انتہائی المناک اور دکھ درد کی جگہ مطلب یہ ہے کہ برے لوگوں کا ٹھکانا سجین ہے یہ لفظ فعیل کے وزن پر سجن سے ماخوذ ہے سجن کہتے ہیں لغتا تنگی کو ضییق شریب خمیر سکیر وغیرہ کی طرح یہ لفظ بھی سجین ہے پھر اس کی مزید برائیاں بیان کرنے کے لیے فرمایا کہ تمہیں اس کی حقیقت معلوم نہیں وہ المناک اور ہمیشہ کے دکھ درد کی جگہ ہے مروی ہے کہ یہ جگہ ساتوں زمینوں کے نیچے ہے حضرت براء بن عازب کی ایک مطول حدیث میں یہ گزر چکا ہے کہ کافر کی روح کے بارے میں جناب باری ارشاد ہوتا ہے کہ اس کی کتاب سجین میں لکھ لو اور سجین ساتویں زمین کے نیچے ہے کہا گیا ہے کہ یہ ساتویں زمین کے نیچے سبز رنگ کی ایک چٹان ہے اور کہا گیا ہے کہ جہنم میں ایک گڑھا ہے ابن جریر کی ایک غریب منکر اور غیر صحیح حدیث میں ہے کہ فلق جہنم کا ایک منہ بند کردہ کنواں ہے اور سجین کھلے منہ والا گڑھا ہے صحیح بات یہ ہے کہ اس کے معنی ہیں تنگ جگہ جیل خانہ کے نیچے کی مخلوق میں تنگی ہے اور اوپر کی مخلوق میں کشادگی آسمانوں میں ہر اوپر والا آسمان نیچے والے آسمان سے کشادہ ہے اور زمینوں میں ہر نیچے کی زمین اوپر کی زمین سے تنگ ہے یہاں تک کہ بالکل نیچے کی تہہ بہت تنگ ہے اور سب سے زیادہ تنگ جگہ ساتویں زمین کا وسطی مرکز ہے چونکہ کافروں کے لوٹنے کی جگہ جہنم ہے اور وہ سب سے نیچے ہے ۔ اور جگہ ہے آیت ( ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ Ĉۙ ) 95- التين:5 ) یعنی ہم نے اسے پھر نیچوں کا نیچ کر دیا ہاں جو ایمان والے اور نیک اعمال والے ہیں غرض سجین ایک تنگ اور تہہ کی جگہ ہے جیسے قرآن کریم نے اور جگہ فرمایا ہے آیت ( وَاِذَآ اُلْقُوْا مِنْهَا مَكَانًا ضَيِّقًا مُّقَرَّنِيْنَ دَعَوْا هُنَالِكَ ثُبُوْرًا 13ۭ ) 25- الفرقان:13 ) جب وہ جہنم کی کسی تنگ جگہ میں ہاتھ پاؤں جکڑ کر ڈال دئیے جائیں گے تو وہاں موت ہی موت پکاریں گے ۔ کتاب مرقوم یہ سجین کی تفسیر نہیں بلکہ یہ اس کی تفسیر ہے جو ان کے لیے لکھا جا چکا ہے کہ آخرش جہنم میں پہنچیں گے ان کا یہ نتیجہ لکھا جا چکا ہے اور اس سے فراغت حاصل کر لی گئی ہے نہ اب اس میں کچھ زیادتی ہو نہ کمی ، تو فرمایا ان کا انجام سجین ہونا ہماری کتاب میں پہلے سے ہی لکھا جا چکا ہے ان جھٹلانے والوں کی اس دن خرابی ہو گی انہیں جہنم کا قید خانہ اور رسوائی والے المناک عذاب ہوں گے ویل کی مکمل تفسیر اس سے پہلے گزر چکی ہے خلاصہ مطلب یہ ہے کہ ان کی ہلاکی بربادی اور خرابی ہے جیسے کہا جاتا ہے ویل لفلان مسند اور سنن کی حدیث میں ہے ویل ہے اس شخص کے لیے جو کوئی جھوٹی بات کہہ کر لوگوں کو ہنسانا چاہے اور اسے ویل ہے اسے ویل ہے پھر ان جھٹلانے والے بدکار کافروں کی مزید تشریح کی اور فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو روز جزاء کو نہیں مانتے اسے خلاف عقل کہہ کر اس کے واقع ہونے کو محال جانتے ہیں پھر فرمایا کہ قیامت کا جھٹلانا انہی لوگوں کا کام ہے جو اپنے کاموں میں حد سے بڑھ جائیں اسی طرح اپنے اقوال میں گنہگار ہوں جھوٹ بولیں وعدہ خلافی کریں گالیاں بکیں وغیرہ یہ لوگ ہیں کہ ہماری آیتوں کو سن کر انہیں جھٹلاتے