Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

نعمتوں ، راحتوں اور عزت و جاہ کی جگہ بدکاروں کا حشر بیان کرنے کے بعد اب نیک لوگوں کا بیان ہو رہا ہے کہ ان کا ٹھکانا علیین ہے جو کہ سجین کے بالکل برعکس ہے حضرت ابن عباس نے حضرت کعب سے سجین کا سوال کیا تو فرمایا کہ وہ ساتویں زمین ہے اور اس میں کافروں کی روحیں ہیں اور علیین کے سوال کے جواب میں فرمایا یہ ساتواں آسمان ہے اور اس میں مومنوں کی روحیں ہیں ابن عباس فرماتے ہیں مراد اس سے جنت ہے عوفی آپ سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے اعمال اللہ کے نزدیک آسمان میں ہیں قتادہ فرماتے ہیں یہ عرش کا داہنا پایہ ہے اور لوگ کہتے ہیں یہ سدرۃ المنتہی کے پاس ہے ظاہر یہ ہے کہ لفظ علو یعنی بلندی سے ماخوذ ہے ۔ جس قدر کوئی چیز اونچی اور بلند ہو گی اسی قدر بڑی اور کشادہ ہو گی اس لیے اس کی عظمت و بزرگی کے اظہار کے لیے فرمایا تمہیں اس کی حقیقت معلوم ہی نہیں پھر اس کی تاکید کی کہ یہ یقینی چیز ہے کتاب میں لکھی جا چکی ہے کہ یہ لوگ علیین میں جائیں گے جس کے پاس ہر آسمان کے مقرب فرشتے جاتے ہیں پھر فرمایا کہ قیامت کے دن یہ نیکو کار دائمی والی نعمتوں اور باغات میں ہوں گے یہ مسہریوں پر بیٹھے ہوں گے اپنے ملک و مال نعمتوں راحتوں عزت و جاہ مال و متاع کو دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہے ہوں گے یہ خیر و فضل یہ نعمت و رحمت نہ کبھی کم ہو نہ گم ہو نہ گھٹے نہ مٹے اور یہ بھی معنی ہیں کہ اپنی آرام گاہوں میں تخت سلطنت پر بیٹھے دیدار اللہ سے مشرف ہوتے رہیں گے تو گویا کہ فاجروں کے بالکل برعکس ہوں گے ان پر دیدار باری حرام تھا ان کے لیے ہر وقت اجازت ہے جیسے کہ ابن عمر کی حدیث میں ہے جو پلے بیان ہو چکی کہ سب سے نیچے درجے کا جنتی اپنے ملک اور ملکیت کو دو ہزار سال کی راہ تک دیکھے گا اور سب سے آخر کی چیزیں اس طرح اس کی نظروں کے سامنے ہوں گی جس طرح سب سے اول چیز ۔ اور اعلیٰ درجہ کے جنتی تو دن بھر میں دو دو مرتبہ دیدار باری کی نعمت سے اپنے دل کو مسرور اور اپنی آنکھوں کو پر نور کریں گے ان کے چہرے پر کوئی نظر ڈالے تو بیک نگاہ آسودگی اور خوش حالی جاہ و حشمت شوکت و سطوت خوشی و سرور بہجت و نور دیکھ کر ان کا مرتبہ تاڑ لے اور سمجھ لے کہ راحت و آرام میں خوش و خرم ہیں جنتی شراب کا دور چلتا رہتا ہے رحیق جنت کی ایک قسم کی شراب ہے رسول اللہ صیل اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں جو کسی پیاسے مسلمان کو پانی پلائے گا اللہ تعالیٰ اسے رحیق مختوم پلائے گا یعنی جنت کی مہر والی شراب اور جو کسی بھوکے مسلمان کو کھانا کھلائے اسے اللہ تعالیٰ جنت کے میوے کھلائے گا اور جو کسی ننگے مسلمان کو کپڑا پہنائے اللہ تعالیٰ اسے جنتی سبز ریشم کے جوڑے پہنائے گا ( مسند احمد ) ختام کے معنی ملونی اور آمیزش کے ہیں اسے اللہ نے پاک صاف کر دیا ہے اور مشک کی مہر لگا دی ہے یہ بھی معنی ہیں کہ انجام اس کا مشک ہے یعنی کوئی بدبو نہیں بلکہ مشک کی سی خوشبو ہے چاندی کی طرح سفید رنگ شراب ہے جس قدر مہر لگے گی یا ملاوٹ ہو گی اس قدر خوشبو والی ہے کہ اگر کسی اہل دنیا کی انگلی اس میں تر ہو جائے پھر چاہے اسی وقت اسے وہ نکال لے لیکن تمام دنیا اس کی خوشبو سے مہک جائے اور ختام کے معنی خوشبو کے بھی کیے گئے ہیں پھر فرماتا ہے کہ حرص کرنے والے فخر و مباہات کرنے والے کثرت اور سبقت کرنے والوں کو چاہیے کہ اس کی طرف تمام تر توجہ کریں جیسے اور جگہ ہے آیت ( لِــمِثْلِ ھٰذَا فَلْيَعْمَلِ الْعٰمِلُوْنَ 61؀ ) 37- الصافات:61 ) ایسی چیزوں کے لیے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے تسنیم جنت کی بہترین شراب کا نام ہے یہ ایک نہر ہے جس سے سابقین لوگ تو برابر پیا کرتے ہیں اور داہنے ہاتھ والے اپنی شراب رحیق میں ملا کر پیتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

18۔ 1 عِلَیِئیْنُ ، (بلندی سے ہے یہ عِلَیِئیْنُ کے برعکس، آسمانوں میں یا سدرۃ المُنْتَہٰی یا عرش کے پاس جگہ ہے جہاں نیک لوگوں کی روحیں اور ان کے اعمال نامے محفوظ ہوتے ہیں، جس کے پاس مقرب فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢] فاجر اور ابرار کا لغوی مفہوم :۔ یہاں فجار کے مقابلہ میں ابرار کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ فَجَرَ کے معنی کسی چیز کو وسیع طور پر پھاڑنا اور فجر کو فجر اس لیے کہتے ہیں کہ وہ سارے آسمان پر نمودار ہوجاتی ہے۔ اور فاجر وہ شخص ہے جو وسیع پیمانے پر دین کی نافرمانی کرنے والا ہو اور ہر وقت گناہوں میں منہمک رہتا ہو اور گناہوں سے تائب نہ ہو۔ اس کے مقابلہ میں ابرار ہے۔ برّ کے معنی نیکی، نیکی کے کام اور بر کے معنی وسیع خشک قطعہ زمین ہے گویا بر کے لفظ میں نیکی کے علاوہ وسعت کا تصور بھی پایا جاتا ہے۔ اور بر دراصل نیکی کو نہیں بلکہ ہر دم نیکی پر مائل رہنے والی خصلت کو کہتے ہیں کہ جب کسی نیکی کا موقع آئے اسے فوراً سرانجام دے دیا جائے اور بارّ وہ شخص ہے جو ایسی خصلت رکھتا ہو اور اسی کی جمع ابرار ہے۔- [١٣] یعنی جس طرح سجین بدکردار لوگوں کی ارواح کا قید خانہ اور ان کے اعمالناموں کے جمع ہونے کا دفتر ہے۔ اسی طرح علیین ابرار کی ارواح کا مستقر ہے اور ان کے اعمالنامے اسی مقام پر محفوظ رکھے جاتے ہیں۔ بعض اسلاف کے قول کے مطابق یہ مقام سات آسمانوں کے اوپر ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(کلا ان کتب الابرار…:” کلا “ یعنی یہ بات ہرگز نہیں کہ نافرمانوں کا یہ حال ہوگا تو نیکوں سے بھی یہی سلوک ہو۔” علیین “ اور ” علیون “ ” علی “ کی جمع ہیں جو ” علو “ سے مبالغے کا صیغہ ہے۔ اس کا معنی ہے ” بہت سی اونچا شخص “ اور ” علیون “ کا معنی ہے ” بہت ہی اونچے لوگ۔ “ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق یہ ایک کتاب ہے جس میں نیک لوگوں کے نام اور ان کے اعمال واضح طور پر لکھے ہوئے ہیں، ان میں کوئی رد و بدل یا کمی بیشی ممکن نہیں۔ ” یشھدہ المقزبون “ یعنی اس کی نگراین کے لئے مقرب فرشتے حاضر رہتے ہیں۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ چونکہ وہ نیک لوگوں کا دفتر ہے، اس لئے اس کو دیکھنے کے لئے انھی مقرب لوگوں کو وہاں حاضر ہونے کی اجازت ہے جن کا وہ دفتر ہے۔ اس صورت میں ابرارہی مقرب ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) كَلَّآ اِنَّ كِتٰبَ الْاَبْرَارِ لَفِيْ عِلِّيِّيْنَ ، علیین بعض حضرات کے نزدیک علو کی جمع ہے اور مراد اعلیٰ درجہ کا علو اور بلندی ہے اور فراء کے نزدیک یہ ایک موقع کا نام ہے وزن جمع پر آیا ہے جمع نہیں، اور لفظ سبحین کی تحقیق میں اوپر گزرچکا ہے کہ حضرت براء بن عازب کی مرفوع روایت سے ثابت ہے کہ علیین ساتویں آسمان پر زیر عرش ایک مقام ہے جس میں مومنین کی ارواح اور اصحائف اعمال رکھے جاتے ہیں، اور آگے جو کتب مرقوم مذکور ہے یہ بھی علیین کی تفسیر نہیں بلکہ ابرار کے نامہ اعمال کا بیان ہے جسکا ذکر اوپر ان کتب الابرار میں آیا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

كَلَّآ اِنَّ كِتٰبَ الْاَبْرَارِ لَفِيْ عِلِّيِّيْنَ۝ ١٨ ۭ- كلا - كَلَّا : ردع وزجر وإبطال لقول القائل، وذلک نقیض «إي» في الإثبات . قال تعالی: أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم 77- 79] وقال تعالی: لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون 100] إلى غير ذلک من الآیات، وقال : كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس 23] .- کلا یہ حرف روع اور زجر ہے اور ماقبل کلام کی نفی کے لئے آتا ہے اور یہ ای حرف ایجاب کی ضد ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں ہے ۔ أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم 77- 79] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں سے کفر کیا ۔ اور کہنے لگا اگر میں ازسر نو زندہ ہوا بھی تو یہی مال اور اولاد مجھے وہاں ملے گا کیا اس نے غیب کی خبر پالی ہے یا خدا کے یہاں ( سے ) عہد لے لیا ہے ہر گز نہیں ۔ لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون 100] تاکہ میں اس میں جسے چھوڑ آیا ہوں نیک کام کروں ہرگز نہیں ۔ كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس 23] کچھ شک نہیں کہ خدا نے سے جو حکم دیا ۔ اس نے ابھی تک اس پر عمل نہیں کیا ۔ اور اس نوع کی اور بھی بہت آیات ہیں ۔- برَّ- البَرُّ خلاف البحر، وتصوّر منه التوسع فاشتق منه البِرُّ ، أي : التوسع في فعل الخیر، وينسب ذلک إلى اللہ تعالیٰ تارة نحو : إِنَّهُ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِيمُ [ الطور 28] ، وإلى العبد تارة، فيقال : بَرَّ العبد ربه، أي : توسّع في طاعته، فمن اللہ تعالیٰ الثواب، ومن العبد الطاعة . وذلک ضربان :- ضرب في الاعتقاد . وضرب في الأعمال، وقد اشتمل عليه قوله تعالی: لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ [ البقرة 177] وعلی هذا ما روي «أنه سئل عليه الصلاة والسلام عن البرّ ، فتلا هذه الآية» «1» . فإنّ الآية متضمنة للاعتقاد والأعمال الفرائض والنوافل . وبِرُّ الوالدین : التوسع في الإحسان إليهما، وضده العقوق، قال تعالی: لا يَنْهاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ [ الممتحنة 8] ، ويستعمل البِرُّ في الصدق لکونه بعض الخیر المتوسع فيه، يقال : بَرَّ في قوله، وبرّ في يمينه، وقول الشاعر :- أكون مکان البرّ منه«2» قيل : أراد به الفؤاد، ولیس کذلک، بل أراد ما تقدّم، أي : يحبّني محبة البر . ويقال : بَرَّ أباه فهو بَارٌّ وبَرٌّ مثل : صائف وصیف، وطائف وطیف، وعلی ذلک قوله تعالی: وَبَرًّا بِوالِدَتِي [ مریم 32] . وبَرَّ في يمنيه فهو بَارٌّ ، وأَبْرَرْتُهُ ، وبَرَّتْ يميني، وحجّ مَبْرُور أي : مقبول، وجمع البارّ : أَبْرَار وبَرَرَة، قال تعالی: إِنَّ الْأَبْرارَ لَفِي نَعِيمٍ [ الانفطار 13] ، وقال : كَلَّا إِنَّ كِتابَ الْأَبْرارِ لَفِي عِلِّيِّينَ [ المطففین 18] ، وقال في صفة الملائكة : كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس 16] فَبَرَرَةٌ خصّ بها الملائكة في القرآن من حيث إنه أبلغ من أبرار «1» ، فإنه جمع برّ ، وأبرار جمع بار، وبَرٌّ أبلغ من بَارٍّ ، كما أنّ عدلا أبلغ من عادل .- والبُرُّ معروف، وتسمیته بذلک لکونه أوسع ما يحتاج إليه في الغذاء، والبَرِيرُ خصّ بثمر الأراک ونحوه، وقولهم : لا يعرف الهرّ من البرّ «2» ، من هذا . وقیل : هما حكايتا الصوت . والصحیح أنّ معناه لا يعرف من يبرّه ومن يسيء إليه . والبَرْبَرَةُ : كثرة الکلام، وذلک حكاية صوته .- ( ب رر)- البر یہ بحر کی ضد ہے ( اور اس کے معنی خشکی کے ہیں ) پھر معنی دسعت کے اعتبار سے اس سے البر کا لفظ مشتق کیا گیا ہے جس کے معنی وسیع پیمانہ پر نیکی کرنا کے ہیں اس کی نسبت کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف ہوتی ہے جیسے إِنَّهُ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِيمُ [ الطور 28] بیشک وہ احسان کرنے والا مہربان ہے ۔ اور کبھی بندہ کی طرف جیسے بدالعبدربہ ( یعنی بندے نے اپنے رب کی خوب اطاعت کی ) چناچہ جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ طرف ہو تو اس کے معنی ثواب عطاکرنا ہوتے ہیں اور جب بندہ کی طرف منسوب ہو تو اطاعت اور فرمانبرداری کے البر ( نیکی ) دو قسم پر ہے اعتقادی اور عملی اور آیت کریمہ ؛۔ لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ [ البقرة 177] ( آلایۃ ) دونوں قسم کی نیکی کے بیان پر مشتمل ہے ۔ اسی بنا ہر جب آنحضرت سے بد کی تفسیر دریافت کی گئی ثو آن جناب نے جوابا یہی آیت تلاوت فرمائی کیونکہ اس آیت میں عقائد و اعمال فرائض و نوافل کی پوری تفصیل بتائی جاتی ہے ۔ برالوالدین کے معنی ہیں ماں اور باپ کے ساتھ نہایت اچھا برتاؤ اور احسان کرنا اس کی ضد عقوق ہے ۔ قرآں میں ہے ۔ لا يَنْهاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ [ الممتحنة 8] جن لوگون میں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی ۔۔۔ کرنے سے خدا تم کو منع نہیں کرتا ہے ۔ اور بد کے معنی سچائی بھی آتے ہیں کیونکہ یہ بھی خیر ہے جس میں وسعت کے معنی پائے جانے ہیں چناچہ محاورہ ہے ؛۔ برفی یمینہ اس نے اپنی قسم پوری کردکھائی اور شاعر کے قول (43) اکون مکان البر منہ ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ بد بمعنی فؤاد یعنی دل ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ یہاں بھی بد بمعنی نیکی ہے یعنی میرا مقام اس کے ہاں بمنزلہ بر کے ہوگا ۔ بر اباہ فھو بار و بر صیغہ صفت جو کہ صائف وصیف وطائف وطیف کی مثل دونوں طرح آتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَبَرًّا بِوالِدَتِي [ مریم 32] اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے والے تھے ۔ اور مجھے اپنی ماں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ( بنا) بر فی یمینہ فھوباز ابررتہ قسم پوری کرنا ۔ برت یمینی میری قسم پوری ہوگئی ۔ حج مبرور حج جس میں رفت وفسق اور جدال نہ ہو ۔ البار کی جمع ابرار وبررۃ آتی ہے قرآن میں ہے ۔ إِنَّ الْأَبْرارَ لَفِي نَعِيمٍ [ الانفطار 13] بیشک نیکو کار نعمتوں ( کی بہشت ) میں ہوں گے ۔ كَلَّا إِنَّ كِتابَ الْأَبْرارِ لَفِي عِلِّيِّينَ [ المطففین 18] اور یہ بھی سن رکھو کہ نیکو کاروں کے اعمال علیین میں ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس 16] . جو سردار اور نیکو کار ہیں ۔ میں خاص کر فرشتوں کو بررۃ کہا ہے کیونکہ ابرار ( جمع ) زیادہ بلیغ ہے ۔ اس لئے کہ بررۃ ، بر کی بنسبت عدل میں مبالغہ پایا جاتا ہے اسی طرح بد میں بار سے زیادہ مبالغہ ہے البر یر خاص کر پیلو کے درخت کے پھل کو کہتے ہیں عام محاورہ ہے : فلان لایعرف البر من الھر ( وہ چوہے اور بلی میں تمیز نہیں کرسکتا ) بعض نے کہا ہے کہ یہ دونوں لفظ حکایت کی صورت کے طور پر بولے جاتے ہیں مگر اس محاورہ کے صحیح معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے خیر خواہ اور بدخواہ میں امتیاز نہیں کرسکتا ۔ البربرۃ بڑبڑ کرنا یہ بھی حکایت صورت کے قبیل سے ہے ۔.- عِلِّيِّينَ- وقوله : لَفِي عِلِّيِّينَ [ المطففین 18] ، فقد قيل هو اسم أشرف الجنان کما أنّ سجّينا اسم شرّ النّيران، وقیل : بل ذلک في الحقیقة اسم سكّانها، وهذا أقرب في العربيّة، إذ کان هذا الجمع يختصّ بالناطقین، قال : والواحد عِلِّيٌ نحو بطّيخ . ومعناه : إن الأبرار في جملة هؤلاء فيكون ذلک کقوله : فَأُولئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ [ النساء 69] ، الآية .- وباعتبار العلوّ قيل للمکان المشرف وللشّرف - علی علیا کی جمع ہے اور علیا اعلٰی کی تانیث ہے اور معنی یہ ہیں کہ آسمان اس دنیا سے اشرف و افضل ہیں جیسے فرمایا : ۔ أَأَنْتُمْ أَشَدُّ خَلْقاً أَمِ السَّماءُ بَناها [ النازعات 27] بھلا تمہارا بنانا آسان ہے یا آسمان کا اسی نے اس کو بنایا ۔ اور آیت کریمہ ؛ ۔ لَفِي عِلِّيِّينَ [ المطففین 18] علین میں ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ علین جنت میں سب سے اعلٰی مقام کا نام ہے جس طرح کہ سجین دو زخ میں سب سے زیادہ تکلیف وہ طبقہ کا نام ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ دراصل اس کا اطلاق جنتی لوگوں پر ہوتا ہے اور قواعد عربی کے لحاظ سے یہی معنی اقرب الی الصوب معلوم ہوتے ہیں کیونکہ یہ جمع ( جمع سالم ) ذوی العقول کے ساتھ مختص ہے اور یہ علی بر وزن بطیخ کی جمع ہے اور یہ ہیں کہ ابرار بھی علین لوگوں کے زمرہ میں شامل ہون گے جیسے فرمایا : ۔ فَأُولئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ [ النساء 69] الایۃ وہ قیامت کے روز ان لوگوں کے ستاھ ہوں گے جن پر خدا نے بڑا فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیق الخ ۔۔۔۔۔۔ اور معنی علو کے لحاظ سے بلند مقام کو اور بلندی کو علیاء کہا جاتا ہے اور علیہ اصل میں تو عالیۃ کی تصغیر ہے لیکن عرف میں بالا خانہ کو علیۃ کہا جاتا ہے اس کی جمع علالی بر وزن فعالیل ہے تعالیٰ النھار دن بلند ہوگیا عالیۃ الرمح سنان ( بڑے نیزے ) سے چھوٹا نیزہ ۔ عالیۃ الندینۃ مدینہ کی اعلٰی جانب اس کی جمع عوال ہے اسی سے کہا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُطَفِّفِيْن حاشیہ نمبر :9 یعنی ان لوگوں کا یہ خیال غلط ہے کہ کوئی جزا و سزا واقع ہونے والی نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

3: علیّین کے لفظی معنیٰ بالا خانوں کے ہیں۔ یہ اُس جگہ کا نام ہے جہاں مومنوں کی رُوحیں مرنے کے بعد بھیجی جاتی ہیں، اور وہیں پر اُن کا اعمال نامہ بھی رہتا ہے۔