٩(فاما من اوتی کتبہ بیمینہ…: آسان حساب کا مطلب یہ ہے کہ کرید کرید کر اصلی حساب نہیں ہوگا، فقط اعمال نامہ پیشہ و گا اور غلطیاں بھی سامنے لائی جائیں گی، پھر اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے معاف فرما دے گا۔ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(لیس احد یحاسب الا ھلک قالت قلت یا رسول اللہ جعلنی اللہ فذائک الیس یقول اللہ عزو جل :(فاما من اوتی کتبہ بیمینہ، فسوق یحاسب حساباً یسیراً ) (الانشقاق : ٨، ٨) قال ذالک العرض یعرضون، ومن نوقش الحساب ھلک) (بخاری، التفسیر، باب :(فسوق یحاسب حسابا یسیرا): ٣٩٣٩)” جس کسی کا بھی حساب لیا گیا وہ ہلاک ہوگیا ۔ “ عائشہ (رض) نے عرض کی :” یا رسول اللہ اللہ مجھے آپ پر فدا کرے کیا اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرماتے کہ جس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اس کا حساب آسان ہوگا ؟ “ آپ نے فرمایا :” یہ صرف پیشی ہے (جس میں صرف اس کے اعمال) پیش کئے جائیں گے اور جس سے حساب میں پڑتال کی گئی وہ ہلاک ہو یا۔ “- جن بندوں پر اللہ کی نظر عنایت ہوگی ان کے آسان حساب کی ایک صورت وہ ہوگی جو ابن عمر (رض) عنہمانے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(یدنواحدکم من ربہ حتی یضع کنفہ علیہ فیقول عملت کذا و کذا ؟ فیقول نعم و یقول عملت کذا و کذا ؟ فیقول نعم، فیقررہ ثم یقول انی سترت علیک فی الدنیا، فانا اغفرھا لک الیوم) (بخاری، الادب، باب ستر المومن علی نفسہ : ٦٠٨)” تم میں سے ایک (بندہ) اپنے رب کے قریب ہوگا، یہاں تک کہ وہ اپنا دامن اس پر رکھے گا (کہ کسی اور کو خبر نہ ہو ) ، پھر فرمائے گا :” تو نے یہ کام کئے ؟ “ وہ کہے گا :” ہاں “ اور فرمائے گا :” تو نے یہ یہ کام (بھی ) کئے ؟ “ وہ کہے گا :” ہاں “ پس اللہ تعالیٰ اس سے اقرار کروا لے گا، پھر فرمائے گا :” میں نے دنیا میں تجھ پر پردہ ڈالا، سو آج میں تمہیں وہ گناہ معاف کرتا ہوں۔ “ آسان حساب کی ایک صورت یہ ہوگی کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے گا تھوڑی نیکی کا ثواب بہت زیادہ عطا فرما دے گا جیسا کہ عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) عنہمانے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ کی امت کے ایک آدمی کے گناہوں کے حد نگاہ تک پھیلے ہوئے نانوے (٩٩) دفتر کاغذ کے ایک پرزے کے مقابلے میں ہلکے ہوجائیں گے جس پر ” اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمداً عبدہ و رسولہ “ لکھا ہوگا۔ (دیکھیے ترمذی، الایمان، باب ما جاء فیمن یموت وھو یشھد ان لا الہ الا اللہ : ٢٦٣٩ و صحیحہ الالبانی) غرض اللہ تعالیٰ جس طرح چاہے گا حساب آسان کر دے گا، مگر شرط یہے کہ آدمی ہر طرح کے شرک ظاہری اور شرک باطنی یعنی ریا سے پاک ہو، پھر اگر گناہ گار توبہ کے بغیر بھی مرگیا تو اللہ کی ذات سے رحمت اور آسانی حساب کی توقع ہے۔ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(ان اللہ لایغفران یشرک بہ وغفر مادون ذلک لمن یشآئ) (النسائ : ٣٨)” بیشک اللہ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے علاوہ جو کچھ ہے جسے چاہے گا بخش دے گا۔ “ مشرک کے لئے معافی نہیں، دوسروں کی مغفرت اللہ کی مشیت پر ہے۔ اس لئے نہ اس کے غضب سے بےخوف ہونا چاہیے اور نہ اس کی رحمت سے مایوس ہونا چاہیے۔
