Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

19۔ 1 اس لئے کہ وہ اسے اللہ کی طرف سے لے کر آیا ہے۔ مراد حضرت جبرائیل علیہ الاسلام ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٧] جبریل کی صفات :۔ ان تین چیزوں کی اللہ تعالیٰ نے دو باتوں پر قسم اٹھائی یا بطور شہادت یہ باتیں پیش کیں۔ ان میں سے پہل بات یہ ہے کہ یہ قرآن نہ کسی کاہن کا قول ہے نہ شاعر کا، نہ آپ کا تالیف کردہ ہے بلکہ یہ معزز رسول کا قول ہے۔ یہ رسول جبریل ہے جو اللہ کا فرستادہ اور اس کا کلام پیش کر رہا ہے لیکن چونکہ جبریل کی زبان سے ہو رہا ہے اس لیے قول کی نسبت جبریل کی طرف کی گئی ہے۔ یہ جبریل بڑا زور آور اور طاقتور ہے۔ سورة النجم میں جبریل کے لیے (شدید القوی :) اور (ذومرۃ) کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ فرشتہ اللہ کے ہاں بڑا مقرب ہے۔ وہ ایک افسر ہے جس کی سب فرشتے اطاعت کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں وہ امین بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے جو پیغام دے کر بھیجتا ہے وہ من و عن انسان رسول کے دل پر القاء کردیتا ہے۔ اس میں کوئی کمی بیشی نہیں کرتا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

١٩۔ (انہ لقول رسول کریم :) یہ ان قسموں کا جواب ہے، یعنی امر الٰہی کے پابند یہ سیارے، روزانہ جاتی ہوئی رات اور پھیلتی ہوئی صبح کا یہ مستحکم نظام زبردست شہادت ہے کہ یہ وحی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک نہایت معزز اور ان عظیم صفات والا فرشتہ (جبریل علیہ السلام) ہی لے کر آیا ہے۔ دن رات، سورج چاند اور ستاروں کے نظام کی طرح یہاں بھی کسی شیطان کا دخل نہیں ہوسکتا۔- اس آیت میں ” رسول “ سے مراد جبریل (علیہ السلام) ہیں، کیونکہ مشرکین مکہ کبھی کہتے :(انما یعلمہ بشر) (النحل : ١٠٣)- ” اسے کوئی بشر ہی سکھاتا ہے۔ “ کبھی کہتے :(افتری علی اللہ کذباً ام بہ جنۃ) (سبا : ٨)” کیا اس نے اللہ پر جھوٹ باندھا یا یہ دیوانہ ہے ؟ “ تو اللہ تعالیٰ نے ان مشرکین کے قول کے جھٹلانے کو یہ آیات نازل فرمائیں اور فرمایا کہ نہ اللہ کے رسول مجنون اور دیوانے ہیں، نہ انہوں نے اپنی طرف سے اس قرآن کو بنایا ہے اور نہ کسی انسان نے انہیں یہ قرآن سکھایا ہے۔ یہ ایسا کلام نہیں ہے جس طرح شیاطین چوری سے آسمان کی کچھ باتیں سن کر کاہنوں سے کہہ دیتے ہیں، بلکہ پیغام کے طور پر اللہ کی طرف سے ایک صاحب قوت، معتبر اور امانت دار فرشتے نے یہ قرآن اللہ کے نبی کو پہنچایا ہے۔ (احسن التفاسیر)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اِنَّهٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِيْمٍ 19 ۝ ۙذِيْ قُوَّةٍ الخ، ستاروں کی قسم کے بعد فرمایا کہ یہ قرآن قول ہے کہ ایک رسول کریم کا، آگے اس رسول کریم کی صفت ایک تو یہ بیان فرمائی کہ وہ ذی قوت ہے، دوسری یہ کہ رب العرش کے پاس وہ مطاع ہے کہ اسکے احکام عرش والے مانتے ہیں، تیسری یہ کہ وہ اللہ کے نزدیک امین ہے اس سے پیغام لانے اور پہنچانے میں کسی خیانت اور کمی نیشن کا امکان نہیں۔ اس جگہ رسول کریم سے مراد بظاہر جبریل امین ہیں کیونکہ لفظ رسول کا جیسے انبیاء پر اطلاق ہوتا ہے ایسے ہی فرشتوں کے لئے بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے اور آگے جتنی صفات رسول کی بیان کی گئی ہیں وہ سب جبریل امین پر بغیر کسی تکلف و تاویل کے منطبق ہیں، انکا ذی قوت ہونا سورة نجم میں فراحة مذکور ہے علمہ شدید القوی، اہل عرش وسموات میں ان کا مطاع ہونا اور ان کے احکام کی پیروی کرنا لیلة المعراج کی حدیث سے ثابت ہے کہ جبرئیل امین آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ساتھ لے کر آسمان پر پہنچے اور آسمان کے دروازے کھلوانے کا ارادہ کیا تو دروازوں پر مقرر فرشتوں نے ان کے احکام کی پیروی کرنا لیلة المعراج کی حدیث سے ثابت ہے کہ جب جبرئیل امین آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ساتھ لے کر آسمان پر پہنچے اور آسمانوں کے دروازے کھلونے کا ارادہ کیا تو دروازوں پر مقرر فرشتوں نے ان کے حکم کی اطاعت اور امین ہونا جبرئیل (علیہ السلام) کا ظاہر ہے۔ اور بعض ائمہ تفسیر نے اس جگہ رسول کریم سے مراد محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرار دیا ہے اور صفات مذکورہ کو کسی قدر تکلف سے آپ کی ذات پر منطبق کیا ہے واللہ اعلم۔ آگے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت شان اور کفار کے بیہودہ الزاموں کا جواب ہے وَمَا صَاحِبُكُمْ بِمَجْنُوْنٍ ، یہ ان کفار کے بیہودہ اعتراض کا جواب ہے جو معاذ اللہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مجنوں کہتے تھے ولقد راہ بالافق المبین یعنی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبرئیل امین کو کھلے افق پر دیکھا ہے جیسا کہ سورة نجم میں فرمایا (آیت) فاستوی وھو بالافق الاعلیٰ ، اور مقصود اس کے ذکر کرنے سے یہ ہے کہ وحی لانے والے فرشتے جبرئیل سے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خوب واقف تھے، ان کو اصلی ہیت و صورت میں بھی دیکھ چکے تھے اس لئے اس وحی میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں، باقی مضمون آیات خلاصہ تفسیر میں واضح ہوچکا ہے۔- تمت سورة التکویر بحمد اللہ تعالیٰ یوم الاربعا ٨ شعبان 1391

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِيْمٍ۝ ١٩ ۙ- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122]- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] وقال : وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات 1]- ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہیں یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ ۔ وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات 1] قسم ہے ان فرشتوں کی جو پیام الہی دے کر بھیجے جاتے ہیں - كرم - الكَرَمُ إذا وصف اللہ تعالیٰ به فهو اسم لإحسانه وإنعامه المتظاهر، نحو قوله : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] ، وإذا وصف به الإنسان فهو اسم للأخلاق والأفعال المحمودة التي تظهر منه، ولا يقال : هو كريم حتی يظهر ذلک منه . قال بعض العلماء : الكَرَمُ کالحرّيّة إلّا أنّ الحرّيّة قد تقال في المحاسن الصّغيرة والکبيرة، والکرم لا يقال إلا في المحاسن الکبيرة، كمن ينفق مالا في تجهيز جيش في سبیل الله، وتحمّل حمالة ترقئ دماء قوم، وقوله تعالی: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات 13] فإنما کان کذلک لأنّ الْكَرَمَ الأفعال المحمودة، وأكرمها وأشرفها ما يقصد به وجه اللہ تعالی، فمن قصد ذلک بمحاسن فعله فهو التّقيّ ، فإذا أكرم الناس أتقاهم، وكلّ شيء شرف في بابه فإنه يوصف بالکرم . قال تعالی:- فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] ، وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان 26] ، إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] ، وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء 23] .- والإِكْرَامُ والتَّكْرِيمُ :- أن يوصل إلى الإنسان إکرام، أي : نفع لا يلحقه فيه غضاضة، أو أن يجعل ما يوصل إليه شيئا كَرِيماً ، أي : شریفا، قال : هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ- [ الذاریات 24] . وقوله : بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء 26] أي : جعلهم کراما، قال : كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار 11] ، وقال : بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس 15 16] ، وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس 27] ، وقوله : ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن 27] منطو علی المعنيين .- ( ک ر م ) الکرم - ۔ جب اللہ کی صفت ہو تو اس سے احسان وانعام مراد ہوتا ہے جو ذات باری تعالیٰ سے صادر ہوتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] تو میر اپروردگار بےپرواہ اور کرم کرنے والا ہے ۔ اور جب انسان کی صفت ہو تو پسندیدہ اخلاق اور افعال مراد ہوتے ہیں جو کسی انسان سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ اور کسی شخص کو اس وقت تک کریمہ نہیں کہاجاسکتا جب تک کہ اس سے کرم کا ظہور نہ ہوچکا ہو ۔ بعض نے علماء کہا ہے کہ حریت اور کرم ہم معنی ہیں لیکن حریت کا لفظ جھوٹی بڑی ہر قسم کی خوبیوں پر بولا جا تا ہے اور کرم صرف بڑے بڑے محاسن کو کہتے ہیں مثلا جہاد میں فوج کے لئے سازو سامان مہیا کرنا یا کیس ایسے بھاری تا وان کو اٹھا لینا جس سے قوم کے خون اور جان کی حفاظت ہوتی ہو ۔ اور آیت : ۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات 13] اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا ہے جو زیادہ پرہیز گار ہیں ۔ میں القی یعنی سب سے زیادہ پرہیز گا ۔ کو اکرم یعنی سب سے زیادہ عزت و تکریم کا مستحق ٹہھر انے کی وجہ یہ ہے کہ کرم بہترین صفات کو کہتے ہیں اور سب سے بہتر اور پسند یدہ کام وہی ہوسکتے ہیں جن سے رضا الہیٰ کے حصول کا قصد کیا جائے لہذا جو جس قدر زیادہ پرہیز گار ہوگا اسی قدر زیادہ واجب التکریم ہوگا ۔ نیز الکریم ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنی چیز کو کہتے ہیں جو اپنی ہم نوع چیزوں میں سب سے زیادہ باشرف ہو چناچہ فرمایا : ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] پھر ( اس سے ) اس میں ہر قسم کی نفیس چیزیں اگائیں ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء 23] اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا ۔ - الا کرام والتکریم - کے معنی ہیں کسی کو اس طرح نفع پہچانا کہ اس میں اس کی کسی طرح کی سبکی اور خفت نہ ہو یا جو نفع پہچا یا جائے وہ نہایت باشرف اور اعلٰی ہو اور المکرم کے معنی معزز اور با شرف کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات 24] بھلا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے ؛ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء 26] کے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ کے معزز بندے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس 27] اور مجھے عزت والوں میں کیا ۔ كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار 11] عالی قدر تمہاری باتوں کے لکھنے والے ۔ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس 15 16] ( ایسے ) لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سر دار اور نیوک کار ہیں ۔ اور آیت : ۔ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن 27] اور جو صاحب جلال اور عظمت ہے ۔ میں اکرام کا لفظ ہر دو معنی پر مشتمل ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ عزت و تکریم بھی عطا کرتا ہے اور باشرف چیزیں بھی بخشتا ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٩۔ ٢١) ان تمام چیزوں کی قسم کھا کر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ قرآن اللہ کا کلام ہے جس کو جبریل مکرم و معزز نبی پر لے کر آئے ہیں اور وہ فرشتہ قوت والا ہے اور اس کا مالک عرش کے نزدیک رتبہ ہے اور آسمانوں میں فرشتے اسی کا کہنا مانتے ہیں اور امانت دار ہیں کہ انبیاء کرام کے پاس وحی کو صحیح پہنچا دیتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٩ اِنَّہٗ لَـقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ ۔ ” یقینا یہ (قرآن) ایک بہت باعزت پیغامبر کا قول ہے۔ “- یہاں ” رَسُوْلٍ کَرِیْم “ سے مراد حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں۔ یہ آیت قبل ازیں سورة الحاقہ میں بھی (بطور آیت ٤٠) آچکی ہے اور وہاں ” رَسُوْلٍ کَرِیْم “ سے مراد محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ سورة الحج (آیت ٧٥) میں فرمایا گیا ہے : اَللّٰہُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِط ” اللہ ُ چن لیتا ہے اپنے پیغامبر فرشتوں میں سے بھی اور انسانوں میں سے بھی “۔ چناچہ فرشتوں میں سے اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو ُ چنا اور انسانوں میں سے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور یوں ان دو ہستیوں کے ذریعے سے ” رسالت “ کا سلسلہ تکمیل پذیر ہوا۔ زیر مطالعہ آیات میں رسول کریم بشر (محمد ٌرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور رسول کریم ملک (حضرت جبرائیل ) کی ملاقات کا ذکر بھی آ رہا ہے کہ رسالت کی ان دو کڑیوں کے ملنے کا ثبوت فراہم ہوجائے۔ یہ مضمون اس سے پہلے سورة النجم میں بھی آچکا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة التَّكْوِیْر حاشیہ نمبر :14 اس مقام پر بزگ پیغامبر ( رسول کریم ) سے مراد وحی لانے والا فرشتہ ہے جیسا کہ آگے کی آیات سے بصراحت معلوم ہو رہا ہے ۔ اور قرآن کو پیغام بر کا قول کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ اس فرشتے کا اپنا کلام ہے ، بلکہ قول پیغامبر کے الفاظ خود ہی یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ یہ اس ہستی کا کلام ہے جس نے اسے پیغامبر بنا کر بھیجا ہے ۔ سورہ الحاقۃ آیت 40 میں اسی طرح قرآن کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا قول کہا گیا ہے اور وہاں بھی مراد یہ نہیں ہے کہ یہ حضور کا اپنا تصنیف کردہ ہے بلکہ اسے رسول کریم کا قول کہہ کر وضاحت کردی گئی ہے کہ اس چیز کو حضور خدا کے رسول کی حیثیت سے پیش کر رہے ہیں نہ کہ محمد بن عبداللہ کی حیثیت سے ۔ دونوں جگہ قول کو فرشتے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب اس بنا پر کیا گیا ہے کہ اللہ کا پیغام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیغام لانے والے فرشتے کی زبان سے ، اور لوگوں کے سامنے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ادا ہو رہا تھا ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہم القرآن ، جلد ششم ، الحاقہ ، حاشیہ 22 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

9: اس سے مراد حضرت جبرئیل علیہ السلام ہیں جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس وحی کے ذریعے قرآنِ کریم لایا کرتے تھے۔