كِتٰبٌ مَّرْقُوْمٌ، مرقوم کے معنے اس جگہ مختوم کے ہیں۔ یعنی مہر لگی ہوئی۔ امام بغوی اور ابن کثیر نے فرمایا کہ یہ جملہ مقام سجین کی تفسیر نہیں، بلکہ اس سے پہلے جو کتب الفجار آیا ہے اس کا بیان ہے، معنے یہ ہیں کہ کفار و فجار کے اعمالنامے مہر لگا کر محفوظ کردئے جاویں گے کہ ان میں کسی کمی بیشی اور تغیر کا امکان نہ رہے گا اور انکے محفوظ کرنے کی جگہ سجین ہے یہیں کفار کی ارواح کو جمع کردیا جائے گا۔
كِتٰبٌ مَّرْقُوْمٌ ٩ ۭ- رقم - الرَّقْمُ : الخطّ الغلیظ، وقیل : هو تعجیم الکتاب . وقوله تعالی: كِتابٌ مَرْقُومٌ- [ المطففین 9] ، حمل علی الوجهين، وفلان يَرْقُمُ في الماء يضرب مثلا للحذق في الأمور، وأصحاب الرَّقِيمِ قيل : اسم مکان، وقیل : نسبوا إلى حجر رُقِمَ فيه أسماؤهم، ورَقْمَتَا الحمار : للأثر الذي علی عضديه، وأرض مَرْقُومَةٌ: بها أثر نبات، تشبيها بما عليه أثر الکتاب، والرُّقْمِيَّاتُ : سهام منسوبة إلى موضع بالمدینة .- ( ر ق م ) الرقم کے معنی گاڑھے خط کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ رقم کے معنی کتاب پر اعراب اور نقطے لگانے کے ہیں ۔ اور آیت ؛كِتابٌ مَرْقُومٌ [ المطففین 9] وہ ایک کتاب ہے ( وقتا فوقتا ) اس کی خانہ پری ہوتی رہتی ہے ۔ میں مرقوم کے دونوں معنی ہوسکتے ہیں یعنی گاڑھے اور جلی خط میں لکھی ہوئی یا نقطے لگائی ہوئی ۔ اور جو شخص کسی کام کا ماہر اور حاذق ہو اس کے متعلق ضرب المثل کے طور پر کہا جاتا ہے ۔ فلان یرقم فی الماء یعنی وہ ماہر ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛أَنَّ أَصْحابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ [ الكهف 9] کہ غار اور لوح والے ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ رقیم ایک مقام کا نام ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ یہ اس پتھر کی طرف نسبت ہے جس میں ان کے نام کنندہ تھے اور گدھے کے دونوں بازؤوں پر جو نشان ہوتے ہیں انہیں رقمتا الحمار کہا جاتا ہے اور ارض مرقومۃ تھوڑی گھاس والی زمین کو کہتے ہیں گو یا وہ کتابت کے نشانات کی طرح ہے ۔ الرقمیات تیروں کو کہتے ہیں جو مدینہ کے ایک مقام کی طرف منسوب ہیں ۔
آیت ٩ کِتٰبٌ مَّرْقُوْمٌ ۔ ” لکھا ہوا دفتر۔ “- اس ” کتاب “ سے مراد ایک انسان کی جان اور روح کا وہ ملغوبہ ہے جس میں اس کے اعمال کے اثرات بھی ثبت ہوتے ہیں۔ کسی برے انسان کے مرنے پر متعلقہ فرشتہ وہ ملغوبہ لا کر سجین میں ” جمع “ کرا دیتا ہے۔