2۔ 1 اس سے مراد قیامت کا دن ہے۔
والیوم الموعود : قیامت کا دن، جس کا جزا و سزا کے لئے وعدہ کیا گیا ہے۔
والیوم المرعودہ وشاھد ومشھود خلاصہ تفسیر میں ترمذی کی مرفوع حدیث کے حوالہ سے ان الفاظ کی تفسیر لکھدی گئی ہے کہ یوم موعود سے مراد روز قیامت اور شاہد سے مراد روز جمعہ اور مشہود سے مراد روز عرفہ ہے اس آیت میں حق تعالیٰ نے چار چیزوں کی قسم کھائی اول برجوں والے آسمان کی۔ پھر قیامت کے روز کی پھر جمعہ اور عرفہ کے دنوں کی۔ مناسبت ان چیزوں کی قسم کی جواب قسم کیساتھ یہ کہ یہ سب چیزیں حق تعالیٰ جل شانہ کی قدرت کاملہ پر اور پھر قیامت کے روز حساب کتاب اور جزا سزا پر دلیل ہیں اور روز جمعہ و عرفہ مؤمنین کے لئے ذخیرہ آخرت جمع کرنے کے مبارک دن ہی، آگے جواب قسم میں ان کفار پر لعنت آئی ہے جنہوں نے مسلمانوں کو ان کے ایمان کی وجہ سے آگ میں جلایا اور پھر مؤمنین کے درجات آخرت کا بیان فرمایا۔- واقعہ اصحاب اخدود کی کچھ تفصیل :۔ یہی واقعہ اس سورت کے نزول کا سبب ہے جس کا خلاصہ صحیح مسلم کی حدیث کے حوالہ سے خلاصہ تفسیر میں بیان ہوچکا ہے۔ یہ شخص جس کو اس واقعہ میں کاہن کہا گیا بعض روایات میں کاہن کے بجائے ساحر آیا ہے اور یہ بادشاہ جس کا ذکر اس قصہ میں ہے ملک یمن کا بادشاہ تھا جس کا نام حضرت ابن عباس کی روایت میں یوسف ذونواس تھا، اس کا زمانہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت باسعادت سے تر سال پہلے کا زمانہ تھا اور یہ لڑکا جس کو کاہن یا ساحر کے پاس اس کا فن سیکھنے کے لئے بادشاہ نے مامور کیا تھا اس کا نام عبداللہ بن تامر ہے اور راہب عیسائی مذہب کا عابد و زاہد ہے اور اس زمانے میں چونکہ مذہب عیسیٰ (علیہ السلام) ہی دین حق تھا اس لئے یہ راہب اس وقت کا سچا مسلمان تھا، یہ لڑکا عبداللہ بن تامرجس کو کہانت یا سحر سیکھنے کے لئے بادشاہ نے مامور کیا تھا اور وہ راستہ میں راہب کے پاس جاتا اور اس کا کلام سن کر متاثر ہوتا اور بالاخر مسلمان ہوگیا تھا، اللہ تعالیٰ نے اس کو ایمان بھی ایسا پختہ نصیب فرمایا کہ ایمان کی خاطر لوگوں کی ایذائیں برداشت کرتا تھا، کیونکہ جب جانے کے وقت راستہ میں راہب کے پاس بیٹھتا یہاں کچھ وقت لگتا تو جب ساحر یا کاہن کے پاس دیر سے پہنتا تو وہ اس کو مارتا تھا اور واپسی کے وقت جب پھر راہب کے پاس بیٹھتا تو گھر واپس جانے میں دیر ہوتی اس پر گھر والے اس کو مارتے تھے مگر اس نے کسی کی پرواہ کئے بغیر رابہ کی صحبت و مجالست نہ چھوڑی، اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے اس کو وہ کرامات عطا فرمائیں جن کا ذکر اوپر آ چکا ہے۔ اس ظالم بادشاہ نے ایمان لانیوالوں کو عذاب دینے کے لئے خندق کھدوا کر اس کو آگ کے بڑے شعلوں سے لبریز کیا پھر ایمان لانیوالوں میں سے ایک ایک کو حاضر کر کے کہا کہ یا ایمان کو چھوڑ دو یا پھر اس خندق میں گر جانا پڑیگا، اللہ تعالیٰ نے ان مؤمنین کو ایسی استقامت بخشی کہ ان میں سے ایک بھی ایمان چھوڑنے پر راضی نہ ہوا اور آگ میں گر جانا قبول کیا، صرف ایک عورت جس کی گود میں ایک بچہ تھا اس کو آگ میں گرنے سے ذرا جھجک ہوئی تو چھوٹا سا بچہ بولا کہ اماں جان صبر کرو، کیونکہ آپ حق پر ہیں جو لوگ اس طرح دہکتی آگ میں جلا کر اس ظالم نے قتل کئے ان کی تعداد بعض روایات میں بارہ ہزار، بعض میں سے اس سے زیادہ مقنلو ہے۔- اور یہ لڑکا جس کی کرامتوں کا ذکر اوپر آ چکا ہے اور یہ کہ اس نے خودبادشاہ کو اپنے قتل کی یہ صورت بتلائی کہ تم میرے ترکش کا تیرلو اور اس پر باسم اللہ ربی کہہ کر میرے تیر مارو تو میں مر جاؤں گا، اس ترکیب کے ساتھ لڑکے نے تو جان دے دی مگر اس واقعہ کو دیکھ کر بادشاہ کی ساری قوم نے عرہ لگایا اور اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کردیا، کافر کو حق تعالیٰ نے دنیا میں بھی غائب و خاسر بنادیا۔- محمد بن اسحاق کی روایت میں ہے کہ یہ لڑکا عبداللہ ابن تامر جس جگہ مدفون تھا اتفاقاً کسی ضرورت سے وہ زمین حضرت فاروق اعظم (رح) کے زمانے میں کھودی گئی تو اس میں عبداللہ بن تامر کی لاش صحیح سالم اس طرح برآمد ہوئی کہ وہ بیٹھے ہوئے تھے اور ان کا ہاتھ اپنی پٹھ پڑی پر رکھا ہوا تھا جہاں تیر لگا تھا، کسی دیکھنے والے نے ان کا ہاتھ اس جگہ سے ہٹایا تو زخم سے خون جاری ہوگیا پھر ویسے ہی رکھد دیا تو بند ہوگیا، ان کے ہاتھ میں ایک انگوٹھی تھی جس پر لکھا ہوا تھا اللہ ربی عامل یمن نے اس واقعہ کی اطلاع حضرت فاروق اعظم کو دی تو آپ نے جواب میں لکھا کہ ان کو ان کی ہیبت پر انگوٹھی سمیت اسی طرح چھپا دو جیسے ہپلے تھے۔ (ابن کثیر) - فائدہ :۔ ابن کثیر نے بحوالہ اب ابی حاتم نقل کیا ہے کہ آگ کی خندق کا واقعہ دنیا میں ایک ہی نہیں بہت مختلف ملکوں اور زمانوں میں ہوئے ہیں، پھر ابن ابی حاتم نے ان واقعات میں سے تین کا خصوصیت سے ذکر کیا کہ ایک خندق یمن میں تھی (جس کا واقعہ زمان فترت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ستر سال پہلے پیش آیا ہے) دوسری خندق شام میں، تیسری فارس میں تھی۔ مگر قرآن کریم میں جس خندق کا ذکر اس سورت میں ہے وہ خندق نجران ملک یمن کی خندق ہے کیونکہ یہی عرب کے ملک میں تھی۔
وَالْيَوْمِ الْمَوْعُوْدِ ٢ ۙ- وَالْيَوْمِ الْمَوْعُودِ [ البروج 2] وإشارة إلى القیامة
آیت ٢ وَالْیَوْمِ الْمَوْعُوْدِ ۔ ” اور قسم ہے اس دن کی جس کا وعدہ کیا گیا ہے ۔ “- یعنی قیامت کا دن ‘ جو آکر رہے گا۔
سورة الْبُرُوْج حاشیہ نمبر :2 یعنی روز قیامت ۔
1: یعنی قیامت کا دِن۔