Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ناپ تول میں کمی کے تنائج نسائی اور ابن ماجہ میں ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے اس وقت اہل مدینہ ناپ تول کے اعتبار سے بہت برے تھے ۔ جب یہ آیت اتری پھر انہوں نے ناپ تول بہت درست کر لیا ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت ہلال بن طلق نے ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ مکے مدینے والے بہت ہی عمدہ ناپ تول رکھتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا وہ کیوں نہ رکھتے جب کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے آیت ( وَيْلٌ لِّـلْمُطَفِّفِيْنَ Ǻ۝ۙ ) 83- المطففين:1 ) ہے ۔ پس تطفیف سے مراد ناپ تول کی کمی ہے خواہ اس صورت میں کہ اوروں سے لیتے وقت زیادہ لے لیا اور دیتے وقت کم دیا ۔ اسی لیے انہیں دھمکایا کہ یہ نقصان اٹھانے والے ہیں کہ جب اپنا حق لیں تو پورا لیں بلکہ زیادہ لے لیں اور دوسروں کو دینے بیٹھیں تو کم دیں ۔ ٹھیک یہ ہے کہ کالو اور وزنو کو متعدی مانیں اور ھُم کو محلا منصوب کہیں گو بعض نے اسے ضمیر موکد مانا ہے ۔ جو کالو اور وزنو کی پوشیدہ ضمیر کی تاکید کے لیے ہے اور مفعول محذوف مانا ہے جس پر دلالت کلام موجود ہے دونوں طرح مطلب قریب قریب ایک ہی ہے ۔ قرآن کریم نے ناپ تول درست کرنے کا حکم اس آیت میں بھی دیا ہے ۔ آیت ( وَاَوْفُوا الْكَيْلَ اِذَا كِلْتُمْ وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَــقِيْمِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا 35؀ ) 17- الإسراء:35 ) یعنی جب ناپو تو ناپ پورا کرو اور وزن سیدھے ترازو سے تول کر دیا کرو ۔ اور جگہ حکم ہے ۔ آیت ( وَاَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيْزَانَ بِالْقِسْطِ ۚ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا ١٥٢؀ۙ ) 6- الانعام:152 ) ناپ تول انصاف کے ساتھ برابر کر دیا کرو ، ہم کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے اور جگہ فرمایا آیت ( وَاَقِيْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِيْزَانَ Ḍ؀ ) 55- الرحمن:9 ) یعنی تول کو قائم رکھو اور میزان کو گھٹاؤ نہیں ۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کو اسی بدعادت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے غارت و برباد کر دیا یہاں بھی اللہ تعالیٰ ڈرا رہا ہے ۔ کہ لوگوں کے حق مارنے والے کیا قیامت کے دن سے نہیں ڈرتے جس دن یہ اس ذات پاک کے سامنے کھڑے ہو جائیں گے ۔ جس پر نہ کوئی پوشیدہ بات پوشیدہ ہے نہ ظاہر ، وہ دن بھی نہایت ہولناک و خطرناک ہو گا ۔ بڑی گھبراہٹ اور پریشانی والا دن ہو گا ، اس دن یہ نقصان رساں لوگ جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے وہ جگہ بھی نہایت تنگ و تاریک ہو گی اور میدان آفات و بلیات سے پر ہو گا اور وہ مصائب نازل ہو رہے ہوں گے کہ دل پریشان ہوں گے حواس بگڑے ہوئے ہوں گے ہوش جاتا رہے گا صحیح حدیث میں ہے کہ آدھے آدھے کانوں تک پسینہ پہنچ گیا ہو گا ۔ ( موطا مالک ) مسند احمد کی حدیث میں ہے اس دن رحمان عز و جل کی عظمت کے سامنے سب کھڑے کپکپا رہے ہوں گے اور حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن بندوں سے سورج اس قدر قریب ہو جائے گا کہ ایک یا دو نیزے کے برابر اونچا ہو گا اور سخت تیز ہو گا ہر شخص اپنے اپنے اعمال کے مطابق اپنے پسینے میں غرق ہو گا بعض کی ایڑیوں تک پسینہ ہو گا بعض کے گھٹنوں تک بعض کی کمر تک بعض کو تو ان کا پسینہ لگام بنا ہوا ہو گا اور حدیث میں ہے دھوپ اس قدر تیز ہو گی کہ کھوپڑی بھنا اٹھے گی اور اس طرح اس میں جوش اٹھنے لگے گا جس طرح ہنڈیا میں ابال آتا ہے اور روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے منہ پر اپنی انگلیاں رکھ کر بتایا کہ اس طرح پسینہ کی لگام چڑھی ہوئی ہو گی پھر آپ نے ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا کہ بعض بالکل ڈوبے ہوئے ہوں گے اور حدیث میں ہے ستر سال تک بغیر بولے چالے کھڑے رہیں گے یہ بھی کہا گیا ہے کہ تین سو سال تک کھڑے رہیں گے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ چالیس ہزارسال تک کھڑے رہیں گے اور دس ہزار سال میں فیصلہ کیا جائے گا صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہو گی ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بشیر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تو کیا کرے گا جس دن لوگ اللہ رب العالمین کے سامنے تین سو سال تک کھڑے رہیں گے نہ تو کوئی خبر آسمان سے آئیگی نہ کوئی حکم کیا جائیگا حضرت بشیر کہنے لگے اللہ ہی مدد گار ہے آپ نے فرمایا سنو جب بستر پر جاؤ تو اللہ تعالیٰ سے قیامت کے دن کی تکلیفوں اور حساب کی برائی سے پناہ مانگ لیا کرو ۔ سنن ابو داؤد میں ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم قیامت کے دن کے کھڑے ہونے کی جگہ کی تنگی سے پناہ مانگا کرتے تھے ۔ حضرت ابن مسعود سے روایت ہے کہ چالیس سال تک لوگ اونچا سر کیے کھڑے رہیں گے کوئی بولے گا نہیں نیک و بد کو پسینے کی لگام میں چڑھی ہوئی ہوں گی ۔ ابن عمر فرماتے ہیں سو سال تک کھڑے رہیں گے ( ابن جریر ) ابو داؤد ، نسائی ابن ماجہ میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو اٹھ کر تہجد کی نماز شروع کرتے تو دس مرتبہ اللہ اکبر کہتے ، دس مرتبہ الحمد اللہ کہتے ، دس مرتبہ سبحان اللہ کہتے ، دس مرتبہ استغفر اللہ کہتے ۔ پھر کہتے دعا ( اللھم اغفرلی واھدنی وارزقنی وعافنی ) اے اللہ مجھے بخش مجھے ہدایت دے مجھے روزیاں دے اور عافیت عنایت فرما پھر اللہ تعالیٰ سے قیامت کے دن کے مقام کی تنگی سے پناہ مانگتے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١] تطفیف کا لغوی مفہوم :۔ مُطَفِّفِیْنَ ۔ طفیف بمعنی معمولی اور حقیر چیز اور طفّف بمعنی ناپ کا پیمانہ بھرتے وقت تھوڑا سا کم بھرنا یا پیمانہ ہی تھوڑا سا چھوٹا رکھنا تاکہ غلہ لینے والے کو یہ معلوم نہ ہوسکے کہ اسے اس کا حق تھوڑا سا کم دیا جارہا ہے۔ عرب میں زیادہ تر اشیاء کو ناپ کردینے کا رواج تھا۔ تول کردینے کا کم تھا۔ تاہم تھا ضرور۔ ہمارے ہاں زیادہ تر تول کردینے کا رواج ہے۔ تول کر کم دینے کے لیے ہمارے ہاں ڈنڈی مارنے کا محاورہ عام ہے۔ اسی لیے اس کا ترجمہ ڈنڈی مارنے سے کیا گیا ہے پھر ڈنڈی مارنا اس لحاظ سے زیادہ ابلغ ہے کہ دیتے وقت ڈنڈی مار کر چیز کم دی جاسکتی ہے اور لیتے وقت ڈنڈی مار کر چیز تھوڑی سی زیادہ لی جاسکتی ہے۔ نیت کا بگاڑ ہونے کے لحاظ سے کسی کو حق سے کم دینا اور خود لیتے وقت حق سے زیادہ لینا دونوں ہی ایک جیسے جرم یعنی کبیرہ گناہ ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(ویل للمطففین :) (” التطفیف “ ماپ یا تول میں کمی کرنا۔ ماپ تول کے علاوہ لین دین کے جتنے بھی دیگر پیمانے ہیں ان میں کمی بھی ” التطفیف “ ہے۔” الطفیف “ بالکل تھوڑی سی چیز کو کہتے ہیں۔ ” صاع “ بھرا ہوا ہو، مگر پورا بھرنے سے کم ہو تو اس کی کمی کو ” طف الصاع “ کہتے ہیں۔ چونکہ ماپ تول میں کمی کرنے والا کوئی بڑا مال نہیں چراتا بلکہ تھوڑی سی چیز چراتا ہے، اس لئے اسے ” المطفف “ کہتے ہیں۔ یہ فعل کمینگی کی انتہا ہے اور اس بات کی دلیل ہے کہ اتنی تھوڑی تھوڑی چیز کی چوری کرنے والا شخص بڑا مال اڑانے سے بھی پرہیز کرنے والا نہیں، صرف اپنی کم ہمتی یا پکڑے جانے کے خوف سے اتنی چوری پر صبر کئے بیٹھا ہے، ورنہ اس کی طبیعت کے فاسد ہوجانے اور امانت سے خلای ہوجانے میں کوئی کمی باقی نہیں رہی۔ اللہ تعالیٰ نے اس فعل شنیع کا ارتکاب کرنے والوں کو ” ویل “ کی وعید سنئای ہے، جس کا معنی ہلاکت ہے۔ آخرت میں ہونے والی ہلاکت کا تو کچھ شمار ہی نہیں، اس کی کچھ تفصیل اسی سورت میں آرہی ہے۔ اگرچہ وہ مکذبین (جھٹلانے والوں) کے لئے ہے، مگر یہ فعل بھی آخرت کی تکذیب ہی سے سر زد ہوتا ہے، جبکہ دنیا میں اس سے ہونے والی ہلاکت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمائی، حدیث لمبی ہے، اس کا ایک فقرہ یہ ہے :(ولم ینفصوا المکیال والمیزان، الا اخذوا بالسنین ، وشدۃ الموونۃ وجور السلطان علیھم) (ابن ماجہ، الفتن، باب العقوبات : ٣٠١٩)” جو قوم بھی ماپ تول میں کمی کرتی ہے اسے قحط سالیوں، سخت مشقت اور حکمرانوں کے ظلم کے ساتھ پکڑ لیا جاتا ہے۔ “ شیخ البانی (رح) نے مستدرک حاکم کی سند کی وجہ سے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔ (دیکھیے سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ : ١٠٦) شعیب (علیہ السلام) کی قوم پر عذاب کا ایک سبب یہ بھی تھا۔ - تنبیہ : ترمذی کی روایت کہ ” ویل جہنم کی ایک وادی ہے …“ صحیح نہیں۔ (دیکھیے ضعیف ترمذی، سورة الانبیاء : ٣٣٨٩)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی کہ جب لوگوں سے (اپنا حق) ناپ کرلیں تو پورے لے لیں اور جب ان کو ناپ کر یا تول کردیں تو گھٹا دیں (گو لوگوں سے اپنا حق پورا لینا مذموم نہیں ہے مگر اسکے ذکر کرنے سے مقصود خود اس پر مذمت کرنا نہیں ہے بلکہ کم دینے پر مذمت کی تاکید وتقویت ہے یعنی کم دینا اگرچہ فی نفسہ مذموم ہے لیکن اس کے ساتھ اگر دوسروں کی ذرا رعایت نہ کی جاوے تو اور زیادہ مذموم ہے، بخلاف رعایت کرنے والے کے کہ اگر اس میں عیب ہے تو ایک ہنر بھی ہے اس لئے اول شخص کا عیب اشد ہے اور چونکہ اصل مقصود ومذمت ہے کم دینے کی اس لئے اس میں ناپ اور تول دونوں کا ذکر کیا تاکہ خوب تصریح ہوجاوے کہ ناپنے میں بھی کم دیتے اور تولنے میں بھی کم دیتے ہیں اور چونکہ پورا لینا فی نفسہ مدار مذمت کا نہیں اس لئے وہاں ناپ اور تول دونوں کا ذکر نہیں بلکہ ایک ہی کا ذکر کیا پھر تخصیص ناپ کی شاید اس لئے ہو کہ عرب میں زیادہ دستور کیل کا تھا خصوصاً اگر آیت مدنی ہو جیسا روح المعانی میں بروایت نسائی وابن ماجہ و بیہقی - اس کا نزول اہل مدینہ کے باب میں لکھا ہے تو اس وقت اس تخصیص کی وجہ زیادہ ظاہر ہے کیونکہ مدینہ میں کیل کا دستور مکہ سے بھی زیادہ تھا، آگے ایسا کرنے والوں کو ڈرایا گیا ہے کہ) کیا ان لوگوں کو اس کا یقین نہیں ہے کہ وہ ایک بڑے سخت دن میں زندہ کرکے اٹھائے جاویں گے جس دن تمام آدمی رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے (یعنی اس روز سے ڈرنا چاہئے اور تطفیف یعنی لوگوں کی حق تلفی سے توبہ کرنا چاہئے اس بعث وجزا کو سنکر جو مومن تھے وہ ڈرگے اور جو کافر تھے وہ انکار کرنے لگے، اس لئے آگے انکار پر تنبیہ فرما کر فریقین کی جزاء کی تفصیل فرماتے ہیں کہ جیسا کفار لوگ جزا وسزا کے منکر ہیں) ہرگز (ایسا) نہیں (بلکہ جزا وسزا ضروری الوقوع ہے، جن اعمال پر جزا وسزا ہوگی وہ منضبط اور محفوظ ہیں اور اس مجموعہ کا بیان یہ ہے) بدکار (یعنی کافر) لوگوں کا نامہ عمل سجین میں رہے گا ( وہ ایک مقام ساتویں زمین میں ہے جو مقام ہے ارواح کفار کا، کذافی تفسیر ابن کثیر عن کعب وفی الدر المنثور عن ابن عباس و مجاہد وفرقد وقتادة میں منقول ہے، آگے ڈرانے کے لئے سوال ہے کہ) اور آپ کو کچھ معلوم ہے کہ سجین میں رکھا ہوا نامہ عمل کیا چیز ہے وہ ایک نشان کیا ہوا دفتر ہے (نشان سے مراد مہر ہے کمافی الدر المنثور عن کعب الاحبار فیختم ویوضع ای بعدالموت مقصود یہ ہوگا کہ اس میں تغیر و تبدیل کا کچھ احتمال نہیں پس حاصل اس کا اعمال کا محفوظ ہونا ہے جس سے جزا کا بحق ہونا ثابت ہوا آگے ان اعمال کی جزاء کا بیان ہے کہ) اس روز ( یعنی قیامت کے روز) جھٹلانے والوں کی بڑی خرابی ہوگی جو کہ روز جزاء کو جھٹلاتے ہیں اور اس (یوم جزا) کو تو وہی شخص جھٹلاتا ہے جو حد ( عبدیت) سے گزرنے والا ہو مجرم ہو (اور) جب اس کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاویں تو یوں کہہ دیتا ہو کہ یہ بےسند باتیں اگلوں سے منقول چلی آتی ہیں (مطلب یہ بتلانا ہے کہ جو شخص روز قیامت کی تکذیب کرتا ہے وہ معتدی، اثیم، مکذب بالقرآن ہے آگے تکذیب روز جزاء پر جو صراحة مذکور ہے تنبیہ کی گئی ہے کہ یہ لوگ اس کو غلط سمجھ رہے ہیں) ہرگز ایسا نہیں ( اور کسی کو یہ شبہ نہ ہو کہ شاید ان کے پاس کوئی دلیل نفی کی ہوگی جس سے یہ استدلال کرتے ہوں گے ہرگز نہیں) بلکہ ( اصل وجہ تکذیب کی یہ ہے کہ) ان کے دلوں پر ان کے اعمال بد کا زنگ بیٹھ گیا ہے (اس سے استعداد قبول حق کی فاسد ہوگئی اسلئے براہ عناد انکار کرنے لگے آگے پھر انکار پر زجر ہے کہ جیسا یہ لوگ سمجھ رہے ہیں) ہرگز ایسا نہیں (آگے ویل کی کچھ تفصیل ہے کہ وہ خرابی یہ ہے کہ) یہ لوگ اس روز (ایک تو) اپنے رب (کا دیدار دیکھنے) سے روک دیئے جائیں گے پھر (صرف اسی پر اکتفا نہ ہوگا بلکہ) یہ دوزخ میں داخل ہوں گے پھر (ان سے) کہا جاوے گا کہ یہی ہے جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے (اور چونکہ یہ لوگ یوم دین کی تکذیب میں جس طرح اپنی سزا کو جھٹلاتے تھے اسی طرح مومنین کی جزا کو بھی جھٹلاتے تھے، آگے اس پر تنبیہ فرماتے ہیں کہ یہ جو مومنین کے اجروثواب کے منکر ہیں) ہرگز ایسا نہیں، (بلکہ ان کا اجر وثواب ضرور ہونے والا ہے جسکا بیان یہ ہے کہ) نیک لوگوں کا نامہ عمل علیین میں رہیگا (وہ ایک مقام ہے ساتویں آسمان میں جو مستقر ہے ارواح مومنین کا، کذافی تفسیر ابن کثیر عن کعب) اور (آگے تفحیم کے لئے سوال ہے کہ) آپ کو کچھ معلوم ہے کہ علیین میں رکھا ہوا نامہ عمل کیا چیز ہے وہ ایک نشان کیا ہوا دفتر ہے جس کو مقرب فرشتے (شوق سے) دیکھتے ہیں (اور یہ مومن کا بہت بڑا اکرام ہے جیسا کہ روح المعانی ہیں بتخریج عبد بن حمید حضرت کعب سے روایت ہے کہ جب ملائکہ مومن کی روح کو قبض کرکے لیجاتے ہیں تو ہر آسمان کے مقرب فرشتے اسکے ہاتھ ہوتے جاتے ہیں یہاں تک کہ ساتویں آسمان تک پہنچ کر اس روح کو رکھ دیتے ہیں، پھر فرشتے عرض کرتے ہیں کہ ہم اس کا نامہ اعمال دیکھنا چاہتے ہیں چناچہ وہ نامہ عمل کھول کر دکھلایا جاتا ہے (مختصراً ) آگے ان کی جزاء آخرت کا بیان ہے کہ) نیک لوگ بڑی آسائش میں ہوں گے مسہریوں پر (بیٹھے بہشت کے عجائب) دیکھتے ہوں گے (اے مخاطب) تو ان کے چہروں میں آسائش کی بشاشت پہچانے گا (اور) ان کو پینے کیلئے شراب خالص سربمہر جس پر مشک کی مہر ہوگی ملے گی اور حرص کرنے والوں کو ایسی چیز کی حرص کرنا چاہئے ( کہ حرص کے لائق یہی ہے خواہ صرف شراب مراد لیجاوے خواہ کل نعمائے جنت یعنی شوق ورغبت کی چیز یہ نعمتیں ہیں، نہ کہ دنیا کی ناقص اور فانی لذتیں اور ان کی تحصیل کا طریق نیک اعمال ہیں، پس اس میں کوشش کرنا چاہئے) اور اس (شراب) کی آمیزش تسنیم (کے پانی سے) ہوگی (عرب عموماً شراب میں پانی ملا کر پیتے تھے تو اس شراب کی آمیزش کے لئے تسنیم کا پانی ہوگا، آگے تسنیم کی شرح ہے) یعنی ایک ایسا چشمہ جس سے مقرب لوگ پانی پئیں گے، (مطلب یہ کہ سابقین یعنی مقربین کو تو خالص پینے کو اس کا پانی ملے گا اور اصحاب الیمین یعنی ابرار کو اس کا پانی دوسری شراب میں ملا کر ملے گا، کذافی الدر المنثور عن قتادہ ومالک ابن الحارث وابن عباس وابن مسعود وحذیفہ، اور یہ مہر لگنا علامت اکرام کی ہے ورنہ وہاں ایسی حفاظت کی ضرورت نہیں، اور مشک کی مہر کا مطلب یہ ہے کہ جیسے قاعدہ ہے کہ لاک وغیرہ لگا کر اس پر مہر کرتے ہیں اور ایسی چیز کو طین ختام کہتے ہیں وہاں شراب کے برتن کے منہ پر مشک لگا کر اس پر مہر کردی جاوے گی، یہاں تک فریقین کی جزائے اخروی کا الگ الگ بیان تھا آگے مجموعہ فریقین کا مجموعہ حال دنیا وآخرت مذکور ہے یعنی) جو لوگ مجرم (یعنی کافر) تھے وہ ایمان والوں سے (دنیا میں تحقیرا) ہنسا کرتے تھے اور یہ (ایمان والے) جب ان کافروں کے سامنے سے ہو کر گزرتے تھے تو آپس میں آنکھوں سے اشارے کرتے تھے ( مطلب یہ کہ انکے ساتھ استہزا و تحقیر سے پیش آتے تھے) اور جب اپن گھروں کو جاتے تو (وہاں بھی ان کا تذکرہ کرکے) دل لگیاں (اور تمسخر) کرتے (مطلب یہ کہ غیبت و حضور ہر حالت میں انکی تحقیر و استہزاء کا مشغلہ رہتا، البتہ حضور میں اشارے چلا کرتے اور غیبت میں صراحة تذکرہ کرتے اور جب انکو دیکھتے تو یوں کہا کرتے کہ یہ لوگ یقیناً غلطی پر ہیں (کیونکہ کفار اسلام کو غلطی پر سمجھتے تھے) حالانکہ یہ (کافر) ان (مسلمانوں) پر نگرانی کرنے والے بنا کر نہیں بھیجے گئے ( یعنی ان کو اپنی فکر کرنا چاہئے تھا، ان کے پیچھے کیوں پڑگئے پس ان سے دو غلطیاں ہوئیں اول اہل حق کے ساتھ استہزاء پھر اپنی اصلاح سے بےفکری) سو آج (قیامت کے دن) ایمان والے کافروں پر ہنستے ہوں گے، مسہریوں پر (بیٹھے ان کا حال) دیکھ رہے ہوں گے (درمنثور میں قتادہ سے منقول ہے کہ کچھ دریچے جھرو کے ایسے ہوں گے جن سے اہل جنت اہل نار کو دیکھ سکیں گے، پس ان کا برا حال دیکھ کر بطور انتقام کے ان پر ہنسیں گے آگے تقریر ہے اس سزا کی یعنی) واقعی کافروں کو انکے کئے کا خوب بدلہ ملا۔- معارف ومسائل - سورة تطفیف حضرت عبداللہ بن مسعود کے قول پر مکی سورت ہے عام مصاحف قرآن میں اسی بنا پر اس کو مکی لکھا ہے اور حضرت ابن عباس، قتادہ، مقاتل، ضحاک کے نزدیک مدنی سورت ہے مگر اس کی صرف آٹھ آیتیں مکی ہیں، امام نسائی نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ طیبہ تشریف لائے تو دیکھا کہ مدینہ کے لوگ جن کے عام معاملات کیل یعنی ناپ کے ذریعہ ہوتے تھے وہ اس معاملہ میں چوری کرنے اور کم ناپنے کے بہت عادی تھے اس پر یہ سورت وَيْلٌ لِّـلْمُطَفِّفِيْنَ نازل ہوئی۔ حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ یہ پہلی سورت ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ طیبہ پہنچتے ہی نازل ہوئی۔ وجہ یہ تھی کہ اہل مدینہ میں یہ رواج اس وقت عام تھا کہ جب خود کسی سے سودا لیتے تو ناپ تول پورا پورا لیتے تھے اور جب دوسروں کو بیچتے تو اس میں کمی اور چوری کیا کرتے تھے۔ اس سورت کے نازل ہونے پر یہ لوگ اس رسم بد سے باز آگئے اور ایسے باز آئے کہ آج تک اہل مدینہ ناپ تول پورا پورا کرنے میں معروف و مشہور ہیں (رواہ الحاکم والنسائی وابن ماجہ بسند صحیح از مظہری) - وَيْلٌ لِّـلْمُطَفِّفِيْنَ ، مطففین تطفیف سے مشتق ہے جس کے معنے ناپ تول میں کمی کرنے کے ہیں اور ایسا کرنے والے کو مطفف کہا جاتا ہے۔ قرآن حکیم کے اس ارشاد سے ثابت ہوا کہ تطفیف کرنا حرام ہے۔- تطفیف صرف ناپ تول ہی میں نہیں بلکہ حقدار کو اس کے حق سے کم دینا کسی چیز میں ہو تطفیف میں داخل ہے - قرآن و حدیث میں ناپ تول میں کمی کرنے کو حرام قرار دیا ہے کیونکہ عام طور سے معاملات کا لین دین انہی دو طریقوں سے ہوتا ہے انہی کے ذریعہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ حقدار کا حق ادا ہوگیا یا نہیں، لیکن یہ معلوم ہے کہ مقصود اس سے ہر ایک حقدار کا حق پورا پورا دینا ہے اس میں کمی کرنا حرام ہے، تو معلوم ہوا کہ یہ صرف ناپ تول کیساتھ مخصوص نہیں بلکہ ہر وہ چیز جس سے کسی کا حق پورا کرنا یا نہ کرنا جانچا جاتا ہے اس کا یہی حکم ہے خواہ ناپ تول سے ہو یا عدد شماری سے یا کسی اور طریقے سے ہر ایک میں حقدار کے حق میں کم دینا بحکم تطفیف حرام ہے۔- موطا امام مالک میں ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نماز کے رکوع سجدے وغیرہ پورے نہیں کرتا جلدی جلدی ختم کر ڈالتا ہے تو اس کو فرمایا لقد طففت یعنی تو نے اللہ کے حق میں تطفیف کردی، فاروق اعظم کے اس قول کو نقل کرکے حضرت امام مالک (رح) نے فرمایا لک شیئٍ وفاء وتطفیف یعنی پورا حق دینا یا کم کرنا ہر چیز میں ہے یہاں تک کہ نماز، وضو طہارت میں بھی اور اسی طرح دوسرے حقوق اللہ اور عبادات میں کمی کوتاہی کرنے والا تطفیف کرنے کا مجرم ہے اسی طرح حقوق العباد میں جو شخص مقررہ حق سے کم کرتا ہے وہ بھی تطفیف کے حکم میں ہے۔ مزدور ملازم نے جتنے وقت کی خدمت کا معاہدہ کیا ہے اس میں سے وقت چرانا اور کم کرنا بھی اس میں داخل ہے۔ وقت کے اندر جس طرح محنت سے کام کرنے کا عرف میں معمول ہے اس میں سستی کرنا بھی تطفیف ہے اس میں عام لوگوں میں یہاں تک کہ اہل علم میں بھی غفلت پائی جاتی ہے، اپنی ملازمت کے فرائض میں کمی کرنے کو کوئی گناہی نہیں سمجھتا۔ اعاذنا اللہ منہ - حدیث حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ خمس بخمس یعنی پانچ گناہوں کی سزا پانچ چیزیں ہیں۔ (١) جو شخص عہد شکنی کرتا ہے اللہ اس پر اس کے دشمن کو مسلط اور غالب کردیتا ہے۔ (٢) جو قوم اللہ کے قانون کو چھوڑ کر دوسرے قوانین پر فیصلے کرتے ہیں ان میں فقرواحتیاج عام ہوجاتا ہے۔ (٣) جس قوم میں بےحیائی اور زنا عام ہوجائے اس پر اللہ تعالیٰ طاعون (اور دوسرے وبائی امراض) مسلط کردیتا ہے۔ (٤) اور جو لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگیں اللہ تعالیٰ ان کو قحط میں مبتلا کردیتا ہے۔ (٥) جو لوگ زکوٰة ادا نہیں کرتے اللہ تعالیٰ ان سے بارش کو روک دیتا ہے (ذکرہ القرطبی وقال خرجو البزار بمعناہ ومالک بن انس ایضا من حدیث ابن عمر) اور طبرانی نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس قوم میں مال غنیمت کی چوری رائج ہوجائے اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں دشمن کا رعب اور ہیبت ڈال دیتے ہیں۔ اور جس قوم میں دبوا یعنی سود خوری کا رواج ہوجائے ان میں موت کی کثرت ہوجاتی ہے اور جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ انکا رزق قطع کردیتے ہیں اور جو لوگ حق کے خلاف فیصلے کرتے ہیں ان میں قتل وخون عام ہوجاتا ہے اور جو لوگ معاہدات میں غداری کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر ان کے دشمن مسلط کردیتا ہے (رواہ مالک موقوفا، ازمظہری) - فقر وفاقہ اور قحط وقطع رزق کو مختلف صورتیں - حدیث میں جن لوگوں کا رزق قطع کردینے کا ارشاد ہے اس کی یہ صورت بھی ہوسکتی ہے کہ اس کو رزق سے بالکل محروم کردیا جائے اور یہ صورت بھی قطع رزق ہی میں داخل ہے کہ رزق موجود ہوتے ہوئے وہ اس کو کھا نہ سکے یا استعمال نہ کرسکے جیسے بہت سی بیماریوں میں اس کا مشاہدہ ہوتا ہے اور اس زمانے میں بہت عام ہے۔ اس طرح قحط کی یہ صورت بھی ہوسکتی ہے کہ اشیاء ضرورت مفقود ہوجائیں، اور یہ بھی ہوسکتی ہے کہ موجود بلکہ کثیر ہونے کے باوجود ان کی گرانی اتنی بڑھ جائے کہ خریداری مشکل ہوجائے جیسا کہ آجکل اس کا مشاہدہ اکثر چیزوں میں ہورہا ہے۔ اور حدیث میں فقر مسلط کرنے کا ارشاد ہے اسکے معنے صرف یہی نہیں کہ روپیہ پیسہ اور ضرورت کی اشیاء اسکے پاس نہ رہیں بلکہ فقر کے اصلی معنے محتاجی اور حاجتمندی کے ہیں۔ ہر شخص اپنے کاروباری اور ضروریات زندگی میں دوسروں کا جتنا محتاج ہو وہ اتنا ہی فقیر ہے۔ اس زمانے کے حالات پر غور کیا جائے تو انسان اپنے رہن سہن اور نقل و حرکت اور اپنے ارادوں کے پورا کرنے میں ایسے ایسے قوانین میں جکڑا ہوا نظر آتا ہے کہ اس کے لقمہ میں کلمہ تک پر پابندیاں ہیں، اپنا مال موجود ہوتے ہوئے خریداری میں آزاد نہیں کہ جہاں سے چاہے کچھ خریدے، سفر میں آزاد نہیں کہ جب کہیں جانا چاہے چلا جائے۔ ایسی ایسی پابندیوں میں انسان جکڑا گیا ہے کہ ہر کام کے لئے دفتر گردی اور افسروں سے لے کر چپراسیوں تک کی خوشامد کئے بغیر زندگی گزارنا مشکل ہے یہ سب محتاجی ہی تو ہے جسکا دوسرا نام فقر ہے۔ اس تفصیل سے وہ شبہات رفع ہوگئے جو حدیث کے ارشاد کے متعلق ظاہری حالات کے اعتبار سے ہوسکتے ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَيْلٌ لِّـلْمُطَفِّفِيْنَ۝ ١ - ويل - قال الأصمعيّ : وَيْلٌ قُبْحٌ ، وقد يستعمل علی التَّحَسُّر .- ووَيْسَ استصغارٌ. ووَيْحَ ترحُّمٌ. ومن قال : وَيْلٌ وادٍ في جهنّم، قال عز وجل : فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ [ البقرة 79] ، وَوَيْلٌ لِلْكافِرِينَ [إبراهيم 2] وَيْلٌ لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الجاثية 7] ، فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا [ مریم 37] ، فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا [ الزخرف 65] ، وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین 1] ، وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ [ الهمزة 1] ، يا وَيْلَنا مَنْ بَعَثَنا[يس 52] ، يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا ظالِمِينَ [ الأنبیاء 46] ، يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا طاغِينَ [ القلم 31] .- ( و ی ل ) الویل - اصمعی نے کہا ہے کہ ویل برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور حسرت کے موقع پر ویل اور تحقیر کے لئے ویس اور ترحم کے ویل کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ اور جن لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ ویل جہنم میں ایک وادی کا نام ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ [ البقرة 79] ان پر افسوس ہے اس لئے کہ بےاصل باتیں اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں اور پھر ان پر افسوس ہے اس لئے کہ ایسے کام کرتے ہیں وَوَيْلٌ لِلْكافِرِينَ [إبراهيم 2] اور کافروں کے لئے سخت عذاب کی جگہ خرابی ہے ۔ ۔ فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا [ الزخرف 65] سو لوگ ظالم ہیں ان کی خرابی ہے ۔ وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین 1] ناپ تول میں کمی کر نیوالا کے لئے کر ابی ہے ۔ وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ [ الهمزة 1] ہر طعن آمیز اشارتیں کرنے والے چغلخور کی خرابی ہے ۔ يا وَيْلَنا مَنْ بَعَثَنا[يس 52]( اے ہے) ہماری خواب گا ہوں سے کسی نے ( جگا ) اٹھایا ۔ يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا ظالِمِينَ [ الأنبیاء 46] ہائے شامت بیشک ہم ظالم تھے ۔ يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا طاغِينَ [ القلم 31] ہائے شامت ہم ہی حد سے بڑھ گئے تھے ۔- طف - الطَّفِيفُ : الشیءُ النَّزْرُ ، ومنه : الطَّفَافَةُ : لما لا يعتدّ به، وطَفَّفَ الكيلَ : قلّل نصیب المکيل له في إيفائه واستیفائه . قال تعالی: وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین 1] .- ( ط ف ف ) الطفیف : کے معنی حقیر اور تھوڑی سی چیز کے ہیں اسی سے ناقابل اعتناء چیز کو طفافۃ کہا جاتا ہے اور طفف الکیل کے معنی ہیں : اس نے پیمانے کو پورا پھر کر نہیں دیا ۔ اسمیں کمی کی قرآن میں ہے ؛وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین 1] ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لئے خرابی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١۔ ٢) رسول اکرم کی تشریف آوری سے پہلے مدینہ والے ماپ تول میں کمی کیا کرتے تھے، جب آپ مدینہ منورہ تشریف لا رہے تھے تب راستہ میں یہ سورت نازل ہوئی کہ ماپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے سخت عذاب ہے، جب لوگوں سے کوئی چیز خریدتے ہیں یا اپنا حق تول کرلیتے ہیں تو خوب پورا وزن کر کے لیتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١ وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ ۔ ” ہلاکت ہے کمی کرنے والوں کے لیے۔ “- وَیْل کے معنی تباہی ‘ بربادی اور ہلاکت کے بھی ہیں اور یہ جہنم کی ایک وادی کا نام بھی ہے۔ ’ طف ‘ لغوی اعتبار سے حقیر سی چیز کو کہا جاتا ہے۔ اسی معنی میں یہ لفظ کم تولنے یا کم ماپنے کے مفہوم میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ مُطَفِّف وہ ہے جو حق دار کو اس کا پورا حق نہیں دیتا بلکہ اس میں کمی کردیتا ہے۔ ظاہر ہے جو شخص ماپ تول میں کمی کرتا ہے وہ اپنے اس عمل کے ذریعے متعلقہ چیز کی بہت تھوڑی سی مقدار ہی ناحق بچا پاتا ہے۔ اس کے باوجود اسے یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ اتنی حقیر سی چیز کے لیے اپنا ایمان فروخت کر رہا ہے ۔ بہرحال اس آیت میں کم تولنے یا کم ماپنے والوں کو آخرت میں بربادی اور جہنم کی نوید سنائی گئی ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُطَفِّفِيْن حاشیہ نمبر :1 اصل لفظ مطففین استعمال کیا گیا ہے جو تطفیف سے مشتق ہے ۔ عربی زبان میں طفیف چھوٹی اور حقیر چیز کے لیے بولتے ہیں اور تطفیف کا لفظ اصطلاحاً ناپ تول میں چوری چھپے کمی کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ یہ کام کرنے والا ناپ کر یا تول کر چیز دیتے ہوئے کوئی بڑی مقدار نہیں اڑاتا بلکہ ہاتھ کی صفائی دکھا کر ہر خریدار کے حصے میں سے تھوڑا تھوڑا اڑاتا رہتا ہے اور خریدار بیچارے کو کچھ پتہ نہیں چلتا کہ تاجر اسے کیا اور کتنا گھاٹا دے گیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani