Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

21۔ 1 احادیث سے یہاں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کا سجدہ کرنا ثابت ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٦] اس آیت کی تلاوت کے بعد سجدہ کرنا چاہیے جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے۔- ابو رافع کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوہریرہ (رض) کے پیچھے عشاء کی نماز پڑھی۔ انہوں نے یہی سورت پڑھی اور (یسجدون) پر سجدہ کیا۔ میں نے کہا۔ یہ کیا ؟ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پچھے نماز پڑھی۔ انہوں نے یہی سورت پڑھی تو سجدہ کیا اور میں تو ہمیشہ اس میں سجدہ کرتا رہوں گا۔ اور سیدنا ابوہریرہ (رض) ہی سے دوسری روایت یوں ہے کہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سورة ( اذا السماء انشقت) اور سورة اقرأ میں سجدہ کیا۔ (بخاری۔ کتاب الصلوۃ۔ باب سجود القرآن)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

واذا قری علیھم القرآن…: اور پیدا کرنے والے کا کلام سن کر بھی جھکتے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

واذا قری علیھم القرآن لایستجدون یعنی جب ان کے اسمنے اور واضح ہدایات سے بھرا ہوا قرآن پڑھا جاتا ہے اس وقت بھی وہ اللہ کی طرف نہیں جھکتے۔- سجدہ اور سجود کے معنی لغت میں جھکنے کے ہیں اور یہ اطاعت شعاری اور فرمانبرداری سے کنایہ کیا جاتا ہے۔ ظاہر یہ ہے کہ اس جگہ سجدہ سے مراد سجدہ اصطلاحی نہی بلکہ اللہ کے سامنے اطاعت کیساتھ جھکنا جسکو خشوع و خضوع کہتے ہیں وہ مراد ہے اور وجہ اس کی یہ کھلی ہوئی ہے کہ اس آیت میں حکم سجدہ کسی خاص آیت کے متعلق نہیں بلکہ پورے قرآن کے متعلق ہے اگر اس سے سجدہ اصطلاحی مراد لیا جائے تو یہ لازم آئے گا کہ پورے قرآن کی ہر آیت پر سجدہ لازم ہو جو باجماع امت مراو نہیں ہو سکتا۔ سلف و خلف میں کوئی اس کا قائل نہیں، اب رہا یہ مسئلہ کو اس آیت کے پڑھنے اور سننے پر سجدہ واجب ہے یا نہیں تو اگرچہ کسی قدر تاویل کے ساتھ اس آیت سے بھی وجوب سجدہ پر استدلال ہوسکتا ہے جیسا کہ بعض فقہائے حنفیہ نے کہا ہے کہ یہاں القرآن سے مراد پورا قرآن نہیں، بلکہ الف لام عہد کا ہی اور مراد اس سے خاص یہی آیت ہے لیکن یہ ایک قسم کی تاویل ہی ہے جو احتمال کے درجہ میں تو صحیح کہی جاسکتی ہے۔ مگر اس کا مراد قرآن ہونا ظاہری عبارت سے بعید معلوم ہوتا ہے واللہ اعلم، اس لئے صحیح بات یہ ہے کہ اس کا فیصلہ روایات حدیث اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کے تعامل سے ہوسکتا ہے مگر روایات حدیث سجدہ تلاوت کے متعلق مختلف قسم کی آئی ہیں، بعض سے وجوب معلوم ہوتا ہے بعض سے رخصت، اسی لئے آئمہ مجتہدین کا اس معاملہ میں اختلاف ہے امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک اس آیت پر بھی سجدہ واجب ہے جیسا کہ مفصل کی دوسری آیتوں پر واجب ہے۔ امام اعظم کا استدلال اس کے وجوب پر مندرجہ ذیل احادیث سے ہے۔- صحیح بخاری میں کہ کہ حضرت ابو رافع نے فرمایا کہ میں نے ایک روز عشا کی نماز حضرت ابوہریرہ کے پیچھے پڑھی، انہوں نے سورة اذا السمآء انشقت کی تلاوت نماز میں کی اور اس آیت پر سجدہ کیا، میں نے ابوہریرہ سے پوچھا کہ یہ کیسا سجدہ ہے، انہوں نے فرمایا کہ میں نے ابو القاسم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے نماز میں اس آیت پر سجدہ کیا ہے اس لئے میں ہمیشہ اس آیت پر سجدہ کرتا رہوں گا جب تک کہ محشر میں آپ سے ملاقات ہو اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ہم نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اذا السماء انشقت میں اور اقرا باسم ربک میں سجدہ کیا ہے۔ قرطبی نے ابن عربی سے نقل کیا ہے کہ صحیح یہی ہے کہ یہ آیت بھی آیات سجدہ میں سے ہے اس کے پڑھنے اور سننے والے پر سجدہ واجب ہے مگر ابن عربی جن لوگوں میں مقیم تھے ان میں اس آیت پر سجدہ کرنے کا رواج نہیں تھا وہ کسی ایسے امام کے مقلد ہوں گے جن کے نزدیک سجدہ واجب نہیں تو ابن عربی کہتے ہیں کہ میں نے یہ طریقہ اختیار کرلیا کہ جب کہیں امامت کروں تو سورة انشقاق نہیں پڑھتا کیونکہ میرے نزدیک اس پر سجدہ واجب ہے اگر سجدہ نہیں کرتا تو گناہگار ہوتا ہوں اور اگر کرتا ہوں تو پوری جماعت میرے اس فعل کو برا سمجھے گی، بلاوجہ اختلاف کیوں ڈالا جائے، واللہ سبحانہ، و تعالیٰ اعلم - تمت سورة الانشقاق بحمد اللہ تعالیٰ 16 شعبان 1391 ھ

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا قُرِئَ عَلَيْہِمُ الْقُرْاٰنُ لَا يَسْجُدُوْنَ۝ ٢١ ۭ۞- قرأ - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] - ( ق ر ء) قرءت المرءۃ وقرءت الدم - ۔ القراءۃ کے معنی حروف وکلمات کو ترتیل میں جمع کرنے کے ہیں کیونکہ ایک حروت کے بولنے کو قراءت نہیں کہا جاتا ہے اور نہ یہ عام ہر چیز کے جمع کے کرنے پر بولاجاتا ہے ۔ لہذ ا اجمعت القوم کی بجاے قررءت القوم کہنا صحیح نہیں ہے ۔ القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔- قرآن - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ؂[ الإسراء 78] أي :- قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77]- ( ق ر ء) قرآن - القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔- سجد - السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات،- وذلک ضربان : سجود باختیار،- ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] ، أي : تذللوا له، - وسجود تسخیر،- وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15] - ( س ج د ) السجود - ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ )- سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری - جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا :- ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔- سجود تسخیر ی - جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15]- اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

سجدہ تلاوت واجب ہے - قول باری ہے (واذا قری علیھم القران لا یسجدون اور جب ان کے سامنے قرآن پڑھا جاتا ہے توک سجدہ نہیں کرتے) اس سے سجد ہ تلاوت کے وجوب پر استدلال کیا جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تلاوت سن کر سجدہ نہ کرنے والے کی مذمت کی ہے ہم نے لفظ کے عموم کی بنا پر سجود کے مقامات میں اس پر عمل کیا ہے۔ اگر ہم مقامات سجود میں اس پر عمل نہ کرتے تو ہم سرے سے اس حکم کو نظر انداز کردینے کے مرتکب قرار پاتے۔- اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے جھکنا مراد لیا ہے کیونکہ سجود کا اسم خضوع یعنی جھکنے کے فعل پر واقع ہوتا ہے اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ بات اسی طرح ہے تاہم خضوع کو ایک خاص وصف کے ساتھ موصوف کیا ہے وہ یہ کہ زمین پر پیشانی رکھی جائے۔ جس طرح رکوع، قیام، روزہ، حج اور تمام عبادات خضوع کہلاتے ہیں لیکن انہیں سجود نہیں کہا جاتا کیونکہ سجود کی صورت میں خضوع ایک خاص کیفیت کے ساتھ ہوتا ہے۔ اگر وہ کیفیت نہ پائی جاتے تو اس خضوع کو سجود نہیں کہیں گے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاِنْشِقَاق حاشیہ نمبر :12 یعنی ان کے دل میں خدا کا خوف پیدا نہیں ہوتا اور یہ اس کے آگے نہیں جھکتے ۔ اس مقام پر سجدہ کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے ۔ امام مالک ، مسلم اور نسائی نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے نماز میں یہ سورۃ پڑھ کر اس مقام پر سجدہ کیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں سجدہ کیا ہے ۔ بخاری ، ابوداؤد اور نسائی نے ابو رافع کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ نے عشاء کی نماز میں یہ سورۃ پڑھی ہے اور حضور نے اس مقام پر سجدہ کیا ہے ، اس لیے میں مرتے دم تک یہ سجدہ کرتا رہوں گا ۔ مسلم ، ابو داؤد ، ترمذی ، نسائی اور ابن ماجہ وغیرہ نے ایک اور روایت نقل کی ہے جس میں حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اس سورۃ میں اور اقراء باسم ربک الذی خلق میں سجدہ کیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

8: یہ سجدہ کی آیت ہے، یعنی اس آیت کو جب عربی میں تلاوت کیا جائے تو پڑھنے اور سننے والے پر سجدہ تلاوت واجب ہوجاتا ہے۔