Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(ذی قوۃ عند ذی العرش مکین :” ذی قوۃ “ کی تنوین تعظیم کیلئے ہے، بڑی قوت والا۔ سورة نجم میں بھی جبریل (علیہ السلام) کا یہ وصف بیان ہوا ہے، فرمایا :(علمہ شدید القوی، ذومرۃ) (النجم : ٦٠٥)” اسے نہایت مضبوط قوتوں والے (فرشتے) نے سکھایا۔ جو بڑی طاقت والا ہے۔ “ جبریل (علیہ السلام) کی قوت کا ذکر یہاں اس لئے فرمایا ہے کہ ان کی قوت کے سبب سے شیطان ان سے بھاگتا ہے، جیسا کہ بدر میں انہیں دیکھ کر بھاگا تھا۔ (دیکھیے انفال : ٤٨) مطلب یہ ہے کہ جبریل (علیہ السلام) کی قوت کی وجہ سے ان کی پیغام رساین میں نہ شیطان کا کچھ دخل ہے اور نہ ان کی امانت داری کے سبب اس پیغام رسانی میں کسی خیانت کا دخل ہے، اس لئے کسی شک و شبہ کے بغیر یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ (خلاصہ احسن التفاسیر)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ذِيْ قُوَّۃٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِيْنٍ۝ ٢٠ ۙ- ذو - ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع، ويقال في المؤنّث : ذات، وفي التثنية : ذواتا، وفي الجمع : ذوات، ولا يستعمل شيء منها إلّا مضافا، قال : وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] ، وقال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم 6] ، وَذِي الْقُرْبى [ البقرة 83] ، وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود 3] ، ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة 177] ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ- [ الأنفال 43] ، وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 18] ، وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال 7] ، وقال : ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن 48] ، وقد استعار أصحاب المعاني الذّات، فجعلوها عبارة عن عين الشیء، جو هرا کان أو عرضا، واستعملوها مفردة ومضافة إلى المضمر بالألف واللام، وأجروها مجری النّفس والخاصّة، فقالوا : ذاته، ونفسه وخاصّته، ولیس ذلک من کلام العرب . - والثاني في لفظ ذو :- لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد نحو : وبئري ذو حفرت وذو طویت - ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب )- یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے - ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ اور مونث کے لئے ذات کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ ذواتا اور جمع ذوات آتی ہے ۔ اور یہ تمام الفاظ مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم 6] ( یعنی جبرئیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے ۔ وَذِي الْقُرْبى [ البقرة 83] اور رشتہ داروں ۔ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود 3] اور ہر ساحب فضل کو اسکی بزرگی ( کی داو ) دیگا ۔ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة 177] رشتہ داروں اور یتیموں ۔ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال 43] تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے ۔ وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 18] اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے ہیں ۔ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال 7] اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بےشان و شوکت ( یعنی بےہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے ۔ ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن 48] ان دونوں میں بہت سے شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں ۔ علمائے معانی ( منطق وفلسفہ ) ذات کے لفظ کو بطور استعارہ عین شے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ جو ہر اور عرض دونوں پر بولاجاتا ہے اور پھر کبھی یہ مفرد یعنی بدون اضافت کت استعمال ہوتا ہے ۔ اور کبھی اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر اور کبھی معرف بلالم ہوکر ۔ اور یہ لفظ بمنزلہ نفس اور خاصہ کے بولا جاتا ہے ۔ اور نفسہ وخاصتہ کی طرح ذاتہ بھی کہاجاتا ہے ۔ مگر یہ عربی زبان کے محاورات سے نہیں ہے - ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( الوافر ) یعنی کنواں جسے میں نے کھودا اور صاف کیا ہے ۔- قوی - القُوَّةُ تستعمل تارة في معنی القدرة نحو قوله تعالی: خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة 63] - ( ق وو ) القوۃ - یہ کبھی قدرت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة 63] اور حکم دیا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی اس کو زور سے پکڑے رہو ۔ - عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- عرش - العَرْشُ في الأصل : شيء مسقّف، وجمعه عُرُوشٌ. قال تعالی: وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة 259] والعَرْشُ : شبهُ هودجٍ للمرأة شبيها في الهيئة بِعَرْشِ الکرمِ ، وعَرَّشْتُ البئرَ : جعلت له عَرِيشاً. وسمّي مجلس السّلطان عَرْشاً اعتبارا بعلوّه . قال : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف 100]- ( ع رش ) العرش - اصل میں چھت والی چیز کو کہتے ہیں اس کی جمع عروش ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة 259] اور اس کے مکانات اپنی چھتوں پر گرے پڑے تھے ۔ العرش چھولدادی جس کی ہیت انگور کی ٹٹی سے ملتی جلتی ہے اسی سے عرشت لبئر ہے جس کے معنی کو یں کے اوپر چھولداری سی بنانا کے ہیں بادشاہ کے تخت کو بھی اس کی بلندی کی وجہ سے عرش کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف 100] اور اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا ۔ - مكن - المَكَان عند أهل اللّغة : الموضع الحاوي للشیء، قال : وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ [ الأعراف 10] وقوله : ذِي قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ- [ التکوير 20] أي : متمکّن ذي قدر ومنزلة . ومَكِنَات الطّيرِ ومَكُنَاتها :- مقارّه، والمَكْن : بيض الضّبّ ، وبَيْضٌ مَكْنُونٌ [ الصافات 49] . قال الخلیل المکان مفعل من الکون، ولکثرته في الکلام أجري مجری فعال «فقیل : تمكّن وتمسکن، نحو : تمنزل .- ( م ک ن ) المکان - اہل لغت کے نزدیک مکان اس جگہ کو کہتے ہیں جو کسی جسم پر حاوی ہو ۔ قرآن میں ہے ۔- وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ [ الأعراف 10] اور ہم نے زمین میں تمہارا ٹھکانا بنایا ۔- أَوَلَمْ نُمَكِّنْ لَهُمْ [ القصص 57] کیا ہم نے ان کو جگہ نہیں دی ۔ وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ [ القصص 6] اور ملک میں ان کو قدرت دیں ۔ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضى لَهُمْ [ النور 55] اور ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے ۔ مستحکم وپائیدار کرے گا ۔ فِي قَرارٍ مَكِينٍ [ المؤمنون 13] ایک مضبوط اور محفوظ جگہ میں ۔ اور امکنت فلانا من فلان کے معنی کسی کو دوسرے پر قدرت دینے کے ہیں مکان و مکانہ جگہ اور حالت کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ اعْمَلُوا عَلى مَكانَتِكُمْ [هود 93] اپنی جگہ پر عمل کئے جاؤ ۔ ایک قراءت میں مکانا تکم بصیغہ جمع ہے اور آیت کریمہ : ۔ ذِي قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ [ التکوير 20] جو صاحب قوت مالک عرش کے ہاں اونچے در جے والا ہے ۔ میں مکین بمعنی متمکن یعنی صاحب قدر ومنزلت ہے : ۔ پرندوں کے گھونسلے ۔ المکن سو سماروں وغیرہ کے انڈے ۔ آیت کریمہ : ۔ وبَيْضٌ مَكْنُونٌ [ الصافات 49] محفوظ انڈے ۔ خلیل کا قول ہے کہ لفظ مکان ( صیغہ ظرف ) مفعل کے وزن پر ہے اور یہ کون سے مشتق ہے پھر کثیر الاستعمال ہونے کی وجہ سے اسے فعال کا حکم دے کر اس سے تمکن وغیرہ مشتقات استعمال ہوئی ہیں ۔ جیسے منزل سے تمنزل وغیرہ

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠ ذِیْ قُوَّۃٍ عِنْدَ ذِی الْعَرْشِ مَکِیْنٍ ۔ ” جو (جبرائیل) بہت قوت والا ہے ‘ صاحب ِعرش کے نزدیک بلند مرتبہ ہے۔ “- یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے خاص مقربین میں سے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة التَّكْوِیْر حاشیہ نمبر :15 سورہ نجم آیات 4 ۔ 5 میں اسی مضمون کو یوں ادا کیا گیا ہے کہ ان ھو الا وحی یوحی ۔ علمہ شدید القوی ۔ یہ تو ایک وحی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے ۔ اس کو زبردست قوتوں والے نے تعلیم دی ہے ۔ یہ بات درحقیقت متشابہات میں سے ہے کہ جبریل علیہ السلام کی ان زبردست قوتوں اور ان کی اس عظیم توانائی سے کیا مراد ہے ۔ بہرحال اس سے اتنی بات ضرور معلوم ہوتی ہے کہ فرشتوں میں بھی وہ اپنی غیر معمولی طاقتوں کے اعتبار سے ممتاز ہیں ۔ مسلم ، کتاب الایمان میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول نقل کرتی ہیں کہ میں نے دو مرتبہ جبریل کو ان کی اصلی صورت میں دیکھا ہے ، ان کی عظیم ہستی زمین و آسمان کے درمیان ساری فضا پر چھائی ہوئی تھی ۔ بخاری ، مسلم ، ترمذی اور مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس شان میں دیکھا کہ ان کے چھ سو پر تھے ۔ اس سے کچھ ان کی زبردست طاقت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani