[٤] کَدْحا کا لغوی مفہوم :۔ کَدْحاً ۔ کَدَحَ بمعنی کام میں بہت محنت کرنا۔ تکلیفیں سہہ سہہ کر کام کرنا۔ بمشقت کوئی کام کرتے جانا اور اس کی صورت یہ ہوتی کہ انسان کے دل میں ایک خواہش پیدا ہوتی ہے جسے پورا کرنے کے وہ درپے ہوجاتا ہے اور وہ کام ابھی پورا بھی نہیں ہوچکتا کہ کوئی اور خواہش یا خواہشیں انسان کے دل میں پیدا ہوجاتی ہیں۔ پھر وہ پہلی خواہش کی تکمیل کے بعد، بعد والی خواہش کی تکمیل کے لیے کمر ہمت باندھ لیتا ہے اور اسی طرح اس کی تمام زندگی بیت جاتی ہے۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ خواہش کرنے والا انسان ایک دنیادار ہے اور اس کی تمام تر خواہشات کا محور دنیوی مفادات کا حصول ہے۔ یا وہ ایک دیندار اور اللہ کا فرمانبردار انسان ہے اور جو کچھ وہ کرتا ہے اپنے اخروی مفادات کے حصول کے لیے کرتا ہے۔ محنت مشقت کرنے اور تکلیفیں سہہ سہہ کر کام کرتے رہنے کے لحاظ سے دونوں کا طریقہ کار یکساں ہوتا ہے تاآنکہ اسے موت آلیتی ہے اور وہ خود بخود اللہ کے حضور پہنچ جاتا ہے۔ اب اگر کوئی شخص اپنی تگ و دو کے متعلق یہی سمجھتا رہے کہ یہ صرف دنیا کی زندگی تک ہی محدود ہے تو اس کی اس غلط سوچ سے حقیقت میں کچھ فرق نہیں پڑجائے گا اور وہ اپنے پروردگار کے پاس پہنچ کر ہی دم لے گا۔
(یایھا الانسان انک اکدح…:” کا دح “” کدح یکدح “ (ف) خوب کوشش کرنا، مشقت جھیلنا، زخمی کرنا۔” الی “ کے لفظ سے اس میں رب تعالیٰ کی طرف جانے کا مفہوم ادا ہو رہا ہے، یعنی اے انسان تو زندگی بھر کسی نہ کسی کام کی مشقت میں مبتلا رہ کر آخر کار اچھے یا برے اعمال لے کر اپنے رب کے حضور پیش ہونے اولا ہے۔
یایھا الانسان انک کا دح، کدح کے معنے کسی کام میں پوری جدوجہد اور اپنی توانائی صرف کرنے کے ہیں، او الی ربک سے مراد الی لقاء ربک ہے یعنی انسان کی ہر سعی وجدوجد کی انتہا اس کے رب کی طرف ہونیوالی ہے۔- رجوع الی اللہ :۔ اس آیت میں حق تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو خطاب فرما کر اس کے غور و فکر کے لئے ایک ایسی راہ دکھائی ہے کہ اس میں کچھ بھی عقل و شعور ہو تو وہ اپنی جدوجہد کا رخ صحیح سمت کی طرف پھیر سکتا ہے جو اس کو دنیا و دنیا میں سلامتی اور عافیت کی ضمانت دے۔ پہلی بات تو یہ ارشاد فرمائی کہ انسان نیک ہو یا بد، مومن ہو یا کافر اپنی فطرت سے اس کا عادی ہے کہ کچھ نہ کچھ حرکت کرے اور کسی نہ کسی چیز کو اپنا مقصود بنا کر اس کے حاصل کرنے کے لئے جدوجہد اور محنت برداشت کرے، جس طرح ایک شریف نیک خو انسان اپنے معاش اور ضروریات زندگی کی تحصیل میں فطری اور جائز طریقوں کو اختیار کرتا ہے اور ان میں اپنی محنت و تانائی صرف کرتا ہے۔ بدکار بدخو انسان بھی اپنے مقاصد کہیں بےمحنت بےجدوجہد حاصل نہیں کرسکتا۔ چور ڈاکو بدمعاش دھوکہ فریب سے لوٹ کھسوٹ کرنے والوں کو دیکھو کیسی کیسی ذہنی اور جسمانی محنت برداشت کرتے ہیں جب ان کو ان کا مقصود حاصل ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ بتلائی کہ عاقل انسان اگر غور کرے تو اس کی تمام حرکات بلکہ سکنات بھی ایک سفر کی منزلیں ہیں جس کو وہ غیر شعوری طور پر قطع کر رہا ہے جس کی انتہا اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضری یعنی موت ہے سکنات بھی ایک سفر کی منزلیں ہیں جس کو وہ غیر شعوری طور پر قطع کر رہا ہے، جس کی انتہا اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضری یعنی موت ہے (الی ربک) میں اسی کا بیان ہے اور یہ انتہا ایسی حقیت ہے کہ جس کا کسی کو انکار نہیں ہوسکتا کہا نسان کی ہر جدوجہد اور محنت موت پر ختم ہونا یقینی ہے۔ تیسری بات یہ بتلائی کہ موت کے بعد اپنے رب کے سامنے حاضری کے وقت اس کی تمام حرکات و اعمال اور ہر جدوجہد کا حساب ہونا ازروئے عقل و انصاف ضروری ہے تاکہ نیک و بد کا انجام الگ الگ تمام حرکات و اعمال اور ہر جدوجہد کا حساب ہونا اور ازروئے عقل و انصاف ضروری ہے تاکہ نیک و بد کا انجام الگ الگ معلوم ہو سکے ورنہ دنیا میں تو اس کا کوئی امتیاز نہیں ہوتا، ایک نیک آدمی ایک مہینہ محنت مزدوری کر کے اپنا رزق اور معلوم ہو سکے ورنہ دنیا میں تو اس کا کوئی امتیاز نہیں ہوتا، ایک نیک آدمی ایک مہینہ محنت مزدوری کر کے اپنا رزق اور جو ضروریات حاصل کرتا ہے، چور ڈاکو اس کو ایک رات میں حاصل کرلیتے ہیں۔ اگر کوئی وقت حساب کا اور جزاء سزا کا نہ آئے تو دونوں برابر ہوگئے جو عقل و انصاف کے خلاف ہے۔ آخر میں فرمایا فملقیہ، ملاقیہ کی ضمیر کدح کی طرف بھی راج ہو سکتی ہے تو معنی یہ ہوں گے کہ جدوجہد یہاں انسان کر رہا ہے بالاخر اپنے رب کے پاس پہنچ کر اپنی اس کمائی سے ملے گا اور اس کے اچھے یا برے نتائج اس کے سامنے آجائیں گے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ملاقیہ کی ضمیر رب کی طرف راجع ہو اور معنی یہ ہوں کہ ہر انسان آخرت میں اپنے رب سے ملنے والا اور حساب کے لئے اس کے سامنے پیش ہونے والا ہے، آگے نیک و بد اور مومن و کافر انسانوں کے لگے الگ انجام کا ذکر ہے جس کی ابتدا اعمال نامہ کا داہنے یا بائیں اتھ میں آجانا ہی نیک و بد اور مومن و کافر انسانوں کے الگ الگ انجام کا ذکر ہے جس کی ابتداء اعمال نامہ کا دہنے یا بائیں ہاتھ میں آجانا ہی داہنے والوں کو جنت کی دائمی نعمتوں کی بشارت اور بائیں ولاوں کو دوزخ کے عذاب کی اطلاع مل جاتی ہے۔ اس مجموعہ پر اگر انسان غور کرے کہ ضروریات زندگی بلکہ اپنے نفس کی غیر ضروری مرغوبات کو بھی حاصل تو نیک و بد دونوں ہی کرلیتے ہیں۔ اس طرح دنیا کی زندگی دونوں کی گزر جاتی ہے مگر ان دونوں کے انجام میں زمین و آسمان کا فرق ہے ایک کے نتیجہ میں دائمی غیر منقطع راحت ہی راحت ہے، دوسرے کے نتیجہ میں دائمی مصیبت و عذاب ہے پھر کیوں نہ انسان اس انجام کو آج ہی سوچ سمجھ کر اپنی سعی و عمل کا رخ اس طرف پھیر دے جو دنیا میں بھی اس کی ضرورتوں کو پورا کر دے اور آخرت کی دائمی نعمت بھی اس کو حاصل رہے۔
اے انسان یعنی ابو الاسود بن کلدہ کافر تو اپنے رب کے پاس پہنچنے تک اپنے کفر میں پوری کوشش کررہا ہے اور پھر قیامت کے دن اپنے عمل سے جاملے گا۔
آیت ٦ یٰٓــاَیُّہَا الْاِنْسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلٰقِیْہِ ۔ ” اے انسان تو مشقت پر مشقت برداشت کرتے جا رہا ہے اپنے رب کی طرف ‘ پھر تو اس سے ملنے والا ہے۔ “- یہ دنیا انسان کے لیے دارالمِحن یعنی مشقتوں کا گھر ہے۔ انسانی زندگی کی اس تلخ حقیقت کو سورة البلد میں یوں بیان فرمایا گیا : لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ ۔ کہ انسان تو پیدا ہی مشقت میں کیا گیا ہے۔ گویا مشقتیں برداشت کرنا ‘ دکھ اٹھانا اور سختیاں جھیلنا انسان کا مقدر ہے۔ اس سے کسی انسان کو رستگاری نہیں۔ مزدور ہے تو وہ صبح سے شام تک جسمانی سختیاں سہہ رہا ہے۔ کارخانہ دار ہے تو انتظامی گتھیوں کو سلجھانے میں جگر خون کر رہا ہے۔ اگر کوئی کسی دفتر کی کرسی پر بیٹھا ہے تو ذہنی مشقت کی چکی ّمیں ِپس رہا ہے۔ پھر اپنی اور اہل و عیال کی بیماریاں ‘ معاشی مشکلات ‘ معاشرتی الجھنیں ‘ مال و جان کی حفاظت کی فکر وغیرہ کی صورت میں ذہنی و نفسیاتی پریشانیاں الگ ہیں جو ہر انسان کے گلے کا ہار بنی ہوئی ہیں۔ دوسروں سے مسابقت اور مقابلے کا غم اس کے علاوہ ہے جو ہر انسان نے اپنے دل و دماغ میں کسی نہ کسی سطح پر ضرور پال رکھا ہے۔ پیدل چلنے والا سائیکل سوار کو رشک بھری نظروں سے دیکھتا ہے ‘ سائیکل سوار کار والے کے حسد میں مبتلا ہے۔ چھوٹی کار والا بڑی کار والے سے جلن کا شکار ہے۔ غرض مشقت ‘ تکلیف یا غم کی نوعیت تو مختلف ہوسکتی ہے مگر کوئی انسان ایسا نہیں جو کسی نہ کسی دکھ ‘ پریشانی یا مشقت میں مبتلا نہ ہو۔ ان مشقتوں ‘ تکلیفوں اور پریشانیوں کا سامنا انسان کو روز اوّل سے ہے اور رہتی دنیا تک رہے گا۔ جیتے جی کوئی انسان اس سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتا۔ مرزا غالب ؔنے اس حوالے سے بڑے پتے کی بات کہی ہے : ؎- قید ِحیات و بند ِغم اصل میں دونوں ایک ہیں - موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں - ان مشقتوں اور مصیبتوں میں گھری انسانی زندگی کی یہ سختیاں اور پریشانیاں اپنی جگہ ‘ لیکن انسان کا اصل مسئلہ اس سے کہیں زیادہ گھمبیر اور پریشان کن ہے۔ اور وہ مسئلہ ہے کہ : ؎- اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے - مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے ؟- (ابراہیم ذوق)- انسان کے اخروی احتساب کا تصور ذہن میں لائیں اور پھر موازنہ کریں کہ باقی جانداروں کے مقابلے میں ” انسان “ کس قدر مشکل میں ہے۔ ایک بار بردار جانور کی زندگی کا معمول چاہے جتنا بھی مشکل ہو لیکن اس کی مشقت اور تکلیف اس کی زندگی کے ساتھ ختم ہوجاتی ہے۔ ظاہر ہے ایک بیل جب ہل یا رہٹ چلاتے چلاتے مرجاتا ہے تو اس مشقت سے ہمیشہ کے لیے چھوٹ جاتا ہے۔ لیکن اس کے مقابلے میں ایک انسان ہے جو کو فت پر کو فت برداشت کرتا اور تکلیف پر تکلیف جھیلتا جب اس دنیا سے جائے گا تو اسے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی دنیوی زندگی کے ایک ایک پل کا حساب دینا ہوگا۔ اس ضمن میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے : - (لَا تَزُوْلُ قَدَمُ ابْنِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنْ عِنْدِ رَبِّہٖ حَتّٰی یُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ : عَنْ عُمُرِہٖ فِیْمَا اَفْنَاہُ ، وَعَنْ شَبَابِہٖ فِیْمَا اَبْلَاہُ ، وَمَالِہٖ مِنْ اَیْنَ اکْتَسَبَہٗ وَفِیْمَ اَنَفَقَہٗ ، وَمَاذَا عَمِلَ فِیْمَا عَلِمَ ) (١)- ” ابن آدم کے پائوں قیامت کے روز اپنے رب کے حضور اپنی جگہ سے ہل نہیں سکیں گے جب تک اس سے پانچ چیزوں کا حساب نہ لے لیا جائے : اس کی عمر کے بارے میں کہ کہاں فنا کی ؟ اس کی جوانی (کی قوتوں ‘ صلاحیتوں اور امنگوں ) کے دور کے بارے میں کہ کیسے گزارا ؟ مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا ؟ (حلال ذرائع سے کمایا یا حرام طریقے سے اور اللوں ّتللوں میں خرچ کیا یا ادائے حقوق کے لیے ؟ ) اور جو علم حاصل ہوا تھا اس پر کتنا عمل کیا ؟ “- یعنی دنیا میں باربرداری بھی کرو ‘ جسمانی ‘ ذہنی اور نفسیاتی اذیتیں بھی برداشت کرو۔ مال وجان اور اولاد سے متعلق رنگا رنگ صدمے جھیلتے جھیلتے زندگی بھر کانٹوں پر بھی لوٹتے رہو اور پھر مرنے کے بعد ایک ایسی ہستی کے سامنے کھڑے ہو کر پل پل کا حساب بھی دو جس سے تمہارے قلوب و اذہان کی گہرائیوں میں پیدا ہونے والے جذبات و خیالات بھی پوشیدہ نہیں ۔ یہ ہے ” انسان “ کی اصل ٹریجڈی - یہ مرحلہ ایک انسان کے لیے ایسا مشکل ہے کہ اسے یاد کر کے حضرت ابوبکر صدیق (رض) اکثر رویا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ کاش میں ایک چڑیا ہوتا - دیکھا جائے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درج بالا فرمان میں مذکور سوالات میں سے آخری سوال سب سے مشکل ہے۔ جس کسی نے دین اور قرآن کا علم جس قدر زیادہ سیکھا اس کے لیے اس کا حساب دینا اسی قدر مشکل ہوگا۔ اگر کسی انسان تک قرآن کی یہ دعوت پہنچ ہی نہیں پائی تو ممکن ہے کہ اس کی طرف سے کوئی عذر بھی قبول ہوجائے۔ (ایسی صورت میں اس کوتاہی کا کچھ نہ کچھ بوجھ ان لوگوں پر بھی ضرور پڑے گا جنہوں نے اسے دعوت پہنچانے میں تساہل برتا ) لیکن جن لوگوں تک قرآن کی دعوت پہنچ گئی اور انہوں نے اپنی استعداد کے مطابق قرآن کے پیغام کو سمجھ بھی لیا تو ظاہر ہے ان کے لیے اس آخری سوال کا جواب دینا بہت مشکل ہوگا۔
سورة الْاِنْشِقَاق حاشیہ نمبر :5 یعنی وہ ساری تگ و دو اور دوڑ دھوپ جو تو دنیا میں کر رہا ہے ، اس کے متعلق چاہے تو یہی سمجھتا رہے کہ یہ صرف دنیا کی زندگی تک ہے اور دنیوی اغراض کے لیے ہے ، لیکن در حقیقت تو شعوری یا غیر شعوری طور پر جا رہا ہے اپنے رب کی طرف اور آخر کار وہیں تجھے پہنچ کر رہنا ہے ۔
4: اِنسان کی پوری زندگی کسی نہ کسی کوشش میں خرچ ہوتی ہے۔ جو نیک لوگ ہیں، وہ اﷲ تعالیٰ کے اَحکام کی تعمیل میں محنت کرتے ہیں، اور جو دُنیا پرست ہیں، وہ صرف دُنیا کے فوائد حاصل کرنے کے لئے محنت کرتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ ہر اِنسان کا آخری انجام یہ ہوتا ہے کہ وہ محنت کرتا کرتا اﷲ تعالیٰ کے پاس پہنچ جاتا ہے۔