[١٩] یعنی غیب کی خبریں جو اسے بذریعہ وحی معلوم ہوتی ہیں۔ خواہ زمانہ ماضی سے متعلق ہوں یا مستقبل سے یا مابعد الطبیعات سے، تمام لوگوں کو بلاکم وکاست بتاتا اور پہنچا دیتا ہے۔ وہ کاہنوں کی طرح نہ کسی سے نذرانے یا مٹھائی وصول کرتا ہے اور نہ ہی کسی طرح کے معاوضہ یا اجر کی تم لوگوں سے توقع رکھتا ہے۔ پیغمبر کی سیرت کو بھلا کاہنوں سے کیا نسبت ہوسکتی ہے۔
(وما ھو علی الغیب بضنین :” ضنین “ بخیل، یعنی اللہ تعالیٰ انہیں غیب کی جو بات بتاتے ہیں وہ اسے اپنے پاس ہی نہیں رکھ لیتے بلکہ امت تک پہنچا دیتے ہیں۔ عائشہ (رض) فرماتی ہیں :(من حد نک ان محمداً (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کم شیئاً مما انزل علیہ، فقد کذب ، واللہ یقول :(یایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک) (بخاری، التفسیر، باب :(یا ایھا الرسول بلغ…): ٣٦١٢)” جو شخص تمہیں بتائے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپ پر نازل ہونے والی کوئی بات چھپائی ہے، تو اس نے یقیناً جھوٹ بولا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(یایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک) (المائدہ : ٦٨)” اے رسول پہنچا دے جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے۔ “- بعض لوگوں نے اس آیت سے یہ مطلب نکالا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غیب جانتے تھے، کیونکہ بخل وہی کرسکتا ہے جس کے پاس کوئی چیز موجود ہو۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے صاف فرمایا ہے :(قل لا یعلم من فی السموات والارض الغیب الا اللہ) (النمل : ٦٥)”(اے نبی ) کہہ دے، اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہے غیب نہیں جانتا۔ “ اس سے صاف ظاہر ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غیب کی جو باتیں بتائی گئی ہیں وہ لوگوں کو بتانے میں آپ بخل نہیں کرتے۔ حقیقتل یہ ہے کہ اگر کسی شخص کو غیب کی کچھ بتایں بتادی جائیں تو وہ اس سیع الم الغیب نہیں بن جاتا، کیونکہ وہ صرف اتنی بات جانتا ہے زیادہ نہیں۔ ورنہ اگر اس وجہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عالم الغیب مانا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو غیب کی کئی باتیں بتائی ہیں تو امت کو بھی عالم الغیب ماننا پڑے گا، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو کچھ بتایا گیا تھا آپ نے اللہ کے حکم کے مطابق وہ سب کچھ امت کو بتادیا۔
وَمَا ہُوَعَلَي الْغَيْبِ بِضَنِيْنٍ ٢٤ ۚ- غيب - الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20]- ( غ ی ب ) الغیب ( ض )- غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے - ضن - قال تعالی: وَما هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍ [ التکوير 24] ، أي : ما هو ببخیل، والضَّنَّةُ هو البخل بالشیء النّفيس، ولهذا قيل : عِلْقُ مَضَنَّةٍ ومَضِنَّةٍ ، وفلانٌ ضِنِّي بين أصحابي، أي : هو النّفيس الذي أَضِنُّ به، يقال : ضَنَنْتُ بالشیء ضَنّاً وضَنَانَةً ، وقیل : ضَنِنْتُ- ( ض ن ن ) الضنتہ ( س ) کے معنی کسی پسندیدہ اور مرغوب شے سے بخل کرنا کے ہیں اس سے علق مضنتہ و مضنتہ کا محاورہ ہے یعنی وہ نفیس چیز جس پر بخل کیا جائے ۔ فلان ضنی بین اصحابی میرے ساتھیوں میں سے فلاں اس قابل ہے کہ اس پر بخل کیا جائے ( اور یہ باب ضربا وسمع دونوں سے آتا ہے ) چناچہ کہا جاتا ہے ضنت بالشئی ضنا وضنانتہ اور آیت کریمہ : وَما هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍ [ التکوير 24] کے معنی یہ ہیں کہ خدا کی طرف سے جو وحی ملتی ہے وہ اس ( کے عام کرنے ) میں بخل نہیں کرتے ۔
آیت ٢٤ وَمَا ہُوَ عَلَی الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍ ۔ ” اور وہ غیب کے معاملے میں حریص یا بخیل نہیں ہیں۔ “- ’ ضَنِیْن ‘ کا ترجمہ حریص بھی کیا گیا ہے اور بخیل بھی۔ دراصل بخل اور حرص دونوں لازم و ملزوم ہیں اور ایک ہی مفہوم کے دو پہلوئوں کو واضح کرتے ہیں۔ حریص کے معنی میں آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پوری زندگی تم لوگوں کے سامنے ہے۔ کیا انہوں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کاہنوں اور نجومیوں کے ساتھ کبھی دوستی رکھی ہے ؟ یا غیب کی خبریں معلوم کرنے کے لیے کیا انہوں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی ریاضتیں وغیرہ کرنے کی کوشش کی ہے ؟ ظاہر ہے ان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ چناچہ تم لوگ یہ نہیں کہہ سکتے ہو کہ وہ غیب کی خبروں کے معاملے میں شروع ہی سے ” حریص “ تھے۔ اسی طرح وہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس بارے میں بخیل بھی نہیں ہیں اور اس حقیقت کے بھی تم خود گواہ ہو۔ انہیـں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غیب کی جو خبریں معلوم ہوتی ہیں وہ تم لوگوں کو بتاتے ہیں۔ کیا کاہن اور نجومی بھی غیب کی خبریں اسی طرح کھلے عام لوگوں کو بتاتے ہیں ؟ کسی کاہن کے پاس تو غیب کا علم ہوتا ہی نہیں اور جو کسی قیاس آرائی یا ظن وتخمین کی بنا پر وہ کچھ جانتا ہے اس پر وہ اپنا کاروبار چمکاتا ہے۔ گویا ” ہلدی کی گانٹھ “ مل جانے پر وہ پنساری بن کر بیٹھ جاتا ہے اور اپنی ایک ایک بات کے عوض منہ مانگے نذرانے وصول کرتا ہے۔ اس کے برعکس ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اگر فرشتے کو دیکھا ہے تو انہوں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سرعام تم لوگوں کو بتادیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں غیب کا جو علم دیا جا رہا ہے وہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) من وعن تم لوگوں کو بتاتے ہیں اور اس معاملے میں بخل سے کام نہیں لیتے۔ (١)
سورة التَّكْوِیْر حاشیہ نمبر :20 یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم سے کوئی بات چھپا کر نہیں رکھتے ۔ غیب کے جو حقائق بھی اللہ تعالی کی طرف سے ان پر کھولے گئے ہیں ، خواہ وہ اللہ کی ذات و صفات کے بارے میں ہوں ، یا فرشتوں کے بارے میں ، یا زندگی بعد موت اور قیامت اور آخرت اور جنت اور دوزخ کے بارے میں ، سب کچھ تمہارے سامنے بےکم و کاست بیان کر دیتے ہیں ۔
12: یعنی حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے غیب کی جو باتیں معلوم ہوتی ہیں، وہ اُنہیں لوگوں سے چھپاتے نہیں ہیں، بلکہ سب کے سامنے ظاہر فرمادیتے ہیں، جاہلیت کے زمانے میں جو لوگ کاہن کہلاتے تھے، وہ بھی غیب کی باتیں بتانے کا دعویٰ کرتے تھے، اور شیطانوں سے دوستی کرکے ان سے کچھ جھوٹی سچی باتیں سن لیا کرتے تھے، لیکن جب لوگ اُن سے پوچھتے تو وہ اُنہیں فیس لئے بغیر کچھ بتانے سے انکار کرتے تھے، اﷲ تعالیٰ کافروں سے فرمارہے ہیں کہ تم آنخضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو کاہن کہتے ہو، حالانکہ کاہن تو تمہیں جھوٹی باتیں بتانے میں بھی بڑے بخل سے کام لیتے ہیں، اور پیسے لئے بغیر کچھ نہیں بتاتے، لیکن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو غیب کی جو سچی باتیں معلوم ہوتی ہیں وہ بتانے میں بھی نہ بخل سے کام لیتے ہیں، اور نہ اس پر کوئی معاوضہ مانگتے ہیں۔