Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

14۔ 1 یہ جواب ہے یعنی مذکورہ امور ظہور پذیر ہوں گے، جن میں سے پہلے چھ کا تعلق دنیا سے ہے اور دوسرے چھ امور کا آخرت سے۔ اس وقت ہر ایک کے سامنے اس کی حقیقت آجائے گی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٣] اس علم کے ذریعے دو ہوں گے۔ ایک تو ہر انسان اپنے اعمال کا ٹھیک ٹھیک محاسب ہوتا ہے بشرطیکہ وہ حیلے بہانوں یا اپنے نفس کی طرفداری سے کام نہ لے۔ دوسرے ہر شخص کے اعمال نامے بھی کھول کر انہیں دے دیئے جائیں گے۔ ان دو چیزوں سے ہر انسان اللہ تعالیٰ کی عدالت سے فیصلہ سے پہلے ہی یہ سمجھ لے گا کہ آیا وہ جنت کا مستحق قرار پائے گا یا جہنم کا ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(علمت نفس ما احضرت : شروع سورت سے یہاں تک کل بارہ چیزوں کا ذکر ہوا ہعے، جب یہ بارہ چیزیں ہوجائیں گی تو کیا ہوگا ؟ اس کا جواب ہے :(علمت نفس ما احضرت) کہ ہر جان جو کچھ لے کر آئی ہے اسے جان لے گی۔” نفس “ کی تنکیر عموم کے لئے ہے، اسلئے ترجمہ ” ہر جان “ کیا گیا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّآ اَحْضَرَتْ ، یعنی جب قیامت کے حالات مذکورہ پیش آویں گے اس وقت ہر انسان جان لیگا کہ وہ اپنے ساتھ کیا سامان لایا ہے۔ سامان سے مراد اس کا نیک یا بد عمل ہے کہ وہ سب اعمال اسکے سامنے آجاویں گے جو دنیا میں کئے تھے خواہ اس طرح کے صحائف اعمال میں لکھے ہوئے اسکے ہاتھ میں آجائیں یا اس طرح کے یہ اعمال کسی خاص شکل و صورت میں اسکے سامنے آویں جیسا کہ بعض روایات حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ واللہ اعلم، قیامت کے احوال اور ہولناک مناظر اور وہاں محاسبہ اعمال کا ذکر فرمانے کے بعد حق تعالیٰ نے چند ستاروں کی قسم کھا کر فرمایا کہ یہ قرآن حق ہے اللہ کی طرف سے بڑی حفاظت کے ساتھ بھیجا گیا ہے اور جس ذات پر نازل ہوا ہے وہ ذات ایک بڑی ہستی ہے وحی لانے والے فرشتے کو وہ پہلے سے جانتے پہچانتے تھے اسلئے اس کے حق ہونے میں کسی شک وشبہ کی راہ نہیں۔ جن ستاروں کی قسم یہاں کھائی گئی وہ پانچ ستارے ہیں جن کو علم ہیت فلکیات میں خمسہ متحیرہ کہتے ہیں اور متحیرہ کہنے کیوجہ یہ ہے کہ ان پانچوں ستاروں کی حرکت دنیا میں اس طرح دیکھی جاتی ہے کہ کبھی مشرق سے مغرب کی طرف چل رہے ہیں کبھی پھر پچھے کو مغرب سے مشرق کی طرف چلنے لگے ہیں اس کی وجہ کیا، اور دو مختلف حرکتوں کا سبب کیا ہے، اسکے بارے میں قدیم فلسفہ یونان والوں کے مختلف اقوام ہیں اور جدید فلسفہ والوں کی تحقیق ان میں سے بعض کے مطابق ہے بعض کے خلاف اور حقیقت کا علم، پیدا کرنیوالے کے سوا کسی کو نہیں، سب تخمینے اور اندازے ہی ہیں جو غلط بھی ہوسکتے ہیں صحیح بھی، قرآن حکیم نے امت کو اس فضول بحث میں نہیں الجھایا، جتنی بات ان کے فائدہ کی تھی وہ بتلادی کہ وہ رب العزت جل شانہ کی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کا اس میں مشاہدہ کریں اور ایمان لائیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّآ اَحْضَرَتْ۝ ١٤ ۭ- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - نفس - الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . - ( ن ف س ) النفس - کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔- حضر - الحَضَر : خلاف البدو، والحَضَارة والحِضَارَة : السکون بالحضر، کالبداوة والبداوة، ثمّ جعل ذلک اسما لشهادة مکان أو إنسان أو غيره، فقال تعالی: كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة 180] ، نحو : حَتَّى إِذا جاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ الأنعام 61] ، وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء 8] ، وقال تعالی: وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء 128] ، عَلِمَتْ نَفْسٌ ما أَحْضَرَتْ [ التکوير 14] ، وقال : وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ [ المؤمنون 98] ، وذلک من باب الکناية، أي : أن يحضرني الجن، وكني عن المجنون بالمحتضر وعمّن حضره الموت بذلک، وذلک لما نبّه عليه قوله عزّ وجل : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق 16] ، وقوله تعالی: يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آياتِ رَبِّكَ [ الأنعام 