[١٥] یعنی کئی طرح کے تغیرات خود ان کی ذات پر وارد ہو رہے ہیں۔ اور کئی طرح کے تغیرات وہ کائنات میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں پھر بھی انہیں اس بات کا یقین نہیں آتا کہ اللہ کے سامنے بالکل مجبور و بےبس ہیں۔ وہ کچھ ہوگا جو اللہ چاہے گا۔ ان کے چاہنے نہ چاہنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ انہیں بہرحال اللہ کے فیصلہ کے مطابق اللہ کے حضور پیش ہونا پڑے گا اور اس سے یقیناً محاسبہ کیا جائے گا۔
فما لھم لایومنوکن : یعنی جب ایک حلات پر قرار نہیں تو یہ لوگ دوبارہ زندہ ہونے پر ایمان کیوں نہیں لاتے ؟ انہیں یہ ضد کیوں ہے کہ ہمیں مر کر اسی حالت میں رہنا ہے ؟
فَمَا لَہُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ ٢٠ ۙ- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔
(٢٠۔ ٢٢) ان مکہ کے کافروں کو کیا ہوا کہ یہ ایمان نہیں لاتے یا یہ کہ عبد یا لیل ثقفی کی اولاد کو مخاطب کیا جارہا ہے اور یہ تین تھے۔ مسعود، حبیب، ربیعہ۔ ان میں حبیب مشرف بااسلام ہوگئے اور بعد میں ربیعہ ایمان لائے اور جس وقت حضرت محمد ان کے سامنے قرآن حکیم پڑھتے ہیں تو یہ توحید خداوندی کے لیے نہیں جھکتے بلکہ یہ تو الٹا جھٹلاتے ہیں۔