15۔ 1 یعنی اس سے اس کا کوئی عمل چھپا ہوا نہیں تھا۔
[١١] یعنی اس کی پیدائش سے لے کر اس کی موت تک کے کارناموں پر اللہ کی نظر تھی کہ اس کی روح کہاں سے آئی، بدن کس کس چیز سے بنا، پھر پیدا ہو کر وہ کیسے اعمال بجا لاتا رہا۔ مرنے کے بعد اس کی روح کہاں ہے اور بدن کے اجزاء بکھر کر کہاں کہاں پہنچے۔ یہ سب باتیں اللہ کی نگاہ میں تھیں۔ اور یہ بات اللہ کی حکمت اور اس کے انصاف کے خلاف تھی کہ جیسے اعمال وہ کر رہا تھا اس کو نظر انداز کردیتا اور اس سے کوئی مؤاخذہ نہ کرتا۔
بَلٰٓى ٠۔ اِنَّ رَبَّہٗ كَانَ بِہٖ بَصِيْرًا ١٥ ۭ- بصیر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، وللقوّة التي فيها، ويقال لقوة القلب المدرکة :- بَصِيرَة وبَصَر، نحو قوله تعالی: فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] ، ولا يكاد يقال للجارحة بصیرة، ويقال من الأوّل : أبصرت، ومن الثاني : أبصرته وبصرت به وقلّما يقال بصرت في الحاسة إذا لم تضامّه رؤية القلب، وقال تعالیٰ في الأبصار : لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم 42] ومنه : أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف 108] أي : علی معرفة وتحقق . وقوله : بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة 14] أي : تبصره فتشهد له، وعليه من جو ارحه بصیرة تبصره فتشهد له وعليه يوم القیامة، - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں ، نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ اور آنکھ سے دیکھنے کے لئے بصیرۃ کا لفظ استعمال نہیں ہوتا ۔ بصر کے لئے ابصرت استعمال ہوتا ہے اور بصیرۃ کے لئے ابصرت وبصرت بہ دونوں فعل استعمال ہوتے ہیں جب حاسہ بصر کے ساتھ روئت قلبی شامل نہ ہو تو بصرت کا لفظ بہت کم استعمال کرتے ہیں ۔ چناچہ ابصار کے متعلق فرمایا :۔ لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم 42] آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں ۔- اور اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف 108] یعنی پوری تحقیق اور معرفت کے بعد تمہیں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں ( اور یہی حال میرے پروردگار کا ہے ) اور آیت کریمہ ؛۔ بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة 14] کے معنی یہ ہیں کہ انسان پر خود اس کے اعضاء میں سے گواہ اور شاہد موجود ہیں جو قیامت کے دن اس کے حق میں یا اس کے خلاف گواہی دینگے
آیت ١٥ بَلٰٓیج اِنَّ رَبَّہٗ کَانَ بِہٖ بَصِیْرًا ۔ ” کیوں نہیں یقینا اس کا رب تو اسے خوب دیکھ رہا تھا۔ “- اگلی تین آیات میں تین قسمیں کھائی گئی ہیں۔ اپنے مضمون اور اسلوب کے اعتبار سے یہ آیات سورة المدثر کی ان آیات کے ساتھ خاص مناسبت اور بہت گہری مشابہت رکھتی ہیں : کَلَّا وَالْقَمَرِ - وَالَّیْلِ اِذْ اَدْبَرَ - وَالصُّبْحِ اِذَآ اَسْفَرَ ۔ ” کیوں نہیں ‘ قسم ہے چاند کی۔ اور قسم ہے رات کی جب کہ وہ پیٹھ موڑے۔ اور قسم ہے صبح کی جبکہ وہ روشن ہوجائے “۔ ان دونوں مقامات کے مابین ایک مشابہت یہ بھی ہے کہ ان دونوں سورتوں میں قسموں پر مشتمل مذکورہ آیات سے بالکل نیا مضمون شروع ہوتا ہے۔ سورة المدثر میں بھی کَلَّا وَالْقَمَرِ ۔ سے ایک نئے مضمون کا آغاز ہو رہا ہے اور بالکل ایسی ہی صورت حال زیرمطالعہ سورت کے اس مقام پر بھی نظر آتی ہے۔
سورة الْاِنْشِقَاق حاشیہ نمبر :10 یعنی یہ خدا کے انصاف اور اس کی حکمت کے خلاف تھا کہ جو کرتوت وہ کر رہا تھا ان کو وہ نظر انداز کر دیتا اور اسے اپنے سامنے بلا کر کوئی باز پرس اس سے نہ کرتا ۔