19۔ 1 یہاں مراد شدائد ہیں جو قیامت والے دن واقع ہونگے۔ یعنی اس روز ایک سے بڑھ کر ایک حالت طاری ہوگی (یہ جواب قسم ہے)
[١٤] اس مقام پر تین باتوں کی قسم کھائی گئی ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات میں حرکت ہی حرکت ہے، سکون اور ٹھہراؤ نہیں۔ پھر یہ حرکت بھی یکدم واقع نہیں ہوجاتی بلکہ اس میں تدریج کا اصول کام کر رہا ہے۔ سورج غروب ہوتا ہے تو یک دم تاریکی نہیں چھا جاتی بلکہ کچھ دیر تک اس کے اثرات باقی رہتے ہیں۔ رات بھی بتدریج اپنے مکینوں کو اپنی اپنی قرار گاہ کی طرف کھینچ لاتی ہے۔ چاند بھی مکمل ہوتا ہے تو آہستہ آہستہ ہوتا ہے۔ اس میں کئی دن لگ جاتے ہیں۔ تاہم مکمل ضرور ہوتا ہے۔ اسی طرح تم بھی بتدریج منزل بہ منزل اپنی آخری منزل کی طرف بڑھے چلے جارہے ہو اور تمہیں وہاں جاکر دم لینا ہے۔ پہلے انسان نطفہ تھا۔ رحم مادر میں ہی اس کی سات حالتیں بدلیں۔ پھر بچپن، بچپن سے جوانی، جوانی سے بڑھاپا اور بڑھاپے سے موت۔ یہ ایسی منزلیں ہیں جنہیں طے کرنے میں انسان بالکل بےبس اور مجبور ہے۔ ان میں سے کوئی منزل حذف کرنا چاہے تو وہ قطعاً ایسا نہیں کرسکتا۔ رہی یہ بات کہ انسان کی آخری منزل کیا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ جنت یا دوزخ ہے۔ گویا انسان مرنے کے بعد بھی کئی منازل طے کرنے پر مجبور ہوگا۔ اسے عذاب وثواب قبر سے دوچار ہونا پڑے گا۔ اسے مرنے کے بعد دوبارہ جی کر اٹھنا ہوگا۔ اسے قیامت کی سختیاں سہنا ہوں گی۔ اسے اللہ کی عدالت میں پیش ہونا پڑے گا۔ دنیا میں بھی اللہ کا ایسا ہی قانون کار فرما ہے۔ آخرت میں بھی یہ سب واقعات پیش آکے رہیں گے اور اس میں انسان کے اپنے ارادہ و اختیار کو کچھ دخل نہ ہوگا۔
(١) لترکبن طبقاً عن طبق : قرآن مجید میں مذکور قسمیں بعد میں آنے والے جواب قسم کی تاکید کے لئے آتی ہیں اور عام طور پر اس کے یقینی ہونے کی دلیل ہوتی ہیں۔ یہاں جس بات کو ثابت کرنے کیلئے قسمیں کھائی گئی ہیں وہ یہ حقیقت ہے کہ تم ضروری ہی ایک حال سے دوسرے حال میں منتقل ہوتے جاؤ گے۔ اب قسموں پر غور کیجیے تینوں آیات میں مذکور چیزوں کا ایک حال سے دوسرے حال میں منتقل ہونا صاف واضح ہے، یعنی دن بھر کی دھوپ کے بعد سورج غروب ہو کر شفق پھیل جاتی ہے، پھر رات چھا جاتی ہے۔ اللہ کی مخلوق دن کو پھیل جاتی ہے اور رات کو جمع ہوجاتی ہے۔ اسی طرح چاند پہلی رات خنجر نما شکل میں ہوتا ہے، پھر بدلتے بدلتے مہ کامل بن جات ہے، پھر دوبارہ گھٹنے لگتا ہے۔ یہ سب کچھ اس بات کی دلیل ہے کہ تمہیں بھی ایک حالت پر دوام نہیں ہے، بلکہ ان اشیاء کی طرح تمہارا ایک حال سے دوسرے حال میں منتقل ہوتے چلے جانا بھی یقینی ہے۔ اسی طرح زندگی کے بعد موت، پھر زندگی اور ہر عمل کی جزا و سزا کا ہونا بھی یقینی ہے۔- (٢) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ” طبقاً عن طبق “ کی تفسیر فرمائی :(حالا بعد حال) (بخاری، التفسیر، باب :(لترکبن طبقا عن طبق): ٣٩٣٠” یعنی ایک حلات کے بعد دوسری حالت میں۔ “ آدمی ہر لمحے نئی سے نئی حالت میں منتقلہ وتا جائے گا۔ بڑے بڑے تغیرات یہ ہیں، مٹی سے پیدا ہو کر نطفہ، پھر ماں کے پیٹ کی مختلف حالتیں، پھر پیدائش ، بچپن ، جوانی، بڑھاپا، تندرستی، بیماری، فقر، غنا، پھر موت، قبر اور قیامت، غرض انسان بیشمار احوال سے گزرتا ہوا جنت یا دوزخ کو پہنچ جائے گا۔
لَتَرْكَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ ١٩ ۭ- ركب - الرُّكُوبُ في الأصل : كون الإنسان علی ظهر حيوان، وقد يستعمل في السّفينة، والرَّاكِبُ اختصّ في التّعارف بممتطي البعیر، وجمعه رَكْبٌ ، ورُكْبَانٌ ، ورُكُوبٌ ، واختصّ الرِّكَابُ بالمرکوب، قال تعالی: وَالْخَيْلَ وَالْبِغالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوها وَزِينَةً [ النحل 8] ، فَإِذا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ- ) رک ب ) الرکوب - کے اصل معنی حیوان کی پیٹھ پر سوار ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ لِتَرْكَبُوها وَزِينَةً [ النحل 8] تاکہ ان سے سواری کا کام لو اور ( سواری کے علاوہ یہ چیزیں ) موجب زینت ( بھی ) ہیں ۔ مگر کبھی کشتی وغیرہ سواری ہونے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَإِذا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ [ العنکبوت 65] پھر جب لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں ۔ - طبق - المُطَابَقَةُ من الأسماء المتضایفة، وهو أن تجعل الشیء فوق آخر بقدره، ومنه : طَابَقْتُ النّعلَ ، قال الشاعر :إذا لاوذ الظّلّ القصیر بخفّه ... وکان طِبَاقَ الخُفِّ أو قَلَّ زائدا ثم يستعمل الطَّبَاقُ في الشیء الذي يكون فوق الآخر تارة، وفیما يوافق غيره تارة، كسائر الأشياء الموضوعة لمعنيين، ثم يستعمل في أحدهما دون الآخر کالکأس والرّاوية ونحوهما .- قال تعالی: الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ طِباقاً [ الملک 3] ، أي : بعضها فوق بعض، وقوله :- لَتَرْكَبُنَّ طَبَقاً عَنْ طَبَقٍ [ الانشقاق 19] ، أي : يترقّى منزلا عن منزل، وذلک إشارة إلى أحوال الإنسان من ترقّيه في أحوال شتّى في الدّنيا، نحو ما أشار إليه بقوله : خَلَقَكُمْ مِنْ تُرابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ [ الروم 20] ، وأحوال شتّى في الآخرة من النشور، والبعث، والحساب، وجواز الصّراط إلى حين المستقرّ في إحدی الدّارین . وقیل لكلّ جماعة مُتَطَابِقَةٍ : هم في أُمِّ طَبَقٍ وقیل : الناس طَبَقَاتٌ ، وطَابَقْتُهُ علی كذا، وتَطَابَقُوا وأَطْبَقُوا عليه، ومنه : جوابٌ يُطَابِقُ السّؤالَ. والمُطَابَقَةُ في المشي كمشي المقيّد، ويقال لما يوضع عليه الفواکهُ ، ولما يوضع علی رأس الشیء : طَبَقٌ ، ولكلّ فقرة من فقار الظّهر : طَبَقٌ لِتَطَابُقِهَا، وطَبَّقْتُهُ بالسّيف اعتبارا بِمُطَابَقَةِ النّعلِ ، وطِبْقُ اللَّيلِ والنهارِ : ساعاته المُطَابِقَةُ ، وأَطْبَقْتُ عليه البابَ ورجل عياياءُ طَبَاقَاءُ : لمن انغلق عليه الکلام، من قولهم : أَطْبَقْتُ البابَ ، وفحلٌ طَبَاقَاءُ : انْطَبَقَ عليه الضِّرابُ فعجز عنه، وعُبِّرَ عن الدّاهية بِبِنْتِ الطَّبَقِ ، وقولهم : وَافَقَ شِنٌّ طَبَقَةً وهما قبیلتان - ( ط ب ق ) المطابقۃ اسمائے متضایفہ سے ہے جس کے معنی ایک چیز کے اوپر اس کے برابر دوسری چیز رکھنا اسی سے طابقت النعل ہے جس کے معنی کسی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے (289) اذالاوذالظل القصیر نجفہ وکان طباق الخف او قل زائد پھر طباق لفظ کبھی اس چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے دوسری کے اوپر ہو اور کبھی اس چیز کو کہتے ہیں جو دوسری کے مطابق اور موافق ہو جیسا کہ تمام ان الفاظ کا حال ہے جو دو معنوں کے لئے وضع کئے گئے ہیں اور پھر کسی ایک معنی میں استعمال ہونے لگے ہوں ۔ جیسے کاس ونادیۃ وغیرھما چناچہ آیت کریمہ : الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ طِباقاً [ الملک 3] کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سات آسمان اوپر تلے بنائے ۔ اور آیت کریمہ ؛لَتَرْكَبُنَّ طَبَقاً عَنْ طَبَقٍ [ الانشقاق 19] کے معنی یہ ہوں گے کہ تم ایک منزل سے دوسری منزل کی طرف بلند ہوتے چلے جاؤ گے اور یہ ان مختلف احوال و مراتب کی طرف اشارہ ہے جن پر سی انسان گزر کر ترقی کے منازل طے کرتا ہے اور اس تددیجی ارتقاء کیطرف آیت خَلَقَكُمْ مِنْ تُرابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ [ الروم 20] اور خدا ہی نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر نطفے سے ۔ میں اشارہ فرمایا ہے ۔ نیز آخرت میں حشر و نشر حساب وکتاب اور پلصراط سے لے کر جنت اور دوزخ میں پہنچنے تک جو مختلف حالات انسان کو پیش آنے والے ہیں ان کی طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے اور ایک جماعت جو باہم مطابقت اور موافقت رکھتی ہو اس کے متعلق کہاجاتا ہے ھم فی ام طبق ۔ نیز کہاجاتا ہے ۔ الناس طبقات لوگوں کے مختلف طبقے ہیں طابقتۃ علی کذا وتطابقوا واطبقوا علیہ باہم مطابق ہونا اسی سے جواب یطابق السوال کا محاورہ ہے یعنی جواب سوال کے عین مطابق ہے ۔ المطابقۃ اس آدمی کی طرح چلنا جس کے پاؤں میں بیڑیاں پڑی ہوں الطبق واطباق (1) تھالی یا طباق جس پر فروٹ رکھتے ہیں (2) ہر چیز کا ڈھکنا یز ۔ پیٹھ کے مہروں میں سے ہر مہر ہ کو طبق کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ وہ باہم مطابق ہوتے ہیں اور طبقۃ بالسیف کا محاورہ بھی مطابقۃ النعل کی مناسبت سے استعمال ہوتا ہے اور اس کے معنی ہیں میں نے ٹھیک اس کے جوڑ میں تلوار ماری اور اسے الگ کردیا ۔ طبق اللیل والنھار ( رات اور دن کی ساعات جو باہم مطابق ہوں اطبقت علیہ الباب میں نے اس پر دروازہ بند کردیا ۔ رجل عیایاء طباقاء آنکہ بردے سخن بستہ گردو ۔ یہ اطبقت الباب کے محاورہ سے ماخوذ ہے اور فحل طباقاء اس سانڈھ کو کہتے ہیں جو جفتی سے عاجز ہو اور بڑی مصیبت کو بنت الطبق کہاجاتا ہے ۔ مثل مشہور ہے وافق شن طبقۃ کہ شن طبقۃ کے موافق ہوگئی اور شن وطبقۃ دو قبیلوں کے نام ہیں ۔
آیت ١٩ لَتَرْکَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ ۔ ” (اسی طرح) تم لازماً چڑھو گے درجہ بدرجہ۔ “- یعنی جس طرح چاند درجہ بدرجہ بڑا ہو کر مرحلہ وار رات کو روشن کرتا ہے بالکل اسی طرح تم مرحلہ وار کوششوں سے غلبہ دین کی منزل تک پہنچو گے۔ واضح رہے کہ لَتَرْکَبُنَّ کے صیغے میں زور اور تاکید بھی ہے کہ تم لوگ اس منزل تک ضرور پہنچو گے ۔ ظاہر ہے ہمیں یہ خبر محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دی ہے وَھُوَ الصَّادِقُ وَالْمَصْدُوْق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دی ہوئی خبر غلط نہیں ہوسکتی ۔ لہٰذا دنیا پر اسلام کا مکمل غلبہ ہو کر رہے گا۔ البتہ اسلام کے پہلے غلبے کی شان اور تھی اور دوسرے غلبے کا انداز اور ہوگا۔ یہ فرق سورة المدثر کی آیت ٣٤ اور زیر مطالعہ سورت کی آیت ١٨ پر غور کرنے سے خود بخود واضح ہوجاتا ہے۔ یعنی اسلام کے پہلے غلبے کا ظہور صبح کے اجالے کی طرح ہوا تھا : وَالصُّبْحِ اِذَآ اَسْفَرَ ۔ (المدثر) ۔ اس اجالے کی شان یہ تھی کہ ادھر آفتابِ نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طلوع ہوا اور ادھر دیکھتے ہی دیکھتے پورا ماحول منورہو گیا۔ یعنی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کے آغاز کے بعد صرف تیئیس (٢٣) برس کے مختصر عرصے میں تاریخ انسانی کا عظیم ترین انقلاب برپا ہوگیا اور جزیرہ نمائے عرب میں اسلام پوری طرح غالب آگیا۔ ظاہر ہے سورج کے طلوع ہونے کے بعد روشنی ہونے میں زیادہ دیر تو نہیں لگتی۔- البتہ اسلام کے دوسرے غلبہ کی روشنی چاند کی چاندنی کی طرح مرحلہ وار اور تدریجاً پھیلے گی۔ یعنی اب اقامت دین اور خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا نظام کسی ایک داعی یا کسی ایک تحریک کی کوششوں اور کسی ایک نسل کے زمانے میں نہیں بلکہ نسل در نسل جدوجہد سے قائم ہوگا۔ جیسے برعظیم پاک و ہند میں علامہ اقبال نے ایک فکر کو واضح کیا کہ اسلام مذہب نہیں بلکہ دین ہے اور ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور یہ کہ ” جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی “ یعنی مسلمان اس ضابطہ حیات کو ایک ” وحدت “ کے طور پر زندگی کے تمام شعبوں میں نافذ کرنے کے لیے جدوجہد کریں۔ پھر مولانا ابوالکلام آزاد نے ” حزب اللہ “ اور مولانا مودودی نے ” جماعت اسلامی “ کے پلیٹ فارم سے اقامت دین کے لیے جدوجہد کی۔ اسی طرح آئندہ ادوار میں بھی اللہ کی توفیق سے اس کے بندے اس جدوجہد کا علم سنبھالے رہیں گے۔ مختلف تحریکیں اس مشن کی ترویج و ترقی کے لیے مختلف انداز میں کردار ادا کرتی رہیں گی اور بالآخران اجتماعی اور مرحلہ وار کوششوں کے نتیجے میں جب اللہ کو منظور ہوگا اسلام بطور دین پوری دنیا میں غالب ہوجائے گا۔
سورة الْاِنْشِقَاق حاشیہ نمبر :11 یعنی تمہیں ایک حالت پر نہیں رہنا ہے بلکہ جوانی سے بڑھاپے ، بڑھاپے سے موت ، موت سے برزخ ، برزخ سے دوبارہ زندگی ، دوبارہ زندگی سے میدان حشر ، پھر حساب و کتاب اور پھر جزا و سزا کی بے شمار منزلوں سے لازما تم کو گزرنا ہو گا ۔ اس بات پر تین چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے ۔ سورج ڈوبنے کے بعد شفق کی سرخی ، دن کے بعد رات کی تاریکی اور اس میں ان بہت سے انسانوں اور حیوانات کا سمٹ آنا جو دن کے وقت زمین پر پھیلے رہتے ہیں اور چاند کا ہلال سے درجہ بدرجہ بڑھ کر بدر کامل بننا ۔ یہ گویا چند وہ چیزیں ہیں جو اس بات کی علانیہ شہادت دے رہی ہیں کہ جس کائنات میں انسان رہتا ہے اس کے اندر کہیں ٹھیراؤ نہیں ہے ۔ ایک مسلسل تغیر اور درجہ بدرجہ تبدیلی ہر طرف پائی جاتی ہے ، لہذا کفار کا یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ موت کی آخری ہچکی کے ساتھ معاملہ ختم ہو جائے گا ۔
7: اِنسان اپنی زندگی میں مختلف مرحلوں سے گذرتا ہے۔ بچپن، جوانی، ادھیڑ عمر اور پھر بڑھاپا۔ نیز اس کی سوچ میں بھی مسلسل تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ یہ سارے مراحل اس آیت کے مفہوم میں داخل ہیں۔