقت جہنم کی دھکتی ہوئی آگ بھی سب کو نظر آ رہی ہو گی اور جنت بھی اپنی ساری نعمتوں کے ساتھ سب کے سامنے موجود ہو گی تاکہ بد بھی جان لیں کہ وہ کس چیز سے محروم ہو کر کہاں جانے والے ہیں ، اور نیک بھی جان لیں کہ وہ کس چیز سے بچ کر کن نعمتوں سے سرفراز ہونے والے ہیں ۔