[١١] یعنی نہ اس سے بھاگ کر کسی اور جگہ پناہ لے سکیں گے اور نہ جہنم میں داخل ہونے کے بعد وہاں سے نکل سکیں گے۔
وَمَا هُمْ عَنْهَا بِغَاۗىِٕبِيْنَ ، یعنی جہنمی لوگ کسی وقت جہنم سے غائب نہ ہوسکیں گے کیونکہ ان کے لئے خلود اور دائمی عذاب کا حکم ہے لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَـيْــــًٔا، یعنی کوئی شخص با ختیار خود کسی دوسرے کو محشر میں کوئی نفع نہ پہنچا سکے گا نہ کسی کی تکلیف کو کم کرسکے گا، اس سے شفاعت کی نفی نہیں ہوتی کیونکہ شفاعت کسی کی اپنے اختیار سے نہ ہوگی جب تک کہ اللہ تعالیٰ کسی کو کسی کی شفاعت کی اجازت نہ دیں، اس لئے اصل حکم کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے وہ ہی اپنے فضل سے کسی کو شفاعت کی اجازت دیدے اور پھر شفاعت قبول فرمالے تو وہ بھی اسی کا حکم ہے، واللہ اعلم - تمت سورة الانفطار بحمد اللہ لیلة الاربعا ٨ شعبان ١٩٣١
وَمَا ہُمْ عَنْہَا بِغَاۗىِٕبِيْنَ ١٦ ۭ- غيب - الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20]- ( غ ی ب ) الغیب ( ض )- غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے
آیت ١٦ وَمَا ہُمْ عَنْہَا بِغَـآئِبِیْنَ ۔ ” اور وہ اس سے کہیں غائب نہیں ہو سکیں گے۔ “- ظاہر ہے جہنم سے بھاگ نکلنے کا نہ کوئی راستہ ہوگا اور نہ ہی کسی میں بھاگ جانے کی طاقت ہوگی۔