ہیں بدگمانی کرتے ہیں اور کہہ گزرتے ہیں کہ پہلی کتابوں سے کچھ جمع اکٹھا کر لیا ہے جیسے اور جگہ فرمایا آیت ( وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ مَّاذَآ اَنْزَلَ رَبُّكُمْ ۙ قَالُوْٓا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ 24ۙ ) 16- النحل:24 ) جب انہیں کہا جاتا ہے کہ تمہارے رب نے کیا کچھ نازل فرمایا تو کہتے ہیں اگلوں کے افسانے ہیں اور جگہ ہے آیت ( وقالوا اساطیر الاولین کتتبھا فھی تملی علیہ بکرۃ وعشیا ) یعنی یہ کہتے ہیں کہ اگلوں کے قصے ہیں جو اسے صبح شام لکھوائے جا رہے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں جواب میں فرماتا ہے کہ واقعہ ان کے قول اور ان کے خیال کے مطابق نہیں بلکہ دراصل یہ قرآن کلام الٰہی ہے اس کی وحی ہے جو اس نے اپنے بندے پر نازل کی ہے ہاں ان کے دلوں پر ان کے بداعمال نے پردے ڈال دئیے ہیں گناہوں اور خطاؤں کی کثرت نے ان کے دلوں کو زنگ آلود کر دیا ہے کافروں کے دلوں پر رین ہوتا ہے اور نیک کار لوگوں کے دلوں پر غیم ہوتا ہے ترمذی نسائی ابن ماجہ وغیرہ میں رسول اللہ صیل اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ بندہ جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نکتہ ہو جاتا ہے اگر توبہ کر لیتا ہے تو اس کی صفائی ہو جاتی ہے اور اگر گناہ کرتا ہے تو وہ سیاہی پھیلتی جاتی ہے اسی کا بیان کلا بل ران میں ہے نسائی کے الفاظ میں کچھ اختلاف بھی ہے مسند احمد میں بھی یہ حدیث ہے حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کا فرمان ہے کہ گناہوں پر گناہ کرنے سے دل اندھا ہو جاتا ہے اور پھر مر جاتا ہے پھر فرمایا کہ یہ لوگ ان عذابوں میں مبتلا ہو کر دیدار باری سے بھی محروم اور محجوب کر دئیے جائیں گے حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس میں دلیل ہے کہ مومن قیامت کے دن دیدار باری تعالیٰ سے مشرف ہوں گے امام صاحب کا یہ فرمان بالکل درست ہے اور آیت کا صاف مفہوم یہی ہے اور دوسری جگہ کھلے الفاظ میں بھی یہ بیان موجود ہے فرمان ہے آیت ( وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ نَّاضِرَةٌ 22ۙ ) 75- القيامة:22 ) یعنی اس دن بہت سے چہرے تروتازہ ہوں گے اور اپنے رب کو دیکھ رہے ہوں گے صحیح اور متواتر احادیث سے بھی یہ ثابت ہے کہ ایمان دار قیامت والے دن اپنے رب عز و جل کو اپنی آنکھوں سے قیامت کے میدان میں اور جنت کے نفیس باغیچوں میں دیکھیں گے حضرت حسن فرماتے ہیں کہ حجاب ہٹ جائیں گے اور مومن اپنے رب کو دیکھیں گے اور کافر پھر کافروں کو پردوں کے پیچھے کر دیا جائیگا البتہ مومن ہر صبح و شام پروردگار عالم کا دیدار حاصل کریں گے یا اسی جیسا اور کلام ہے پھر فرماتا ہے کہ برے لوگ نہ صرف دیدار الٰہی سے ہی محروم رہیں گے بلکہ یہ لوگ جہنم میں جھونک دئیے جائیں گے اور انہیں حقارت ذلت اور ڈانٹ ڈپٹ کے طور پر غصہ کے ساتھ کہا جائیگا کہ یہی وہ جسے تم جھٹلاتے رہے ۔
7۔ 1 سِجِیْن بعض کہتے ہیں سِجْن (قید خانہ) سے ہے، مطلب ہے کہ قید خانہ کی طرح ایک نہایت تنگ مقام ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ زمین کے سب سے نچلے حصے میں ایک جگہ ہے، جہاں کافروں، ظالموں اور مشرکوں کی روحیں اور ان کے اعمال نامے جمع اور محفوظ ہوتے ہیں۔ اسی لئے آگے اسے لکھی ہوئی کتاب قرار دی ہے۔
[٥] یعنی تمہارا یہ خیال باطل ہے کہ نہ قیامت آنی ہے اور نہ تمہارا محاسبہ ہونا ہے۔ بلکہ تمہارا محاسبہ ہوگا اور ضرور ہوگا۔- [٦] سجین۔ سجن بمعنی قید خانہ، جیل اور سجن بمعنی عدالت کا ثبوت جرم کے بعد بطور سزا کسی کو قید میں ڈال دینا۔ اور سجین سے مراد وہ مقام یا دفتر ہے جہاں بدکردار لوگوں کے اعمال نامے بھی محفوظ کرلیے جاتے ہیں اور ایسے لوگوں کی ارواح بھی تاقیام قیامت اسی مقام پر قید رکھی جاتی ہیں۔ بعض اسلاف کے نزدیک یہ مقام سات زمینوں کے نیچے ہے۔
(کلا ان کتب الفجار لفی سجین…:” کلا “ یعنی یہ بات ہرگز نہیں کہ تم جس طرح چاہو اللہ کے احکام کی نافرمانی کرتے ہوئے ماپ تول میں کمی کرتے رہو اور وہ وقت ہی نہ آئے کہ تم سے اس ظلم کے متعلق باز پرس ہو۔ نہیں، بلکہ نافرمان لوگوں کا اعمال نامہ سجین میں ہے۔” سجین “ ” سجن “ سے مبالغہ ہے، جس کا معنی قید خانہ ہے۔ ق اسوس میں ہے ” السجین الدائم الشدید “ یعنی دائمی قید ۔ یہ وہ کتاب ہے جس میں ہمیشہ جہنم میں رہنے والوں کے نام اور ان کے اعمال محفوظ ہیں (گویا یہ دائمی قید والوں کا رجسٹر ہے) ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود ” سجین “ کی وضاحت کی ہے کہ وہ ” کتب مرقوم “ یعنی ایک واضح لکھی ہوئی کتاب ہے، جس میں کوئی کمی بیشی یا رد و بدل نہیں ہوسکتا کہ کوئی نام یا عمل داخل کردیا جائے یا مٹا دیا جائے۔” ویل یومئذ للمکذبین “ سے معلوم ہوا کہ ماپ تول میں کمی کرنے والے درحقیقت قیامت کے دن پر ایمان نہ رکھنے کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔
سبحین اور علیین - كَلَّآ اِنَّ كِتٰبَ الْفُجَّارِ لَفِيْ سِجِّيْنٍ ، سجین، بکسر سین وتشدید جیم بروزن سکین و سجن سے مشتق ہے جس کے معنے تنگ جگہ میں قید کرنے کے ہیں۔ قاموس میں ہے کہ سجین کے معنے دائمی قید کے ہیں اور احادیث وآثار سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سجین ایک مقام خاص کا نام ہے اور کفار فجار کی ارواح کا مقام یہی ہے اور اسی مقام میں انکے اعمال نامے رہتے ہیں، جسکا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے اعمالنامے اس جگہ میں محفوظ کردیئے جاتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس جگہ کوئی ایسی کتاب جامع ہو جس میں تمام دنیا کے کفار و فجار کے اعمال لکھدیئے جاتے ہیں۔- یہ مقام کس جگہ ہے اس کے متعلق حضرت برا بن عازب کی طویل حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سبحین ساتویں زمین کے نچلے طبق میں ہے اور علیین ساتویں آسمان میں زیر عرش ہے (اخرجہ البغوی بسندہ واخرجہ احمد وغیرہ از مظہری) بعض روایات حدیث میں یہ بھی ہے کہ سبحین کفار و فجار کی ارواح کا مستقر ہے اور علیین، مومین مستقین کی اروح کی جگہ ہے۔ جنت اور دوزخ کا مقام - بیہقی نے دلائل نبوت میں حضرت عبداللہ بن سلام سے روایت کیا ہے کہ جنت آسمان میں ہے جہنم زمین میں، اور ابن جریر نے اپنی تفسیر میں حضرت معاذ بن جبل سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وال کیا گیا کہ قرآن کریم میں جو یہ آیا ہے کہ قیامت کے روز جہنم کو لایا جائے گا وجا یومئذ بجھنم اس کا مطلب کیا ہے، جہنم کو کہاں سے لایا جائے گا تو آپ نے فرمایا کہ جہنم کو ساتویں زمین سے لایا جائے گا۔ ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جہنم ساتویں زمین میں ہے وہیں سے بھڑک کر سارے سمندر اور دریا اس کی آگ میں شامل ہوجائیں گے اور سب کے سامنے آجائے گی۔ جہنم کے لائے جانیکا یہ بھی مطلب ہوسکتا ہے۔ اس طرح جن روایات میں یہ آیا ہے کہ سبحین جہنم کے ایک مقام کا نام ہے وہ بھی اس پر منطبق ہوگا ی، (مظہری) واللہ اعلم
كَلَّآ اِنَّ كِتٰبَ الْفُجَّارِ لَفِيْ سِجِّيْنٍ ٧ ۭ- كلا - كَلَّا : ردع وزجر وإبطال لقول القائل، وذلک نقیض «إي» في الإثبات . قال تعالی: أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم 77- 79] وقال تعالی: لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون 100] إلى غير ذلک من الآیات، وقال : كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس 23] .- کلا یہ حرف روع اور زجر ہے اور ماقبل کلام کی نفی کے لئے آتا ہے اور یہ ای حرف ایجاب کی ضد ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں ہے ۔ أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم 77- 79] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں سے کفر کیا ۔ اور کہنے لگا اگر میں ازسر نو زندہ ہوا بھی تو یہی مال اور اولاد مجھے وہاں ملے گا کیا اس نے غیب کی خبر پالی ہے یا خدا کے یہاں ( سے ) عہد لے لیا ہے ہر گز نہیں ۔ لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون 100] تاکہ میں اس میں جسے چھوڑ آیا ہوں نیک کام کروں ہرگز نہیں ۔ كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس 23] کچھ شک نہیں کہ خدا نے سے جو حکم دیا ۔ اس نے ابھی تک اس پر عمل نہیں کیا ۔ اور اس نوع کی اور بھی بہت آیات ہیں ۔- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - فجر - الْفَجْرُ : شقّ الشیء شقّا واسعا كَفَجَرَ الإنسان السّكرَيقال : فَجَرْتُهُ فَانْفَجَرَ وفَجَّرْتُهُ فَتَفَجَّرَ. قال تعالی: وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر 12] ، وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف 33] ، فَتُفَجِّرَ الْأَنْهارَ [ الإسراء 91] ، تَفْجُرَ لَنا مِنَ الْأَرْضِ يَنْبُوعاً- [ الإسراء 90] ، وقرئ تفجر . وقال : فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتا عَشْرَةَ عَيْناً [ البقرة 60] ، ومنه قيل للصّبح : فَجْرٌ ، لکونه فجر اللیل . قال تعالی: وَالْفَجْرِ وَلَيالٍ عَشْرٍ [ الفجر 1- 2] ، إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كانَ مَشْهُوداً [ الإسراء 78] ، وقیل : الفَجْرُ فجران : الکاذب، وهو كذَنَبِ السَّرْحان، والصّادق، وبه يتعلّق حکم الصّوم والصّلاة، قال : حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيامَ إِلَى اللَّيْلِ [ البقرة 187] .- ( ف ج ر ) الفجر - کے معنی کسی چیز کو وسیع طور پر پھا ڑ نے اور شق کردینے کے ہیں جیسے محاورہ ہے فجر الانسان السکری اس نے بند میں وسیع شکاف ڈال دیا فجرتہ فانفجرتہ فتفجر شدت کے ساتھ پانی کو پھاڑ کر بہایا قرآن میں ہے : ۔ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر 12] اور زمین میں چشمے جاری کردیئے ۔ وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف 33] اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی اور اس کے بیچ میں نہریں بہا نکالو ۔ تَفْجُرَ لَنا مِنَ الْأَرْضِ يَنْبُوعاً [ الإسراء 90] جب تک کہ ہمارے لئے زمین میں سے چشمے جاری ( نہ) کردو ۔ اور ایک قرآت میں تفجر ( بصیغہ تفعیل ) ہے ۔ فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتا عَشْرَةَ عَيْناً [ البقرة 60] تو پھر اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے ۔ اور اسی سے - صبح کو فجر کہا جاتا ہے - کیونکہ صبح کی روشنی بھی رات کی تاریکی کو پھاڑ کر نمودار ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَالْفَجْرِ وَلَيالٍ عَشْرٍ [ الفجر 1- 2] فجر کی قسم اور دس راتوں کی ۔ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كانَ مَشْهُوداً [ الإسراء 78] کیونکہ صبح کے وقت قرآن پڑھنا موجب حضور ( ملائکہ ) ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ فجر دو قسم پر ہے ایک فجر کا ذب جو بھیڑیئے کی دم کی طرح ( سیدھی روشنی سی نمودار ہوتی ہے دوم فجر صادق جس کے ساتھ نماز روزہ وغیرہ احکام تعلق رکھتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيامَ إِلَى اللَّيْلِ [ البقرة 187] یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری رات کی ) سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے پھر روزہ ( رکھ کر ) رات تک پورا کرو - سِّجِّينُ :- اسم لجهنم، بإزاء علّيّين، وزید لفظه تنبيها علی زيادة معناه، وقیل :- هو اسم للأرض السابعة قال : لَفِي سِجِّينٍ وَما أَدْراكَ ما سِجِّينٌ [ المطففین 7- 8] ، وقد قيل : إنّ كلّ شيء ذكره اللہ تعالیٰ بقوله : وَما أَدْراكَ فسّره، وكلّ ما ذکر بقوله :- وَما يُدْرِيكَ تركه مبهما وفي هذا الموضع ذکر : وَما أَدْراكَ ، وکذا في قوله :- وَما أَدْراكَ ما عِلِّيُّونَ [ المطففین 19] ثم فسّر الکتاب لا السّجّين والعليّين، وفي هذه لطیفة موضعها الکتب التي تتبع هذا الکتاب إن شاء اللہ تعالی، لا هذا .- السِّجِّينُ یہ علّيّين کے مقابلہ میں جہنم کا نام ہے اور اس میں الفاظ کی زیادتی ، معنی کی زیادتی پر دال ہے بعض نے کہا ہے کہ یہ زمین کے ساتویں طبقہ کا نام ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لَفِي سِجِّينٍ وَما أَدْراكَ ما سِجِّينٌ [ المطففین 7- 8]( بد کار لوگوں کے نامہ اعمال ) سجین میں ہوں گے اور تم کیا جانو کہ سجین کیا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ عام طور پر جس چیز کو قرآن نے ما ادراک کے ساتھ فرمایا ہے اسے بعد میں بیان کردیا گیا ہے اور جسے ما یدریک کے ساتھ بیان کیا ہے اسے مبہم چھوڑ دیا ہے لیکن یہاں باوجود اس کے کہ سجین اور علیین کو ما ادراک کے بعد بیان فرمایا ہے پھر بھی انہیں مبہم رکھا گیا ہے اور کتاب کی تفسیر بیان فرما دی ہے تو اس میں ایک باریک نکتہ ہے جسے اس کتاب کے بعد دوسری جگہ پر بیان کیا جائے گا ۔
(٧۔ ١٠) کافروں کے نامہ اعمال سجین میں رہیں گے اور آپ کو معلوم بھی ہے کہ سجین میں رکھا ہوا نامہ اعمال کیا چیز ہے وہ ساتویں زمین کے نیچے سبز پتھر پر انسانوں کے نامہ اعمال کا دفتر ہے قیامت کے دن جھٹلانے والوں کو سخت عذاب ہوگا۔
آیت ٧ کَلَّآ اِنَّ کِتٰبَ الْفُجَّارِ لَفِیْ سِجِّیْنٍ ۔ ” ہرگز نہیں یقینا گناہگاروں کے اعمال نامے سجین میں ہوں گے۔ “- عام طور پر کتاب سے یہاں اعمال نامہ ہی مراد لیا گیا ہے کہ کافر و فاجر لوگوں کے اعمال نامے ” سِجِّین “ میں ‘ جبکہ نیک لوگوں کے اعمال نامے ” عِلِّیّین “ (بحوالہ آیت ١٨) میں ہوں گے۔ تاہم بعض احادیث سے پتا چلتا ہے کہ ” سجین “ ایک مقام ہے جہاں اہل دوزخ کی روحیں محبوس ہوں گی ‘ جبکہ اہل جنت کی ارواح ” علیین “ میں ہوں گی۔ چناچہ سجین اور علیین کا یہ فرق صرف اعمال ناموں کو رکھنے کے اعتبار سے نہیں ہوسکتا۔ اس حوالے سے میرے غور و فکر کا حاصل یہ ہے کہ انسان کے خاکی جسم میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو روح پھونکی گئی ہے وہ ایک نورانی چیز ہے۔ انسان اچھے برے جو بھی اعمال کرتا ہے اس کے اثرات اس کی روح پر مترتب ہوتے رہتے ہیں ‘ جیسے آواز کی ریکارڈنگ کرتے ہوئے ٹیپ کے فیتے ‘ سی ڈی یا مائیکرو کارڈ وغیرہ پر اس آواز کے اثرات نقش ہوجاتے ہیں۔ چناچہ انسانوں کی ارواح جب اس دنیا سے جاتی ہیں تو اعمال کے اثرات اپنے ساتھ لے کر جاتی ہیں۔ ان ” اثرات “ کی وجہ سے ہر روح دوسری روح سے مختلف ہوجاتی ہے اور یوں نیک اور برے انسانوں کی ارواح میں زمین آسمان کا فرق واقع ہوجاتا ہے۔ چناچہ میری رائے میں انسانی ارواح پر ثبت شدہ اثراتِ اعمال کو یہاں لفظ ” کتاب “ سے تعبیر کیا گیا ہے ‘ یعنی انسانی ارواح اعمال کے اثرات لیے ہوئے جب اس دنیا سے جائیں گی تو برے اعمال کے اثرات والی ارواح کو سجین میں رکھا جائے گا۔ سجن کے معنی ” جیل خانہ “ کے ہیں۔ گویا برے لوگوں کی ارواح کو وہاں کسی جیل نما جگہ میں بند کردیا جائے گا ‘ جیسے ضلعی انتظامیہ کے ” محافظ خانے “ میں پرانی فائلوں کے انبار لگے ہوتے ہیں۔
سورة الْمُطَفِّفِيْن حاشیہ نمبر :4 یعنی ان لوگوں کا یہ گمان غلط ہے کہ دنیا میں ان جرائم کا ارتکاب کرنے کے بعد یہ یونہی چھوٹ جائیں گے اور کبھی ان کو اپنے خدا کے سامنے جواب دہی کے لیے حاضر نہ ہونا پڑے گا ۔ سورة الْمُطَفِّفِيْن حاشیہ نمبر :5 اصل میں لفظ سجین استعمال ہوا ہے جو سجن ( جیل یا قید خانے ) سے ماخوذ ہے اور آگے اس کی جو تشریح کی گئی ہے اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اس سے مراد رجسٹر ہے جس میں سزا کے مستحق لوگوں کے اعمال نامے درج کیے جا رہے ہیں ۔
2: سجّین کے لفظی معنیٰ قید خانے کے ہیں۔ یہ اُس جگہ کا نام ہے جہاں مرنے کے بعد کافروں کی رُوحوں کو رکھا جاتا ہے۔ وہیں پر اُن کا اعمال نامہ بھی موجود رہتا ہے۔