Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٣] اِتَّسَقَ کا بھی مادہ وَسَقَ ہی ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ اس چیز کے سب اجزاء مجتمع ہوگئے اور وہ مکمل ہوگئی یعنی چاند ہلال سے بڑھتا بڑھتا بدر کامل بن گیا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(والقمر اذا اثسق :” اثسق “ اوپر مذکور ” وسق “ سے باب افتعال ہے، جمع ہونا، یعنی چودھویں رات کا پورا چاند بن جائے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَالْقَمَرِ اِذَا اتَّسَقَ۝ ١٨ ۙ- قمر - القَمَرُ : قَمَرُ السّماء . يقال عند الامتلاء وذلک بعد الثالثة، قيل : وسمّي بذلک لأنه يَقْمُرُ ضوء الکواکب ويفوز به . قال : هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] - ( ق م ر ) القمر - ۔ چاند جب پورا ہورہا ہو تو اسے قمر کہا جاتا ہے اور یہ حالت تیسری رات کے بعد ہوتی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ چاندکو قمر اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ ستاروں کی روشنی کو خیاہ کردیتا ہے اور ان پر غالب آجا تا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا ۔- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- وسق - الوَسْقُ : جمع المتفرّق . يقال : وَسَقْتُ الشیءَ : إذا جمعته، وسمّي قدر معلوم من الحمل کحمل البعیر وَسْقاً ، وقیل : هو ستّون صاعا وأَوْسَقْتُ البعیرَ : حمّلته حِمله، وناقة وَاسِقٌ ، ونوق مَوَاسِيقُ. إذا حملت . ووَسَّقْتُ الحنطةَ : جعلتها وَسْقاً ، ووَسِقَتِ العینُ الماءَ :- حملته، ويقولون : لا أفعله ما وَسَقَتْ عيني الماءَ وقوله : وَاللَّيْلِ وَما وَسَقَ [ الانشقاق 17] قيل : وما جمع من الظّلام، وقیل : عبارة عن طوارق اللّيل، ووَسَقْتُ الشیءَ : جمعته، والوَسِيقَةُ الإبلُ المجموعةُ کالرُّفْقة من الناس، والاتِّسَاقُ : الاجتماع والاطّراد . قال اللہ تعالی: وَالْقَمَرِ إِذَا اتَّسَقَ [ الانشقاق 18] .- ( و س ق ) الواسق کے معنی متفرق چیزوں کو یکجا اکٹھا کرنے کے ہیں چناچہ وسقت ( ض ) الشئی کے معنی ہیں میں نے اس شے کے متفرق اجزا کو اکٹھا کیا اور بوجھ کی معین مقدرمثلا ایک اونٹ کے بار کو بھی وسق کہا جاتا ہے اور بعض نے کہا ہے ایک وسق ھاٹ صاع کے برابر ہوتا ہے اسی سے او سقت لبعیر ( افعال ) ہے جس کے معنی اونٹ پر بوجھ لادنے کے ہیں ۔ ناقۃ واسق حملہ اونٹنی اس کی جمع موا سیق آتی ہے ۔ وسقت الحنطۃ میں نے گیہوں کا ایک وسق بھرا ۔ وسقت العین الماء آنکھ پانی سے بھر گئی ۔ مشہور محاورہ ہے : ۔ لا اعلتہ ماوسقت عینی الماء کہ جب تک میری آنکھ میں پانی ہے یعنی زندگی بھر ) یہ کام نہیں کروں گا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَاللَّيْلِ وَما وَسَقَ [ الانشقاق 17] اور رات کی اور جن چیزوں کو وہ اکٹھا کرلیتی ہے ان کی ۔ بعض نے کہا ہے کہ ماوسق سے مراد رات کی تاریکی ہے جبکہ پوری طرح چھا جائے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ ماوسق سے طواء رق ( رات میں واقع ہونے والے حوادث مراد ہیں ۔ الو سیقۃ اونٹوں کے گلہ کو کہتے ہیں جیسے رفقۃ کے معنی انسانوں کی جماعت کے ہی ۔ الاتساق کے معنی کسی چیز کے اجزاء کے مجتمع اور ( پورے طور پر ) اکٹھا ہوجانا کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَالْقَمَرِ إِذَا اتَّسَقَ [ الانشقاق 18] اور چاند کی جب وہ کامل ہوجائے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٨ وَالْقَمَرِ اِذَا اتَّسَقَ ۔ ” اور چاند کی جب وہ پورا ہوجاتا ہے۔ “- میری خالص ذاتی رائے کے مطابق (واللہ اعلم ) سورة المدثر کی مذکورہ آیات (٣٢ ‘ ٣٣ ‘ ٣٤) میں بعثت ِمحمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خبر دی گئی ہے ‘ جبکہ زیر مطالعہ آیات میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی نشاندہی کی گئی ہے۔ سورة المدثر کے مطالعے کے دوران اس موضوع پر تفصیلی گفتگو ہوچکی ہے۔ اس تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ رات وَالَّـیْلِ اِذْ اَدْبَرَ ۔ سے مراد چھ سو سال (حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے ظہور تک) کا وہ طویل عرصہ ہے جس کے دوران وحی و نبوت کا سلسلہ منقطع رہا اور دنیا پر مجموعی طور پر کفر و شرک اور ضلالت و جہالت کے اندھیرے چھائے رہے۔ چاند کی قسم کَلَّا وَالْقَمَرِ ۔ میں علم و ہدایت کی اس مدھم روشنی کا استعارہ ہے جو ِجن و اِنس کے نیک افراد کی صورت میں اس دوران کہیں کہیں موجود رہی ‘ جبکہ صبح کی قسم وَالصُّبْحِ اِذَآ اَسْفَرَ ۔ کے پردے میں نبوت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خورشید کے طلوع ہونے کی خبر دی گئی ہے ‘ اور اس کے بارے میں یہ بھی واضح کردیا گیا ہے : اِنَّھَا لَاِحْدَی الْکُبَرِ ۔ کہ یہ بلاشبہ ایک بہت عظیم واقعہ ہے۔ ظاہر ہے نوع انسانی کی تاریخ میں نبوت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ظہور سے بڑا کوئی اور واقعہ کیا ہوگا۔- بہرحال نبوت و رسالت ِمحمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خورشید جہاں تاب کی تابانیوں سے چھ سو سال کی تاریکیاں چھٹ گئیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وساطت سے ابنائے آدم کو ” اَکْمَلْتُ لَـکُمْ دِیْنَـکُمْ “ کی خصوصی سند بھی عطا ہوئی ‘ جزیرہ نمائے عرب میں انسانی تاریخ کا عظیم ترین انقلاب بھی رونما ہوگیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس انقلاب کی فتوحات و برکات تین براعظموں تک پھیل گئیں۔ لیکن چند ہی دہائیوں کے بعد مشیت خداوندی سے نہ صرف مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے قدم رک گئے ‘ بلکہ رفتہ رفتہ وہ پسپائی پر مجبور ہوگئے۔ پسپائی کا یہ عمل جب شروع ہوا تو صرف جنگی محاذوں سے پیچھے ہٹنے تک ہی محدود نہ رہا بلکہ مسلمان بحیثیت قوم زندگی کے ہر شعبے اور ہر میدان سے دست بردار ہو کر نکبت و ادبار کی پستیوں میں لڑھکتے چلے گئے۔ یہ سفر آج بھی جاری ہے اور ابھی اس کے رکنے کے بظاہر کوئی آثار بھی نظر نہیں آتے۔ یہ گھمبیر صورت حال اپنی جگہ پر ایک زمینی حقیقت ہے ‘ لیکن دوسری طرف ہمارا ایمان ہے کہ قیامت سے پہلے اسلام پوری دنیا پر غالب آئے گا۔ اس بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمودات بہت واضح ہیں (اس مضمون کی احادیث ” نوید ِخلافت “ کے عنوان سے ایک کتابچے میں جمع کردی گئی ہیں۔ تفصیل جاننے کے لیے اس کتابچے سے استفادہ کیا جاسکتا ہے) ۔ میں سمجھتا ہوں کہ زیر مطالعہ آیات میں اسلام کے اسی غلبے کی بشارت دی گئی ہے جس کی تفصیل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمودات میں ملتی ہے۔ - میرے نزدیک یہاں پہلی قسم فَلَآ اُقْسِمُ بِالشَّفَقِ ۔ میں اسلام کے رفتہ رفتہ زوال پذیر ہونے کی صورت حال کا نقشہ دکھایا گیا ہے۔ یعنی سورج غروب ہوچکا ہے اور اب افق پر صرف شفق کی سرخی نظر آرہی ہے۔ دوسری قسم وَالَّـیْلِ وَمَا وَسَقَ ۔ میں حالات کے مزید گھمبیر ہونے کی طرف اشارہ ہے کہ دین پر عمل کے اعتبار سے دنیا میں ایک دفعہ پھر تاریکی چھا جائے گی ‘ صرف مدھم سی روشنی باقی رہے گی جو وقت آنے پر آہستہ آہستہ بڑھتی جائے گی۔ درجہ بدرجہ بڑھتے ہوئے چاند کی قسم : وَالْقَمَرِ اِذَا اتَّسَقَ ۔ اسی مدھم اور تدریجاً بڑھتی ہوئی روشنی کا استعارہ ہے۔ ظاہر ہے جب چاند پورا ہوجاتا ہے تو اس کی چاندنی ایک حد تک رات کو روشن کردیتی ہے۔ اس کے بعد فرمایا :

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani