Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(فالیوم الذین امنوا…: یعنی قیامت کے دن معاملہ الٹ ہوجائے گا، اب اہل ایمان کفار پر ہسنتے ہوں گے کہ یہ لوگ کس درجہ احمق تھے کہ خود گمراہ ہونے کے باوجود ہمیں گمراہ کہتے تھے اور واضح دلائل کے باوجود نہ انہوں نے پیدا کرنے والے کا حق پہچانا اور نہ آخرت کی فکر کی اور یہ جانتے ہوئے بھی دنیا کی لذتوں میں مست رہے کہ یہ عارضی ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَالْيَوْمَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُوْنَ۝ ٣٤ ۙ- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- ضحك - الضَّحِكُ : انبساطُ الوجه وتكشّر الأسنان من سرور النّفس، ولظهور الأسنان عنده سمّيت مقدّمات الأسنان الضَّوَاحِكِ. - قال تعالیٰ “ وَامْرَأَتُهُ قائِمَةٌ فَضَحِكَتْ [هود 71] ، وضَحِكُهَا کان للتّعجّب بدلالة قوله : أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ [هود 73] ، ويدلّ علی ذلك أيضا قوله : أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ إلى قوله : عَجِيبٌ [هود 72] ، وقول من قال : حاضت، فلیس ذلک تفسیرا لقوله : فَضَحِكَتْ كما تصوّره بعض المفسّرين «1» ، فقال : ضَحِكَتْ بمعنی حاضت، وإنّما ذکر ذلک تنصیصا لحالها، وأنّ اللہ تعالیٰ جعل ذلک أمارة لما بشّرت به، فحاضت في الوقت ليعلم أنّ حملها ليس بمنکر، إذ کانت المرأة ما دامت تحیض فإنها تحبل،- ( ض ح ک ) الضحک - ( س) کے معنی چہرہ کے انبساط اور خوشی سے دانتوں کا ظاہر ہوجانا کے ہیں اور ہنستے وقت چونکہ سامنے کے دانت ظاہر ہوجاتے ہیں اس لئے ان کو ضواحک کہاجاتا ہے اور بطور استعارہ ضحک بمعنی تمسخر بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ ضحکت منہ کے معنی ہیں میں نے اس کا مذاق اڑایا اور جس شخص کا لوگ مذاق اڑائیں اسے ضحکۃ اور جو دوسروں کا مذاق اڑائے اسے ضحکۃ ( بفتح الحاء ) کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَامْرَأَتُهُ قائِمَةٌ فَضَحِكَتْ [هود 71] اور حضرت ابراہیم کی بیوی ( جوپ اس ) کھڑیتی ہنس پڑی ۔ میں ان کی بیوی ہنسنا تعجب کی بنا پر تھا جیسا کہ اس کے بعد کی آیت : أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ [هود 73] کیا خدا کی قدرت سے تعجب کرتی ہو سے معلوم ہوتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ : أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ إلى قوله : عَجِيبٌ [هود 72] اسے ہے میرے بچو ہوگا ؟ میں تو بڑھیا ہوں ۔۔۔۔ بڑی عجیب بات ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ اور جن لوگوں نے یہاں ضحکت کے معنی حاضت کئے ہیں انہوں نے ضحکت کی تفسیر نہیں کی ہے ۔ جیسا کہ بعض مفسرین نے سمجھا سے بلکہ اس سے حضرت ابراہیم کی بیوی کی حالت کا بیان کرنا مقصود ہے کہ جب ان کو خوشخبری دی گئی تو بطور علامت کے انہیں اسی وقت حیض آگیا ۔ تاکہ معلوم ہوجائے کہ ان کا حاملہ ہونا بھی کچھ بعید نہیں ہے ۔ کیونکہ عورت کو جب تک حیض آتا ہے وہ حاملہ ہوسکتی ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani