[١٥] عَسْعَسَ بمعنی دھندلکا، خواہ یہ شام کا دھندلکا ہو جیسے سورج غروب ہونے کے بعد رات کا اندھیرا چھانے لگتا ہے اور خواہ یہ صبح کا دھندلکا ہو۔ یعنی رات کی تاریکی غائب اور صبح کی روشنی اس پر غالب ہونے لگے۔ اس لحاظ سے اس آیت کا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے۔ اور رات کی جب جانے لگے
(والیل اذا عسعس…:” عسعس “ آنے اور جانے دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے، یہاں دوسرا معنی زیادہ مناسب ہے۔ ” تنفس “ سانس لیتے ہوئے چھاتی پھیلتیہے، صبح کی روشنی پھیلنے کی کیفیت کی نقشہ کشی انسان کے ساتھ لینے کی کیفیت کے ساتھ کی ہے۔
وَالَّيْلِ اِذَا عَسْعَسَ ١٧ ۙ- ليل - يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل :- أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] - ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ - کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ - إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ - (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- عسعس - قال تعالی: وَاللَّيْلِ إِذا عَسْعَسَ [ التکوير 17] ، أي : أقبل وأدبر وذلک في مبدإ اللّيل ومنتهاه، فالعَسْعَسَةُ والعِسَاسُ : رقّةُ الظلامِ ، وذلک في طرفي اللیل، والعَسُّ والعَسَسُ : نفض اللیل عن أهل الرّيبة . ورجلٌ عَاسٌّ وعَسَّاسٌ ، والجمیع العَسَسُ. وقیل : كلبٌ عَسَّ خيرٌ من أسد رَبَضَ «أي : طلب الصّيد باللیل، والعَسُوسُ من النساء : المتعاطية للرّيبة باللیل . والعُسُّ : القدح الضّخم، والجمع عَسَاسٌ.- ( ع س س ) العسعسۃ والعساس کے معنی تاریکی ہلکی ہونے کے ہیں یہ کیفیت رات کی دونوں اطراف میں ہوتی ہے یعنی جب رات آنے والی ہو یا جانے والی ہو اس لئے آیت کریمہ : وَاللَّيْلِ إِذا عَسْعَسَ [ التکوير 17] میں عسعس کے معنی رات کے آنے اور جانے دونوں ہوسکتے ہیں العس واعسس رات کے وقت مشتبہ لوگوں کی تلاش میں پھرنا کے ہیں اور رات کے وقت پہرہ دینے والے آدمی کو عام یا عساس کہا جاتا ہے اس کی جمع عسس سے مثل مشہور ہے کلب عس خیر من اسد ریض یعنی رات کے وقت شکار کی تلاش کرنے والا کتا بیٹھ رہنے والے شیر سے بہتر ہے ؛ العسوس وہ عورت جو رات کو بدمعاشی کے لئے پھرتی رہتی ہو ۔ العس بڑا پیالہ جمع عساس
آیت ١٧ وَالَّیْلِ اِذَا عَسْعَسَ ۔ ” قسم ہے رات کی جب وہ روانہ ہونے لگے۔ “- یہ آیت اور سورة المدثر کی یہ آیت باہم مشابہ اور ہم معنی ہیں : وَالَّـیْلِ اِذَا اَدْبَرَ ۔ ” اور قسم ہے رات کی جب کہ وہ پیٹھ موڑے۔ “