فاما من اوتی کتبہ بیمینہ فسوف یحاسب حسابا یسیرا و ینقلب الی اھلہ مسرورا :۔ اس میں مومنین کا حال بیان فرمایا ہے کہ ان کے نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں دیئے جاویں گے اور انسے بہت آسان حساب لے کر جنت کی بشارت دے دیجائے گی اور وہ اپنے گھر والوں کے پاس خوش خوش واپس ہوگا۔ - صحیح کی ایک حدیث میں حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا من حوسب یوم القیمتہ عذب یعنی قیامت کے روز جس سے حساب لیا جائے وہ عذاب سے نہ بچے گا۔ اس پر حضرت صدیقہ عائشہ نے سوال کیا کہ کیا قرآن میں حق تعالیٰ کا یہ ارشاد نہیں ہے یحاسب حسابایسرا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس آیت میں جس کو حساب یسیر فرمایا وہ درحقیت مکمل حساب نہیں بلکہ صرف رب اعلزت کے سامنے پیشی ہے اور جس شخص سے اس کے اعمال کا پورا پورا حساب لیا گیا وہ ہرگز عذاب سے نہ بچے گا۔- اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مؤمنین کے اعمال بھی رب العزت کے سامنے پیش تو سب ہوں گے مگر ان کے ایمان کی برکت سے ان کے ہر ہر عمل پر مناقشہ نہیں ہوگا، اسی کا نام حساب یسیر ہے اور اپنے گھر والوں کی طرف خوش خوش واپس ہونیکے دو معنے ہو سکتے ہیں، یا تو گھرو والوں سے مرادجنت کی حوریں ہیں جو وہاں اس کے اہل ہوں گی اور یہ بھی ممکن ہے کہ دنیا میں جو اس کے اہل و عیال تھے محشر کے میدان میں جب حساب کے بعد کامیابی ہوگی تو دنیا کی عادت کے مطابق اس کی خوشخبری سنانے ان کے پاس جائے، ائمہ تفسیر نے دونوں احتمال بیان فرمائے ہیں۔ (قرطبی)
فَاَمَّا مَنْ اُوْتِيَ كِتٰبَہٗ بِيَمِيْنِہٖ ٧ ۙ- «أمَّا»- و «أمَّا» حرف يقتضي معنی أحد الشيئين، ويكرّر نحو : أَمَّا أَحَدُكُما فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْراً وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ [يوسف 41] ، ويبتدأ بها الکلام نحو : أمّا بعد فإنه كذا . ( ا ما حرف ) اما ۔ یہ کبھی حرف تفصیل ہوتا ہے ) اور احد اشیئین کے معنی دیتا ہے اور کلام میں مکرر استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ ( سورة يوسف 41) تم میں سے ایک ( جو پہلا خواب بیان کرنے ولا ہے وہ ) تو اپنے آقا کو شراب پلایا کریگا اور جو دوسرا ہے وہ سونی دیا جائے گا ۔ اور کبھی ابتداء کلام کے لئے آتا ہے جیسے امابعد فانہ کذا ۔- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعرأتيت المروءة من بابها فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم 27] . يقال : أتيته وأتوته ويقال للسقاء إذا مخض وجاء زبده : قد جاء أتوه، وتحقیقه : جاء ما من شأنه أن يأتي منه، فهو مصدر في معنی الفاعل . وهذه أرض کثيرة الإتاء أي : الرّيع، وقوله تعالی: مَأْتِيًّا[ مریم 61] مفعول من أتيته . قال بعضهم معناه : آتیا، فجعل المفعول فاعلًا، ولیس کذلک بل يقال : أتيت الأمر وأتاني الأمر، ويقال : أتيته بکذا وآتیته كذا . قال تعالی: وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء 54] .[ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني . والإِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247] .- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو أَتَى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت وَجَاءَ رَبُّكَ [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) " اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ ارض کثیرۃ الاباء ۔ زرخیز زمین جس میں بکثرت پیداوار ہو اور آیت کریمہ : إِنَّهُ كَانَ وَعْدُهُ مَأْتِيًّا [ مریم : 61] بیشک اس کا وعدہ آیا ہوا ہے ) میں ماتیا ( فعل ) اتیتہ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے بعض علماء کا خیال ہے کہ یہاں ماتیا بمعنی آتیا ہے ( یعنی مفعول بمعنی فاعل ) ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ محاورہ میں اتیت الامر واتانی الامر دونوں طرح بولا جاتا ہے اتیتہ بکذا واتیتہ کذا ۔ کے معنی کوئی چیز لانا یا دینا کے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ مُلْكًا عَظِيمًا [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔ الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - يمین ( دائیں طرف)- اليَمِينُ : أصله الجارحة، واستعماله في وصف اللہ تعالیٰ في قوله : وَالسَّماواتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ- [ الزمر 67] علی حدّ استعمال الید فيه، و تخصیص اليَمِينِ في هذا المکان، والأرض بالقبضة حيث قال جلّ ذكره : وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 67] يختصّ بما بعد هذا الکتاب . وقوله :إِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَأْتُونَنا عَنِ الْيَمِينِ [ الصافات 28] أي : عن الناحية التي کان منها الحقّ ، فتصرفوننا عنها، وقوله : لَأَخَذْنا مِنْهُ بِالْيَمِينِ [ الحاقة 45] أي : منعناه ودفعناه . فعبّر عن ذلک الأخذ باليَمِينِ کقولک : خذ بِيَمِينِ فلانٍ عن تعاطي الهجاء، وقیل : معناه بأشرف جو ارحه وأشرف أحواله، وقوله جلّ ذكره : وَأَصْحابُ الْيَمِينِ [ الواقعة 27] أي : أصحاب السّعادات والمَيَامِنِ ، وذلک علی حسب تعارف الناس في العبارة عن المَيَامِنِ باليَمِينِ ، وعن المشائم بالشّمال . واستعیر اليَمِينُ للتَّيَمُّنِ والسعادة، وعلی ذلک وَأَمَّا إِنْ كانَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة 90- 91] ، وعلی هذا حمل :إذا ما راية رفعت لمجد ... تلقّاها عرابة باليَمِين - ( ی م ن ) الیمین - کے اصل معنی دایاں ہاتھ یا دائیں جانب کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَالسَّماواتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ [ الزمر 67] اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لیپٹے ہوں گے ۔ میں حق تعالیٰ کی طرف یمن نسبت مجازی ہے ۔ جیسا کہ ید وغیر ہا کے الفاظ باری تعالیٰ کے متعلق استعمال ہوتے ہیں یہاں آسمان کے لئے یمین اور بعد میں آیت : ۔ وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 67] اور قیامت کے دن تمام زمین اس کی مٹھی میں ہوگی ۔ میں ارض کے متعلق قبضۃ کا لفظ لائے میں ایک باریک نکتہ کی طرف اشارہ ہے جو اس کتاب کے بعد بیان ہوگا اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَأْتُونَنا عَنِ الْيَمِينِ [ الصافات 28] تم ہی ہمارے پاس دائیں اور بائیں ) اسے آتے تھے ۔ میں یمین سے مراد جانب حق ہے یعنی تم جانب حق سے ہمیں پھیرتے تھے اور آیت کریمہ : ۔ لَأَخَذْنا مِنْهُ بِالْيَمِينِ [ الحاقة 45] تو ہم ان کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے ۔ میں دایاں ہاتھ پکڑ لینے سے مراد روک دینا ہے جیسے محاورہ ہے : ۔ یعنی فلاں کو ہجو سے روک دو ۔ بعض نے کہا ہے کہ انسان کا دینا ہاتھ چونکہ افضل ہے سمجھاجاتا ہے اسلئے یہ معنی ہو نگے کہ ہم بہتر سے بہتر حال میں بھی اسے با شرف اعضاء سے پکڑ کر منع کردیتے اور آیت کریمہ : ۔ وَأَصْحابُ الْيَمِينِ [ الواقعة 27] اور دہنے ہاتھ والے ۔ میں دہنی سمت والوں سے مراد اہل سعادت ہیں کو ین کہ عرف میں میامن ( با برکت ) ) کو یمین اور مشاے م ( منحوس ) کو شمالی کے لفظ سے یاد کیا جاتا ہے اور استعارہ کے طور پر یمین کا لفظ بر کت وسعادت کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَأَمَّا إِنْ كانَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة 90- 91] اگر وہ دائیں ہاتھ والوں یعنی اصحاب خیر وبر کت سے ہے تو کہا جائیگا تجھ پر داہنے ہاتھ والوں کی طرف سے سلام اور ایس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( 426 ) اذا ما رایۃ رفعت ملجد تلقا ھا عرا بۃ بالیمین جب کبھی فضل ومجد کے کاموں کے لئے جھنڈا بلند کیا جاتا ہے تو عرابۃ اسے خیر و برکت کے ہاتھ سے پکڑ لیتا ہے
(٧۔ ٩) سو جس شخص کا نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں ملے گا مثلا ابو سلمہ سو اس کے حساب کی صرف پیشی ہوگی اور وہ آخرت میں اپنے متعلقین کے پاس خوش خوش آئے گا۔