26۔ 1 یعنی کیوں اس سے روگردانی کرتے ہو ؟ اور اس کی اطاعت نہیں کرتے۔
[٢١] یعنی یہ قرآن لانے والا جبریل امین اور لوگوں تک پہچانے والا رسول امین۔ ان دو امین ہستیوں کی وجہ سے اس قرآن سے جھوٹ، باطل کی آمیزش، رشک و شبہ، توہم اور دیوانگی کے سب امکانات ختم ہوئے۔ نیز کاہن یا شیطان کا کلام بھی نہیں ہوسکتا۔ تو ان باتوں کے بعد سوائے سچائی اور حق کے باقی کیا رہ جاتا ہے ؟ پھر اس صاف اور روشن راستے کو چھوڑ کر اور کدھر بہکے جارہے ہو ؟
فَاَيْنَ تَذْہَبُوْنَ ٢٦ ۭ- أين - أَيْنَ لفظ يبحث به عن المکان، كما أنّ «متی» يبحث به عن الزمان، والآن : كل زمان مقدّر بين زمانین ماض ومستقبل، نحو : أنا الآن أفعل کذا، وخصّ الآن بالألف واللام المعرّف بهما ولزماه، وافعل کذا آونة، أي : وقتا بعد وقت، وهو من قولهم : الآن .- وقولهم : هذا أوان ذلك، أي : زمانه المختص به وبفعله .- قال سيبويه رحمه اللہ تعالی: الآن آنك، أي : هذا الوقت وقتک .- وآن يؤون، قال أبو العباس رحمه اللہ :- ليس من الأوّل، وإنما هو فعل علی حدته .- والأَيْنُ : الإعياء، يقال : آنَ يَئِينُ أَيْناً ، وکذلك : أنى يأني أينا : إذا حان .- وأمّا بلغ إناه فقد قيل : هو مقلوب من أنى، وقد تقدّم .- قال أبو العباس : قال قوم : آنَ يَئِينُ أَيْناً ، والهمزة مقلوبة فيه عن الحاء، وأصله : حان يحين حينا، قال : وأصل الکلمة من الحین .- این ( ظرف ) یہ کلمہ کسی جگہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے جیسا کہ لفظ متی ، ، زمانہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے ( ا ی ن ) الاین ( ض) کے معنی تھک کر چلنے سے عاجز ۔ ہوجانا کے ہیں آن یئین اینا اور انیٰ یانی ان یا کے معنی کسی چیز کا موسم یا وقت آجانا کے ہیں اور محاورہ میں بلغ اناہ کے متعلق بعض نے کہا ہے کہ انیٰ ( ناقص) سے مقلوب ہے جیسا کہ پہلے گزچکا ہے ۔ ابوالعباس نے کہا ہے کہ آن مقلوب ( بدلاہوا ) ہے اور اصل میں حان یحین حینا ہے اور اصل کلمہ الحین ہے ۔- ذهب - الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ويستعمل ذلک في الأعيان والمعاني، قال اللہ تعالی: وَقالَ إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] ،- ( ذ ھ ب ) الذھب - ذھب ( ف) بالشیء واذھبتہ لے جانا ۔ یہ اعیان ومعانی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں ۔
(٢٦۔ ٢٧) تو اے گروہ کفار عذاب خداوندی اور اس کے اوامرو نواہی سے کدھر کو جارہے ہو، یا یہ کہ کہاں کی تکذیب کر رہے ہو، یا یہ مطلب ہے کہ قرآن کریم سے کدھر کو اعراض کیے جارہے ہو کہ اس پر ایمان نہیں لاتے۔ یہ قرآن کریم تو جنوں اور انسانوں کے لیے اللہ کی طرف سے ایک بڑا نصیحت نامہ ہے۔
آیت ٢٦ فَاَیْنَ تَذْہَبُوْنَ ۔ ” تو تم کدھر چلے جا رہے ہو ؟ “- تمہاری بھلائی اور کامیابی تو اس میں تھی کہ تم لوگ ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لاتے اور ان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف جو وحی آرہی ہے اس کے نور سے اپنے دلوں کو منور کرتے ‘ لیکن تم لوگوں نے اس کے بجائے ان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب اور مخالفت کی روش اپنا رکھی ہے۔ تم لوگ کبھی سنجیدگی سے غور تو کرو کہ اللہ کے کلام سے منہ موڑ کر تم لوگ کس طرف جا رہے ہو۔