ستارے ، نیل گائے اور ہرن حضرت عمرو بن حریث رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے صبح کی نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس سورہ کی تلاوت کرتے ہوئے سنا اس نماز میں میں بھی مقتدیوں میں شامل تھا ( مسلم ) یہ ستاروں کی قسمیں کھائی گئی ہیں جو دن کے وقت پیچھے ہٹ جاتے ہیں یعنی چھپ جاتے ہیں اور رات کو ظاہر ہوتے ہیں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی فرماتے ہیں اور بھی صحابہ تابعین وغیرہ سے اس کی یہی تفسیر مروی ہے بعض ائمہ نے فرمایا ہے طلوع کے وقت ستاروں کو خنس کہا جاتا ہے اور اپنی اپنی جگہ پر انہیں جوار کہا جاتا ہے اور چھپ جانے کے وقت انہیں کنس کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے اس سے مراد جنگلی گائے ہے یہ بھی مروی ہے کہ مراد ہرن ہے ۔ ابراہیم نے حضرت مجاہد سے اس کے معنی پوچھے تو حضرت مجاہد نے فرمایا کہ ہم نے اس بارے میں کچھ نہیں سنا البتہ لوگ کہتے ہیں کہ اس سے مراد ستارے ہیں ۔ انہوں نے پھر سوال کیا کہ جو تم نے سنا ہو وہ کہو تو فرمایا ہم سنتے ہیں کہ اس سے مراد نیل گائے ہے جبکہ وہ اپنی جگہ چھپ جاتے ۔ حضرت ابراہیم نے فرمایا وہ مجھ پر جھوٹ باندھتے ہیں جیسے حضرت علی سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اسفل کو اعلیٰ اور اعلی کو اسفل کا ضامن بنایا امام ابن جریر نے اس میں سے کسی کی تعبین نہیں کی اور فرمایا ہے ممکن ہے تینوں چیزیں مراد ہوں یعنی ستارے نیل گائے اور ہرن ۔ عسعس کے معنی ہیں اندھیری والی ہوئی اور اٹھ کھڑی ہوئی اور لوگوں کو ڈھانپ لیا اور جانے لگی ۔ صبح کی نماز کے وقت حضرت علی ایک مرتبہ نکلے اور فرمانے لگے کہ وتر کے بارے میں پوچھنے والے کہاں ہیں ؟پھر یہ آیت پڑھی ۔ امام ابن جریر اسی کو پسند فرماتے ہیں کہ معنی یہ ہیں کہ رات جب جانے لگے کیونکہ اس کے مقابلہ میں ہے کہ جب صبح چمکنے لگے ، شاعروں نے عسعس کو ادبر کے معنی میں باندھا ہے میرے نزدیک ٹھیک معنی یہ ہیں کہ قسم ہے رات کی جب وہ آئے اور اندھیرا پھیلا ئے اور قسم ہے دن کی جب وہ آئے اور روشنی پھیلائے جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَالَّيْلِ اِذَا يَغْشٰى Ǻۙ ) 92- الليل:1 ) اور جگہ ہے آیت ( وَالضُّحٰى Ǻۙ ) 93- الضحى:1 ) اور جگہ ہے آیت ( فَالِقُ الْاِصْبَاحِ ۚ وَجَعَلَ الَّيْلَ سَكَنًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْـبَانًا ۭذٰلِكَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ 96 ) 6- الانعام:96 ) اور بھی اس قسم کی آیتیں بہت سی ہیں مطلب سب کا یکساں ہے ، ہاں بیشک اس لفظ کے معنی پیچھے ہٹنے کے ہی ہیں ۔ علماء اصول نے فرمایا ہے کہ یہ لفظ آگے آنے اور پیچھے جانے کے دونوں کے معنی میں آتا ہے ۔ اس بناء پر دونوں معنی ٹھیک ہو سکتے ہیں واللہ اعلم ، اور قسم ہے صبح کی جبکہ وہ طلوع ہو اور روشنی کے ساتھ آئے ۔ پھر ان قسموں کے بعد فرمایا ہے کہ یہ قرآن ایک بزرگ ، شریف ، پاکیزہ رو ، خوش منظر فرشتے کا کلام ہے یعنی حضرت جبرائیل علیہ السلام کا ، وہ قوت والے ہیں جیسے کہ اور جگہ ہے آیت ( عَلَّمَهٗ شَدِيْدُ الْقُوٰى Ĉۙ ) 53- النجم:5 ) یعنی سخت مضبوط اور سخت پکڑ اور فعل والا فرشتہ ، وہ اللہ عز و جل کے پاس جو عرش والا ہے بلند پایہ اور ذی مرتبہ ہے ۔ وہ نور کے ستر پردوں میں جا سکتے ہیں اور انہیں عام اجازت ہے ۔ ان کی بات وہاں سنی جاتی ہے برتر فرشتے ان کے فرمانبردار ہیں ، آسمانوں میں ان کی سرداری ہے ۔ کہ وہ فرشتے ان کے تابع فرمان ہیں ۔ وہ اس پیغام رسانی پر مقرر ہیں کہ اللہ کا کلام اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچائیں یہ فرشتے اللہ کے امین ہیں مطلب یہ ہے کہ فرشتوں میں سے جو اس رسالت پر مقرر ہیں وہ بھی پاک صاف ہیں اور انسانوں میں جو رسول مقرر ہیں وہ بھی پاک اور برتر ہیں ۔ اس لیے اس کے بعد فرمایا ، تمھارے ساتھی یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دیوانے نہیں ، یہ پیغمبر اس فرشتے کو اس کی اصلی صورت میں بھی دیکھ چکے ہیں جبکہ وہ اپنے چھ سو پروں سمیت ظاہر ہوئے تھے یہ واقعہ بطحا کا ہے اور یہ پہلی مرتبہ کا دیکھنا تھا آسمان کے کھلے کناروں پر یہ دیدار جبرائیل ہوا تھا ، اسی کا بیان اس آیت میں ہے آیت ( عَلَّمَهٗ شَدِيْدُ الْقُوٰى Ĉۙ ) 53- النجم:5 ) یعنی انہیں ایک فرشتہ تعلیم کرتا ہے جو بڑا طاقتور ہے قوی ہے ، جو اصلی صورت پر آسمان کے بلند و بالا کناروں پر ظاہر ہوا تھا پھر وہ نزدیک آیا اور بہت قریب آ گیا صرف دو کمانوں کا فاصلہ رہ گیا بلکہ اس سے بھی کم پھر جو وحی اللہ نے اپنے بندے پر نازل کرنی چاہی نازل فرمائی ، اس آیت کی تفسیر سورہ النجم میں گزر چکی ہے ۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورت معراج سے پہلے اتری ہے اس لیے کہ اس میں صرف پہلی مرتبہ کا دیکھنا ذکر ہوا ہے اور دوبارہ کا دیکھنا اس آیت میں مذکور ہے ۔ آیت ( وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰى 13ۙ ) 53- النجم:13 ) یعنی انہوں نے اس کو ایک مرتبہ اور بھی سدرۃ المنتہی کے پاس دیکھا ہے جس کے قریب جنت الماویٰ ہے ۔ جبکہ اس درخت سدرہ کو ایک عجیب و غریب چیز چھپائے ہوئی تھی ۔ اس آیت میں دوسری مرتبہ کے دیکھنے کا ذکر ہے ۔ یہ سورت واقعہ معراج کے بعد نازل ہوئی تھی ۔ بضنینٍ کی دوسری قرأت بظنینٍ بھی مروی ہے ۔ یعنی ان پر کوئی تہمت نہیں اور ضاد سے جب پڑھو تو معنی ہوں گے یہ بخیل نہیں ہیں بلکہ ہر شخص کو جو غیب کی باتیں آپ کو اللہ کی طرف سے معلوم کرائی جاتی ہیں یہ سکھا دیا کرتے ہیں یہ دونوں قرأت یں مشہور ہیں ، پس آپ نے نہ تو تبلیغ احکام میں کمی کی ، نہ تہمت لگی ، یہ قرآن شیطان مردود کا کلام نہیں ، نہ شیطان اسے لے سکے نہ اس کے مطلب کی یہ چیز نہ اس کے قابل جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَمَا تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّيٰطِيْنُ ٢١٠ ) 26- الشعراء:210 ) اسے لیکر شیطان اترے نہ انہیں یہ لائق ہے نہ اس کی انہیں طاقت ہے وہ تو اس کے سننے کے بھی محروم اور دور ہے ۔ پھر فرمایا تم کہاں جا رہے ہو یعنی قرآن کی حقانیت اس کی صداقت ظاہر ہو چکنے کے بعد بھی تم کیوں اسے جھٹلا رہے ہو؟ تمھاری عقلیں کہاں جاتی رہیں؟حضرت ابو بکرصدیق کے پاس جب بنو حنفیہ قبیلے کے لوگ مسلمان ہو کر حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا مسلمیہ جس نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کر رکھا ہے جسے تم آج تک مانتے رہے اس نے جو کلام گھڑ رکھا ہے ذرا اسے تو سناؤ ، جب انہوں نے سنایا تو دیکھا کہ نہایت رکیک الفاظ ہیں بلکہ بکواس محض ہے تو آپ نے فرمایا تمھاری عقلیں کہاں جاتی رہیں؟ذرا تو سوچو کہ ایک فضول بکواس کو تم کلام اللہ سے اور اطاعت اللہ سے کہاں بھاگ رہے ہو ؟پھر فرمایا یہ قرآن تمام لوگوں کے لیے پند و نصیحت ہے ۔ ہر ایک ہدایت کے طالب کو چاہیے کہ اس قرآن کا عامل بن جائے یہی نجات اور ہدایت کا کفیل ہے ، اسکے سوا دوسرے کے کلام میں ہدایت نہیں ، تمھاری چاہتیں کام نہیں آتیں کہ جو چاہے ہدایت پا لے اور جو چاہے گمراہ ہو جائے بلکہ یہ سب کچھ منجانب اللہ ہے وہ رب العالمین جو چاہے کرتا ہے اسی کی چاہت چلتی ہے ، اس سے اگلی آیت کو سن کر ابو جہل نے کہا تھا کہ پھر تو ہدایت و ضلالت ہمارے بس کی بات ہے اس کے جواب میں یہ آیت اتری ، سورہ تکویر کی تفسیر ختم ہوئی ۔ فالحمد اللہ ۔
[١٤] بطلیموسی نظریہ ہیئت اور خمسہ متحیرہ :۔ مندرجہ بالا آیات میں بارہ واقعات کا ذکر کیا گیا۔ ان میں سے پہلی چھ آیات یا چھ واقعات قیامت کی ابتدا یا نفخہ ئصور اول سے متعلق ہیں اور دوسرے چھ نفخہ صور ثانی یا میدان محشر سے تعلق رکھتے ہیں۔ اب اسی دنیا کے چند اہم امور کی اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے۔- بطلیموسی نظریہ ہیئت ٤٠٠ قبل مسیح سے لے کر سترہویں صدی تک یعنی دو ہزار سال سے زیادہ عرصہ اتنا مقبول رہا کہ دنیا کے تمام مدارس اور یونیورسٹیوں میں اسی کی تعلیم دی جاتی رہی۔ اس نظریہ کے مطابق زمین کو ساکن اور سورج کو متحرک قرار دیا گیا۔ سات آسمان اور افلاک تسلیم کیے گئے اور ان پر سات سیارے۔ یعنی ہر فلک میں ایک سیارہ محو گردش ہے۔ اور اس نظریہ کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ آج بھی ہندو پاکستان میں جنتریاں اسی نظریہ کے مطابق تیار کی جاتی ہیں۔ اس نظریہ کے مطابق پہلے آسمان پر چاند، دوسرے پر زہرہ، تیسرے پر عطارد چوتھے پر سورج پانچویں پر مشتری، چھٹے پر مریخ اور ساتھویں پر زحل گردش کرتے ہیں۔ چاند اور سورج کی گردش ہمیشہ سیدھی آگے کو رہتی ہے۔ جیسے فرمایا ( وَسَخَّــرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَاۗىِٕـبَيْنِ ۚ وَسَخَّرَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ 33ۚ ) 14 ۔ ابراھیم :33) (١٤: ٣٣) مگر باقی پانچ سیارے سیدھے آگے چلتے چلتے یکدم پیچھے ہٹنا شروع ہوجاتے ہیں یعنی الٹی چال چلنے لگتے ہیں۔ پھر آگے کو بڑھنے لگتے ہیں اور پھر کسی وقت غائب بھی ہوجاتے ہیں۔ ان سیاروں کو خمسہ متحیرہ کہتے ہیں۔ ان دو آیات میں غالباً انہی سیاروں کی قسم کھائی گئی ہے۔
(فلا اقسم بالخش…:” الخنس “” خنس “ (ض) (پیچھے ہٹنا) سے ” خانس “ کی جمع بروزن ” رکع “ ہے۔” خناس “ بھی اسی سے ہے۔ اسی طرح ” الکنس “ ” کانس “ کی جمع ہے۔ ” کناس “ ہرن وغیرہ کی درختوں میں بنئای ہوئی جگہ، جہاں وہ چھپ جاتے ہیں۔ ” کنس “ (ض) چھپنے کی جگہ میں داخل ہوگیا ، چھپ گیا۔ ” الجوار “ ” جزی یجری “ سے ” جاریۃ “ کی جمع ہے۔ مراد سورج، چاند اور ستارے ہیں۔ انہیں ” الخنس “ (پیچھے ہٹنے والے) اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ سب مغرب میں غروب ہونے کے بعد پھر پیچھے یعنی مشرق کی طرف آنا شروع ہوجاتے ہیں، یہاں تک کہ مشرق سے دوبارہ نمودار ہوجاتے ہیں۔” الجوار “ چلنے والے ، یعنی ان کا کام ہی چلتے رہنا ہے، مغرب سے واپس مشرق کی طرف اور وہاں سے دوبارہ مغرب کی طرف۔” الکنس “ چھپنے والے، یعنی مغرب سے مشرق کی طرف چلتے ہوئے نظر نہیں آتے۔
فَلَآ اُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ ١٥ ۙ- لا - «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت .- ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] لا وأبيك ابنة العامريّ- «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] وقوله :- ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] .- فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه :- مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة :- لا حدّ. أي : لا أحد .- ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔- قْسَمَ ( حلف)- حلف، وأصله من الْقَسَامَةُ ، وهي أيمان تُقْسَمُ علی أولیاء المقتول، ثم صار اسما لكلّ حلف . قال : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام 109] ، أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف 49] ، وقال : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة 1- 2] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] ، إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم 17] ، فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة 106]- اقسم - ( افعال کے معنی حلف اٹھانے کے ہیں یہ دروصل قسامۃ سے مشتق ہے اور قسیا مۃ ان قسموں کو کہا جاتا ہے جو او لیائے مقتول پر تقسیم کی جاتی ہیں پھر مطلق کے معنی استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام 109] اور یہ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں ۔ - أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف 49] کیا یہ وہی لوگ ہیں جن کے مارے میں تم قسمیں کھایا کرتی تھے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة 1- 2] ہم کو روز قیامت کی قسم اور نفس لوامہ کی ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] ہمیں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم ۔ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم 17] جب انہوں نے قسمیں کھا کھا کر کہا کہ ہم صبح ہوتے اس کا میوہ توڑلیں گے ۔ فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة 106] اور دونوں خدا کی قسمیں کھائیں ۔ ماسمعتہ وتقاسما باہم قسمیں اٹھانا ۔ قرآن میں ہے : وَقاسَمَهُما إِنِّي لَكُما لَمِنَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف 21] اور ان کی قسم کھاکر کہا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں ۔ - خنس - قوله تعالی: مِنْ شَرِّ الْوَسْواسِ الْخَنَّاسِ [ الناس 4] ، أي : الشیطان الذي يَخْنُسُ ، أي :- ينقبض إذا ذکر اللہ تعالی، وقوله تعالی: فَلا أُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ [ التکوير 15] ، أي : بالکواکب التي تخنس بالنهار، وقیل : الخنّس هي زحل والمشتري والمرّيخ لأنها تخنس في مجراها أي : ترجع، وأَخْنَسْتُ عنه حَقَّه : أخّرته .- ( خ ن س ) الخنس ( ن ) کے معنی پیچھے ہٹنے اور سکڑجانے کے ہیں اسی سے شیطان کو خناس کہاجاتا ہے کیونکہ وہ ذکر الہی سے پیچھے ہٹ جانا ہے ۔ اور وسوسہ انداز نہیں ہوپاتا ۔ قرآن میں ہے :۔ مِنْ شَرِّ الْوَسْواسِ الْخَنَّاسِ [ الناس 4] شیطان وسوسہ انداز کی برائی سے جو ( خدا کا نام سن کر ) پیچھے ہٹ جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَلا أُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ [ التکوير 15] ہم کو ان ستاروں کی قسم جو پیچھے ہٹ جاتے ہیں ۔ میں خنس سے وہ ستارے مراد ہیں جو دن کو الٹی رفتار چلتے ہیں یہ خانس کی جمع ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس سے زحل ۔ مشتری اور مریخ مراد ہیں ۔ کیونکہ یہ الٹی چال سکتے رہتے ہیں ۔ اخنست عنہ حقہ میں نے اس کے حق کو موخر کردیا ۔ روک لیا ۔
آیت ١٥ ‘ ١٦ فَلَآ اُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ - الْجَوَارِ الْکُنَّسِ ۔ ” تو نہیں میں قسم کھاتا ہوں پیچھے ہٹنے والے ‘ چلنے والے اور چھپ جانے والے ستاروں کی۔ “- یعنی ایسے ستارے جو سیدھا چلتے چلتے پھر پیچھے ہٹنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ان آیات کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا شبیر احمد عثمانی (رح) لکھتے ہیں :- ” کئی سیاروں (مثلاً زحل ‘ مشتری ‘ مریخ ‘ زہرہ ‘ عطارد) کی چال اس ڈھب سے ہے کہ کبھی مغرب سے مشرق کو چلیں ‘ یہ سیدھی راہ ہوئی ‘ کبھی ٹھٹک کر الٹے پھریں اور کبھی سورج کے پاس آکر کتنے دنوں تک غائب رہیں۔ “- بہرحال یہ آیات آج کے ماہرین فلکیات کو دعوت تحقیق دے رہی ہیں کہ وہ جدید معلومات کی روشنی میں ان الفاظ (الْخُنَّساور الْجَوَارِ الْکُنَّس) کے لغوی معانی کے ساتھ ستاروں کی دنیا کے رموز و حقائق کی مطابقت ڈھونڈنے کی کوشش کریں۔
سورة التَّكْوِیْر حاشیہ نمبر :12 یعنی تم لوگوں کا یہ گمان صحیح نہیں ہے کہ جو کچھ قرآن میں بیان کیا جارہا ہے یہ کسی دیوانے کی بڑ ہے یا کوئی شیطانی وسوسہ ہے ۔