158] ، وقال تعالی: ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً [ آل عمران 30] ، أي : مشاهدا معاینا في حکم الحاضر عنده، وقوله عزّ وجلّ : وَسْئَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كانَتْ حاضِرَةَ الْبَحْرِ [ الأعراف 163] ، أي : قربه، وقوله : تِجارَةً حاضِرَةً [ البقرة 282] ، أي : نقدا، وقوله تعالی: وَإِنْ كُلٌّ لَمَّا جَمِيعٌ لَدَيْنا مُحْضَرُونَ [يس 32] ، وفِي الْعَذابِ مُحْضَرُونَ [ سبأ 38] ، شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر 28] ، أي :- يحضره أصحابه، والحُضْر : خصّ بما يحضر به الفرس إذا طلب جريه، يقال : أَحْضَرَ الفرس، واستحضرته : طلبت ما عنده من الحضر، وحاضرته مُحَاضَرَة وحِضَارا : إذا حاججته، من الحضور، كأنه يحضر کلّ واحد حجّته، أو من الحضر کقولک : جاریته، والحضیرة : جماعة من الناس يحضر بهم الغزو، وعبّر به عن حضور الماء، والمَحْضَر يكون مصدر حضرت، وموضع الحضور .- ( ح ض ر ) الحضر - یہ البدو کی ضد ہے اور الحضارۃ حاد کو فتحہ اور کسرہ دونوں کے ساتھ آتا ہے جیسا کہ بداوۃ وبداوۃ اس کے اصل شہر میں اقامت کے ہیں ۔ پھر کسی جگہ پر یا انسان وگیرہ کے پاس موجود ہونے پر حضارۃ کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة 180] تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت آجائے ۔ وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء 8] اور جب تم میراث کی تقسیم کے وقت ۔۔۔ آمو جود ہوں ۔ وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء 128] اور طبائع میں بخل ودیعت کردیا گیا ہے ۔ عَلِمَتْ نَفْسٌ ما أَحْضَرَتْ [ التکوير 14] تب ہر شخص معلوم کرلے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے اور آیت کریمہ : وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ [ المؤمنون 98] میں کنایہ کہ اے پروردگار میں پناہ مانگتا ہوں کہ جن و شیاطین میرے پاس آھاضر ہوں ۔ اور بطور کنایہ مجنون اور قریب المرگ شخص کو محتضر کہا جاتا ہے جیسا کہ آیت : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق 16] اور آیت کریمہ : یوم یاتی بعض ایات ربک میں اس معنی پر متنبہ کیا گیا ہے اور آیت کریمہ ۔ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً [ آل عمران 30] کے معنی یہ ہیں کہ انسان جو نیکی بھی کرے گا ۔ قیامت کے دن اس کا اس طرح مشاہدہ اور معاینہ کرلے گا جیسا کہ کوئی شخص سامنے آموجود ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَسْئَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كانَتْ حاضِرَةَ الْبَحْرِ [ الأعراف 163] اور ان سے اس گاؤں کا حال پوچھ جواب دریا پر واقع تھا ۔ میں حاضرۃ البحر کے معنی دریا کے قریب یعنی ساحل کے ہیں اور آیت کریمہ : تِجارَةً حاضِرَةً [ البقرة 282] میں حاضرۃ کے معنی نقد کے ہیں ۔ نیز فرمایا : وَإِنْ كُلٌّ لَمَّا جَمِيعٌ لَدَيْنا مُحْضَرُونَ [يس 32] اور سب کے سب ہمارے روبرو حاضر کئے جائیں گے ۔ وفِي الْعَذابِ مُحْضَرُونَ [ سبأ 38] وی عذاب میں ڈالے جائیں گے ۔ اور آیت کریمہ : شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر 28] ، ہر باری والے کو اپنی باری پر آنا چاہئے میں بانی کی باری کے محتضر ہونے کے معنی یہ ہیں کہ باڑی والے اس گھاٹ پر موجود ہوں ۔ الحضر ۔ خاص کر گھوڑے کی تیز دوڑے کو کہتے ہیں کہا جاتا ہے : احضر الفرس گھوڑا دوڑا استحضرتُ الفرس میں نے گھوڑے کو سرپٹ دوڑایا ۔ حاضرتہ محاضرۃ وحضارا باہم جھگڑنا ۔ مباحثہ کرنا ۔ یہ یا تو حضور سے ہے گویا ہر فریق اپنی دلیل حاضر کرتا ہے اور یا حضر سے ہے جس کے معنی تیز دوڑ کے ہوتے ہیں جیسا کہ ۔۔۔۔۔۔ جاریتہ کہا جاتا ہے ۔ الحضیرۃ ُ لوگوں کی جماعت جو جنگ میں حاضر کی جائے اور کبھی اس سے پانی پر حاضر ہونے والے لوگ بھی مراہ لئے جاتے ہیں ۔ المحضرُ ( اسم مکان ) حاضر ہونے کی جگہ اور حضرت ُ ( فعل ) کا مصدر بھی بن سکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٤ عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّآ اَحْضَرَتْ ۔ ” (اُس دن) ہر جان جان لے گی کہ اس نے کیا کچھ حاضر کیا ہے۔ “- یعنی ہر انسان کے تمام اعمال کی پوری تفصیل اس کے سامنے آجائے گی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani