[٢٠] کفار مکہ آپ کو کاہن کیوں کہتے تھے ؟:۔ آپ بھی چونکہ غیب کی خبریں دیتے تھے اس لیے کفار مکہ یہی سمجھتے تھے کہ آپ کو بھی کوئی جن یا شیطان ایسی خبریں مہیا کرتا ہے۔ چناچہ ایک دفعہ آپ بیمار ہوگئے اور دو تین راتیں نماز تہجد کے لیے اٹھ نہ سکے تو ابو لہب کی بیوی (عوراء بنت حرب۔ ابو سفیان کی بہن) آپ کے پاس آئی اور کہنے لگی : محمد میں سمجھتی ہوں تیرے شیطان نے تجھ کو چھوڑ دیا۔ دو تین راتوں سے تیرے پاس نہیں آیا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ والضحی۔۔ ماقلیٰ تک (بخاری، کتاب التفسیر، سورة والضحیٰ ) اور کافروں کو بتایا یہ جارہا ہے کہ تمہارا یہ خیال غلط ہے۔ بھلا شیطان سے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ انسان کو شرک، بت پرستی اور دہریت و الحاد سے ہٹا کر اللہ تعالیٰ کی خالص عبادت اور توحید کی تعلیم دے ؟ اللہ کے حضور ذمہ داری اور جوابدہی کا احساس دلائے ؟ پاکیزہ زندگی، عدل اور تقویٰ اور اخلاق فاضلہ کی طرف رہنمائی کرے ؟
وَمَا ہُوَبِقَوْلِ شَيْطٰنٍ رَّجِيْمٍ ٢٥ ۙ- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122]- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو - رجم - الرِّجَامُ : الحجارة، والرَّجْمُ : الرّمي بالرِّجَامِ. يقال : رُجِمَ فهو مَرْجُومٌ ، قال تعالی: لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ يا نُوحُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُومِينَ [ الشعراء 116] ، أي : المقتولین أقبح قتلة، وقال :- وَلَوْلا رَهْطُكَ لَرَجَمْناكَ [هود 91] ، إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ [ الكهف 20] ، ويستعار الرّجم للرّمي بالظّنّ ، والتّوهّم، وللشّتم والطّرد، نحو قوله تعالی: رَجْماً بِالْغَيْبِ وما هو عنها بالحدیث المرجّم - «7» وقوله تعالی: لَأَرْجُمَنَّكَ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا - [ مریم 46] ، أي : لأقولنّ فيك ما تكره والشّيطان الرَّجِيمُ : المطرود عن الخیرات، وعن منازل الملإ الأعلی. قال تعالی: فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطانِ الرَّجِيمِ [ النحل 98] ، وقال تعالی: فَاخْرُجْ مِنْها فَإِنَّكَ رَجِيمٌ [ الحجر 34] ، وقال في الشّهب : رُجُوماً لِلشَّياطِينِ- [ الملک 5] - ( ر ج م ) الرجام - ۔ پتھر اسی سے الرجیم ہے جس کے معنی سنگسار کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے رجمۃ ۔ اسے سنگسار کیا اور جسے سنگسار کیا گیا ہوا سے مرجوم کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛ لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ يا نُوحُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُومِينَ [ الشعراء 116] کہ تم ضرور سنگسار کردیئے جاؤ گے ۔ إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ [ الكهف 20] کیونکہ تمہاری قوم کے لوگ تمہاری خبر پائیں گے تو تمہیں سنگسار کردیں گے ۔ پھر استعارہ کے طور پر رجم کا لفظ جھوٹے گمان تو ہم ، سب وشتم اور کسی کو دھتکار دینے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے رَجْماً بِالْغَيْب یہ سب غیب کی باتوں میں اٹکل کے تکے چلاتے ہیں ۔ (176) ، ، وماھو عنھا بالحدیث المرکم ، ، اور لڑائی کے متعلق یہ بات محض انداز سے نہیں ہے ۔ اور شیطان کو رجیم اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ خیرات اور ملائم اعلیٰ کے مراتب سے راندہ ہوا ہے قرآن میں ہے :۔ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطانِ الرَّجِيمِ [ النحل 98] تو شیطان مردود کے وسواس سے خدا کی پناہ مانگ لیاکرو ۔ فَاخْرُجْ مِنْها فَإِنَّكَ رَجِيمٌ [ الحجر 34] تو بہشت سے نکل جا کہ راندہ درگاہ ہے ۔ اور شھب ( ستاروں ) کو رجوم کہا گیا ہے قرآن میں ہے :۔ رُجُوماً لِلشَّياطِينِ [ الملک 5] ان کی شیاطین کے لئے ایک طرح کا زوبنایا ہے ۔ رجمۃ ورجمۃ ۔ قبر کا پتھر جو بطور نشان اس پر نصب کیا جاتا ہے ۔
آیت ٢٥ وَمَا ہُوَ بِقَوْلِ شَیْطٰنٍ رَّجِیْمٍ ۔ ” اور یہ کسی شیطانِ مردود کا قول نہیں ہے۔ “- شیاطین جن چونکہ غیب کے نام پر جھوٹی سچی خبریں کاہنوں تک پہنچاتے رہتے تھے اس لیے یہاں اس امکان کی بھی تردید کردی گئی ہے۔ یعنی تم لوگ یہ مت سمجھو کہ جنوں میں سے کسی شیطان نے انہیں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی پٹی ّپڑھا دی ہے (معاذ اللہ) ۔ یہی مضمون سورة الحاقہ میں زیادہ وضاحت اور زیادہ ُ پرزور انداز میں یوں بیان ہوا ہے : فَلَآ اُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُوْنَ - وَمَا لَا تُبْصِرُوْنَ ۔ ” میں قسم کھاتا ہوں ان چیزوں کی جو تم دیکھتے ہو اور ان کی بھی جو تم نہیں دیکھتے ہو “۔ (یہاں پر مَا تُبْصِرُوْنَ سے شاعری وغیرہ مراد ہے ‘ اس لیے کہ شاعر لوگ اپنی سوچ اور فکر سے شعر کہتے ہیں ‘ جبکہ مَا لَا تُبْصِرُوْنَ کے الفاظ میں شیاطین جن کی خبروں کی طرف اشارہ ہے جو وہ کاہنوں تک پہنچاتے تھے) ۔ اِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ - وَّمَا ہُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍط قَلِیْلًا مَّا تُؤْمِنُوْنَ - وَلَا بِقَوْلِ کَاہِنٍط قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ ۔ ” یہ قول ہے رسول کریم کا۔ اور یہ کسی شاعر کا قول نہیں ہے ۔ کم ہی ہے جو تم یقین کرتے ہو ۔ اور نہ ہی یہ کسی کاہن کا کلام ہے ۔ کم ہی ہے جو تم غور کرتے ہو۔ “
سورة التَّكْوِیْر حاشیہ نمبر :21 یعنی تمہارا یہ خیال غلط ہے کہ کوئی شیطان آ کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کان میں یہ باتیں پھونک دیتا ہے ۔ شیطان کا آخر یہ کام کب ہو سکتا ہے کہ وہ انسان کو شرک اور بت پرستی اور دہریت و الحاد سے ہٹا کرخدا پرست اور توحید کی تعلیم دے ۔ انسان کو شتر بےمہار بن کر رہنے کے بجائے خدا کے حضور ذمہ داری اور جواب دہی کا احساس دلائے ۔ جاہلانہ رسموں اور ظلم اور بد اخلاقی اور بد کرداری سے منع کر کے پاکیزہ زندگی ، عدل اور تقویٰ اور اخلاق فاضلہ کی طرف رہنمائی کرے ۔ ( مزید تشریح کے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، الشعراء ، آیات 210 تا 212 معی حواشی 130 تا 133 ، اور آیات 221 تا 223 مع حواشی 140 ۔ 141 ) ۔