22۔ 1 یہ خطاب اہل مکہ سے ہے اور صاحب سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ یعنی تم جو گمان رکھتے ہو کہ تمہارا ہم نسب اور ہم وطن ساتھی، (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دیوانہ ہے۔ نعوذ باللہ ایسا نہیں ہے، ذرا قرآن پڑھ کر تو دیکھو کہ کیا کوئی دیوانہ ایسے حقائق بیان کرسکتا ہے اور گزشتہ قوموں کے صحیح صحیح حالات بتلا سکتا ہے جو اس قرآن میں بیان کئے گئے ہیں۔
وَمَا صَاحِبُكُمْ بِمَجْنُوْنٍ ٢٢ ۚ- ما - مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف .- فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع .- فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي - نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] .- الثاني :- نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة - الثالث : الاستفهام،- ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا .- الرّابع : الجزاء نحو :- ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ- الآية [ فاطر 2] . ونحو : ما تضرب أضرب .- الخامس : التّعجّب - نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] .- وأمّا الحروف :- فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده .- الثاني : للنّفي - وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف 31] «1» .- الثالث : الکافّة،- وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو :- إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] ، وعلی ذلك :- قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي .- الرابع : المُسَلِّطَة،- وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو :- «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما .- الخامس : الزائدة- لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء 23] .- ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی - پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں - ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے - اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو - جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ - دوم ما نافیہ ہے - ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے - جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ - چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے - جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ - پانچواں مازائدہ ہے - جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔- صحب - الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40] قالَ لَهُ صاحِبُهُ وَهُوَ يُحاوِرُهُ [ الكهف 34] ، أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ [ الكهف 9] ، وَأَصْحابِ مَدْيَنَ [ الحج 44] ، أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] ، أَصْحابُ النَّارِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 217] ، مِنْ أَصْحابِ السَّعِيرِ [ فاطر 6] ، وأما قوله : وَما جَعَلْنا أَصْحابَ النَّارِ إِلَّا مَلائِكَةً [ المدثر 31] أي : الموکّلين بها لا المعذّبين بها كما تقدّم . وقد يضاف الصَّاحِبُ إلى مسوسه نحو : صاحب الجیش، وإلى سائسه نحو : صاحب الأمير . والْمُصَاحَبَةُ والِاصْطِحَابُ أبلغ من الاجتماع، لأجل أنّ المصاحبة تقتضي طول لبثه، فكلّ اصْطِحَابٍ اجتماع، ولیس کلّ اجتماع اصطحابا، وقوله : وَلا تَكُنْ كَصاحِبِ الْحُوتِ [ القلم 48] ، وقوله : ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا ما بصاحبِكُمْ مِنْ جِنَّةٍ [ سبأ 46] ، وقد سمّي النبيّ عليه السلام صاحبهم تنبيها أنّكم صحبتموه، وجرّبتموه وعرفتموه ظاهره وباطنه، ولم تجدوا به خبلا وجنّة، وکذلک قوله : وَما صاحِبُكُمْ بِمَجْنُونٍ [ التکوير 22] . والْإِصحَابُ للشیء : الانقیاد له . وأصله أن يصير له صاحبا، ويقال : أَصْحَبَ فلان : إذا كَبُرَ ابنه فصار صاحبه، وأَصْحَبَ فلان فلانا : جعل صاحبا له . قال : وَلا هُمْ مِنَّا يُصْحَبُونَ [ الأنبیاء 43] ، أي : لا يكون لهم من جهتنا ما يَصْحَبُهُمْ من سكينة وروح وترفیق، ونحو ذلک ممّا يصحبه أولیاء ه، وأديم مصحب : أُصْحِبَ الشّعر الذي عليه ولم يُجَزَّ عنه .- ( ص ح ب ) الصاحب - ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ قالَ لَهُ صاحِبُهُ وَهُوَ يُحاوِرُهُ [ الكهف 34] تو اس کادوست جو اس سے گفتگو کر رہا تھا کہنے لگا ۔ أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ [ الكهف 9] کیا تم خیال کرتے ہو کہ غار اور لوح والے ۔ وَأَصْحابِ مَدْيَنَ [ الحج 44] اور مدین کے رہنے والے بھی ۔ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] وہ جنت کے مالک ہوں گے ( اور ) ہمیشہ اس میں ( عیش کرتے ) رہیں گے ۔ وَلا تَكُنْ كَصاحِبِ الْحُوتِ [ القلم 48] اور مچھلی ) کا لقمہ ہونے والے ( یونس (علیہ السلام) کی طرح نہ ہونا ۔ اور آیت : ۔ مِنْ أَصْحابِ السَّعِيرِ [ فاطر 6]( تاکہ وہ ) دوزخ والوں میں ہوں ۔ اور آیت کریمہ : وَما جَعَلْنا أَصْحابَ النَّارِ إِلَّا مَلائِكَةً [ المدثر 31] اور ہم نے دوزخ کے دروغہ فرشتے بنائے ہیں ۔ میں اصحاب النار سے دوزخی مراد نہیں ہیں بلکہ دوزخ کے داردغے مراد ہیں جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے ۔ پھر صاحب کا لفظ کبھی ان کی طرف مضاف ہو تو ہے جو کسی کے زیر نگرانی ہوتے ہیں جیسے صاحب الجیش ( فوج کا حاکم اور کبھی حاکم کی طرف جیسے صاحب الاسیر ( بادشاہ کا وزیر ) المصاحبۃ والا صطحاب میں بنسبت لفظ الاجتماع کے مبالغہ پایا جاتا ہے کیونکہ مصاحبۃ کا لفظ عرصہ دراز تک ساتھ رہنے کو مقتضی ہے اور لفظ اجتماع میں یہ شرط نہیں ہے لہذا اصطحاب کے موقعہ پر اجتماع کا لفظ تو بول سکتے ہیں مگر اجتماع کی جگہ پر ہر مقام میں اصطحاب کا لفظ نہین بول سکتے اور آیت کریمہ : ۔ ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا ما بصاحبِكُمْ مِنْ جِنَّةٍ [ سبأ 46] تمہارے رفیق کو سودا نہیں میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صاحبکم کہہ کر متنبہ کیا ہے کہ تم نے ان کے ساتھ زندگی بسر کی ہے ان کا تجربہ کرچکے ہو اور ان کے ظاہر و باطن سے واقف ہوچکے ہو پھر بتاؤ کہ ان میں کوئی دماغی خلل یا دیوانگی پائی جاتی ہے یہی معنی آیت وما صاحِبُكُمْ بِمَجْنُونٍ [ التکوير 22] کے ہیں ۔ الا صحاب للشئی کے معنی ہیں وہ فرمانبردار ہوگیا اصل میں اس کے معنی کسی کا مصاحب بن کر اس کے ساتھ رہنے کے ہیں ۔ چناچہ اصحب فلان اس وقت بولتے ہیں جب کسی کا بیٹا بڑا ہو کر اس کے ساتھ رہنے لگے ۔ اور اصحب فلان فلانا کے معنی ہیں وہ اس کا ساتھی بنادیا گیا قرآن میں ہے : ۔ وَلا هُمْ مِنَّا يُصْحَبُونَ [ الأنبیاء 43] اور نہ ہم سے پناہ ہی دیئے جائیں گے ۔ یعنی ہماری طرف سے ان پر سکینت تسلی کشائش وغیرہ کی صورت میں کسی قسم کا ساتھ نہیں دیا جائے گا جیسا کہ اس قسم کی چیزوں سے اولیاء اللہ کی مدد کی جاتی ہے ۔ ادیم مصحب : کچا چمڑہ جس سے بال نہ اتارے گئے ہوں ۔- جُنون - : حائل بين النفس والعقل، وجُنَّ فلان قيل : أصابه الجن، وبني فعله کبناء الأدواء نحو : زکم ولقي «1» وحمّ ، وقیل : أصيب جنانه، وقیل : حيل بين نفسه وعقله، فجن عقله بذلک وقوله تعالی: مُعَلَّمٌ مَجْنُونٌ [ الدخان 14] ، أي : ضامّة من يعلمه من الجن، وکذلک قوله تعالی: أَإِنَّا لَتارِكُوا آلِهَتِنا لِشاعِرٍ مَجْنُونٍ [ الصافات 36]- جنون - ( ایضا ) جنوں ۔ دیونگی ۔ قرآن میں سے : ما بصاحبِكُمْ مِنْ جِنَّةٍ [ سبأ 46] کہ ان کے - رفیق محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی طرح کا بھی ) جنون ۔۔ نہیں ہے ۔ اور دیوانگی کو جنون اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ انسان کے دل اور عقل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے ۔ جن فلان ۔ اسے جن لگ گیا ۔ امراض کے معانی میں دوسرے افعال کی طرح یہ بھی فعل مجہول ہی استعمال ہوتا ہے جیسے زکم ( اسے زکام ہوگیا ) لقی ( اے لقوہ ہوگیا ) حم ( اے بخار ہوگیا ) وغیرہ ۔ بعض نے کہا ہے جن فلان کے معنی ہیں ۔ اس کے قلب کو عارضہ ہوگیا اور بعض نے کہا کہ دیوانگی نے اس کی عقل کو چھپالیا اور آیت کریمہ :۔ - مُعَلَّمٌ مَجْنُونٌ [ الدخان 14] کے معنی ہیں کہ اسے وہ جن چمٹا ہوا ہے جو اسے تعلیم دیتا ہے اور یہی معنی آیت :۔ أَإِنَّا لَتارِكُوا آلِهَتِنا لِشاعِرٍ مَجْنُونٍ [ الصافات 36] کو بھلاک ایک دیوانے شاعر کے کہنے سے کہیں اپنے معبودوں کو چھوڑ دینے والے ہیں ۔ میں شاعر مجنون کے ہیں ۔
(٢٢۔ ٢٥) اے قریش کی جماعت رسول اکرم مجنون نہیں ہیں اور رسول اکرم نے جبریل امین کو آسمان کے بلند کنارہ پر دیکھا بھی ہے اور پیغمبر وحی کے بارے میں بخیل بھی نہیں ہیں اور یہ قرآن کریم کسی شیطان مردود کی کہی ہوئی بات نہیں ہے۔
آیت ٢٢ وَمَا صَاحِبُـکُمْ بِمَجْنُوْنٍ ۔ ” اور تمہارے یہ ساتھی (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی مجنون نہیں ہیں۔ “- زیر مطالعہ آیات سورة النجم کی ابتدائی آیات کے ساتھ خصوصی مناسبت اور مشابہت رکھتی ہیں۔ وہاں بھی اس مضمون کا آغاز ستارے کی قسم (وَالنَّجْم) سے ہوا ہے اور یہاں بھی اس موضوع پر بات شروع کرنے سے پہلے آیات ١٥ اور ١٦ میں ستاروں کی قسمیں کھائی گئی ہیں۔ وہاں صَاحِبُکُمْ سے بات شروع ہو کر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے ذکر تک آئی ہے ‘ جبکہ یہاں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کا ذکر پہلے اور صَاحِبُکُمْ کا بیان بعد میں آیا ہے۔ وہاں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کا ذکر شَدِیْدُ الْقُوٰی کے لقب سے ہوا ہے جبکہ یہاں ان (علیہ السلام) کی شان میں ذِیْ قُوَّۃٍ کے الفاظ آئے ہیں۔
سورة التَّكْوِیْر حاشیہ نمبر :18 رفیق سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، اور آپ کو اہل مکہ کا رفیق کہہ کر دراصل انہیں اس بات کا احساس دلایا گیا ہے کہ آپ ان کے لیے کوئی اجنبی شخص نہیں ہیں بلکہ انہی کے ہم قوم اور ہم قبیلہ ہیں ۔ انہی کے درمیان آپ کی ساری زندگی بسر ہوئی ہے ، اور ان کے شہر کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ آپ کس قدر دانا اور ہوشمند انسان ہیں ۔ ایسے شخص کو جانتے بوجھتے مجنون کہتے ہوئے انہیں کچھ تو شرم آنی چاہیے ( مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآ ن ، جلد پنجم ، النجم ، حواشی 2 ۔ 3 ) ۔