[٥] آسان حساب کیا ہے ؟ آسان حساب یہ ہے کہ جس کی نیکیوں کا پلڑا بھاری نکلا اس سے اس کی برائیوں کے متعلق یہ سوال نہیں کیا جائے گا کہ تم نے فلاں برا کام کیوں کیا تھا ؟ کیا تمہارے پاس اس کے لیے کوئی عذر ہے ؟ بلکہ اس کی خطاؤں سے درگزر کیا جائے گا جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :۔- سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن جس شخص سے حساب لیا گیا وہ تباہ ہوا میں نے کہا : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ جس کو اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا گیا اس سے جلد ہی آسان سا حساب لیا جائے گا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ محض پیشی ہوگی۔ انہیں ان کے اعمال بتا دیئے جائیں گے اور جس کے حساب کی تحقیق شروع ہوگئی وہ تباہ ہوا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) نیز کتاب العلم۔ باب من سمع شیأا فلم یفہمہ۔۔ )
فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَّسِيْرًا ٨ ۙ- حسب - الحساب : استعمال العدد، يقال : حَسَبْتُ «5» أَحْسُبُ حِسَاباً وحُسْبَاناً ، قال تعالی: لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] ، وقال تعالی: وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام 96] ، وقیل : لا يعلم حسبانه إلا الله، وقال عزّ وجل : وَيُرْسِلَ عَلَيْها حُسْباناً مِنَ السَّماءِ [ الكهف 40] ، قيل : معناه :- نارا، وعذابا وإنما هو في الحقیقة ما يحاسب عليه فيجازی بحسبه، وفي الحدیث أنه قال صلّى اللہ عليه وسلم في الریح : «اللهمّ لا تجعلها عذابا ولا حسبانا»، قال تعالی: فَحاسَبْناها حِساباً شَدِيداً [ الطلاق 8] ، إشارة إلى نحو ما روي : «من نوقش الحساب عذّب» وقال تعالی: اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] ، نحو : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] ، وَكَفى بِنا حاسِبِينَ [ الأنبیاء 47] ، وقوله عزّ وجلّ : وَلَمْ أَدْرِ ما حسابِيَهْ [ الحاقة 26] ، إِنِّي ظَنَنْتُ أَنِّي مُلاقٍ حِسابِيَهْ [ الحاقة 20] ، فالهاء فيها للوقف، نحو : مالِيَهْ وسُلْطانِيَهْ وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسابِ [ آل عمران 199] ، وقوله عزّ وجلّ : جَزاءً مِنْ رَبِّكَ عَطاءً حِساباً [ عم 36] ، فقد قيل : کافیا، وقیل : ذلك إشارة إلى ما قال : وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى [ النجم 39] ،- ( ح س ب ) الحساب - کے معنی گنتے اور شمار کرنے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ حسبت ( ض ) قرآن میں ہے : ۔ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] اور برسوں کا شمار اور حساب جان لو ۔ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام 96] اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔ اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ ان کے حسبان ہونے کی حقیقت خدا ہی جانتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَيُرْسِلَ عَلَيْها حُسْباناً مِنَ السَّماءِ [ الكهف 40] اور وہ تمہارے باغ ) پر آسمان سے آفت بھیج دے میں بعض نے کہا ہے کہ حسبا نا کے معنی آگ اور عذاب کے ہیں اور حقیقت میں ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس پر محاسبہ کای جائے اور پھر اس کے مطابق بدلہ دیا جائے ۔ حدیچ میں ہے آنحضرت نے آندھی کے متعلق فرمایا : ۔ کہ الہیٰ ؟ اسے عذاب یا حسبان نہ بنا اور آیت کریمہ : ۔ فَحاسَبْناها حِساباً شَدِيداً [ الطلاق 8] تو تم نے ان کو سخت حساب میں پکڑ لیا ۔ میں حدیث کہ جس سے حساب میں سختی کی گئی اسے ضرور عذاب ہوگا کے مضمون کی طرف اشارہ ہے اور آیت کریمہ : ۔ اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] لوگوں کا حساب ( اعمال کا وقت ) نزدیک آپہنچا ) اپنے مضمون میں وَكَفى بِنا حاسِبِينَ [ الأنبیاء 47] کی طرح ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلَمْ أَدْرِ ما حسابِيَهْ [ الحاقة 26] اور مجھے معلوم نہ ہوتا کہ میرا حساب کیا ہے ۔ اور آیت : ۔ إِنِّي ظَنَنْتُ أَنِّي مُلاقٍ حِسابِيَهْ [ الحاقة 20] مجھے یقین تھا کہ مجھ کو میرا حساب ( وکتاب ) ضرور ملے گا ۔ میں ہ وقف کی ہے جیسا کہ میں ہے ۔إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسابِ [ آل عمران 199] بیشک خدا جلد حساب لینے والا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ جَزاءً مِنْ رَبِّكَ عَطاءً حِساباً [ عم 36] یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے صلہ ہے انعام کثیر میں بعض نے کہا ہے کہ حسابا کے معنی کافیا کے ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ یہ آیت : ۔ وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى [ النجم 39] کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔- يسير - واليَسِيرُ والمَيْسُورُ : السّهلُ ، قال تعالی: فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُوراً [ الإسراء 28] واليَسِيرُ يقال في الشیء القلیل، فعلی الأوّل يحمل قوله : يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ وَكانَ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيراً [ الأحزاب 30] ، وقوله : إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ [ الحج 70] . وعلی الثاني يحمل قوله : وَما تَلَبَّثُوا بِها إِلَّا يَسِيراً [ الأحزاب 14]- الیسیر - والمیسور سہل اور آسان قرآن میں ہے : ۔ فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُوراً [ الإسراء 28] تو ان سے نر می سے بات کہدیا کرو ۔ اور کبھی یسیر کے معنی حقیر چیز بھی آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ - يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ وَكانَ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيراً [ الأحزاب 30] اس کو دونی سزا دی جائیگی اور یہ بات خدا کو آسان ہے میں لفظ یسیرا کے معنی آسان اور سہل کے ہیں اور آیت وما تَلَبَّثُوا بِها إِلَّا يَسِيراً [ الأحزاب 14] اور اس کے لئے بہت کم توقف کریں میں اس کے معنی بہت کم عرصہ کے ہیں
آیت ٨ فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًا ۔ ” تو اس سے لیا جائے گا بہت ہی آسان حساب۔ “- اس حساب کی کیفیت کیا ہوگی ؟ اس کی وضاحت حضرت عائشہ (رض) کی روایت کردہ بخاری و مسلم کی اس حدیث میں آئی ہے۔ حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : (مَنْ حُوْسِبَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عُذِّبَ ) ” قیامت کے روز جس کا حساب لیا جائے گا اسے تو ضرور عذاب دیا جائے گا “۔ اس پر میں نے عرض کیا : کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے : فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًا 4 تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : (لَـیْسَ ذَاکِ الْحِسَابُ ، اِنَّمَا ذَاکِ الْعَرْضُ ، مَنْ نُوقِشَ الْحِسَابَ یَوْمَ الْقِیاَمَۃِ عُذِّبَ ) (١) ” یہ حساب نہیں ہوگا ‘ یہ تو محض (اعمال نامہ) پیش کیا جانا ہوگا ‘ روزِ قیامت جس کے حساب کی جانچ پڑتال کی گئی اسے تو ضرور عذاب دیا جائے گا۔ “- یعنی جس خوش قسمت انسان کا اعمالنامہ اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا ‘ اس سے نہ تو کوئی سوال ہوگا اور نہ ہی اس کے مواخذے اور مناقشے کی نوبت آئے گی۔ بس اس کے اعمال نامے کو ایک نظر دیکھ کر اس کی خطائوں کو معاف کردیا جائے گا ۔ یعنی اللہ تعالیٰ اس شخص سے نرمی کا معاملہ فرمائے گا۔
سورة الْاِنْشِقَاق حاشیہ نمبر :6 یعنی اس سے سخت حساب فہمی نہ کی جائے گی ۔ اس سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ فلاں فلاں کام تو نے کیوں کیے تھے اور تیرے پاس ان کاموں کے لیے کیا عذر ہے ۔ اس کی بھلائیوں کے ساتھ اس کی برائیاں بھی اس کے نامہ اعمال میں موجود ضرور ہوں گی ، مگر بس یہ دیکھ کر کہ بھلائیوں کا پلڑا برائیوں سے بھاری ہے ، اس کے قصوروں سے در گزر کیا جا ئے گا اور اسے معاف کر دیا جائے گا ۔ قرآن مجید میں بد اعمال لوگوں سے سخت حساب فہمی کے لیے سوء الحساب ( بری طرح حساب لینے ) کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ( الرعد ، آیت 18 ) ، اور نیک لوگوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن سے ہم ان کے بہتر اعمال قبول کرلیں گے اور ان کی برائیوں سے در گزر کریں گے ۔ ( الاحقاف ، آیت 16 ) ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی جو تشریح فرمائی ہے اسے امام احمد ، بخاری ، مسلم ، ترمذی ، نسائی ، ابوداؤد ، حاکم ، ابن جریر ، عبد بن حمید اور ابن مردودیہ نے مختلف الفاظ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نقل کیا ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ حضور نے فرمایا جس سے بھی حساب لیا گیا وہ مارا گیا ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، کیا اللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ جس کا نامہ اعمال اس کے سیدھے ہاتھ میں دیا گیا اس سے ہلکا حساب لیا جائے گا ؟ حضور نے جواب دیا وہ تو صرف اعمال کی پیشی ہے ، لیکن جس سے پوچھ گچھ کی گئی وہ مارا گیا ۔ ایک اور روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ حضور کو نماز میں یہ دعا مانگتے ہوئے سنا کہ خدایا مجھ سے ہلکا حساب لے ۔ آپ نے جب سلام پھیرا تو میں نے اس کا مطلب پوچھا ۔ آپ نے فرمایا ہلکے حساب سے مراد یہ ہے کہ بندے کے نامہ اعمال کو دیکھا جائے اور اس سے در گزر کیا جائے گا ، اے عائشہ ، اس روز جس سے حساب فہمی کی گئی وہ مارا گیا ۔