3۔ 1 شَاھْدٍ اور مَشْھُوْدِ کی تفسیر میں بہت اختلاف ہے، امام شوکانی نے احادیث و آثار کی بنیاد پر کہا ہے کہ شاہد سے مراد جمعہ کا دن ہے، اس دن جس نے جو بھی عمل کیا ہوگا یہ قیامت کے دن اس کی گواہی دے گا، اور مشہود سے عرفہ (9 ذوالحجہ) کا دن ہے جہاں لوگ حج کے لئے جمع اور حاضر ہوتے ہیں۔
[٢] آیت نمبر ٢ میں (الیوم الموعود) سے مراد تو قیامت کا دن ہے مگر آیت نمبر ٣ میں شاہد اور مشہود کی تعبیر میں بہت اختلاف واقع ہوا ہے۔ کسی نے کہا کہ شاہد سے مراد جمعہ کا دن ہے جو ہر قریہ اور ہر شہر میں ہر جگہ حاضر ہوتا ہے۔ اور مشہود سے مراد عرفہ کا دن ہے۔ جب کہ دنیا کے گوشے گوشے سے لوگ وہاں حاضر ہوتے ہیں کسی نے کہا شاہد سے مراد یوم النحر اور مشہود سے مراد یوم عرفہ ہے وغیرہ وغیرہ لیکن ربط مضمون کے لحاظ سے یہی تعبیر بہتر معلوم ہوتی ہے کہ مشہود سے مراد بھی قیامت کا دن ہو اور شاہد سے مراد قیامت کے دن اکٹھا کی جانے والی خلقت سے ہر فرد مراد ہو جو قیامت اور اس کی ہولناکیوں کو بچشم خود ملاحظہ کر رہا ہو۔ اور چوتھا مفہوم یہ ہے کہ شاہد سے مراد انبیاء اور صلحاء لیے جائیں اور مشہود سے مراد ان کی قومیں جن پر وہ گواہی دے کر ان پر حجت قائم کریں گے۔
واشھد و مشھود :” شاھد “ حاضر ہونے والا۔” مشھود “ جس کے پاس حاضر ہوا جائے۔ لفظوں کے لحاظ سے اس میں وہ سب لوگ شامل ہیں جو کہیں حاضر ہوسکتے ہیں اور مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ اسی طرح وہ تمام چیزیں بھی شامل ہیں جن کا مشاہدہ ہوسکتا ہے یا جن کے پاس کوئی حاضر ہوسکتا ہے۔ اہل علم نے ” شاھد “ اور ” مشھود “ کی تفسیر کرتے ہوئے جس چیز کو زیادہ اہم یا معروف یا مناسب مسجھا اس کے ساتھ تفسیر کردی۔ چناچہ بہت سے صحابہ و تابعین نے ” شاھد “ سے مراد یوم جمعہ اور ” مشھود “ سے مراد یوم عرفہ لیا ہے۔ الفاظ کے عموم سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد ہر وہ فرد ہے جو کہیں حاضر ہوتا ہے اور حاضری کا ہر وہ موقع ہے جس میں کوئی فرد حاضر ہوتا ہے۔
وَشَاہِدٍ وَّمَشْہُوْدٍ ٣ ۭ- شاهِدٌ- وقد يعبّر بالشهادة عن الحکم نحو : وَشَهِدَ شاهِدٌ مِنْ أَهْلِها[يوسف 26] ، وعن الإقرار نحو : وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَداءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ فَشَهادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهاداتٍ بِاللَّهِ [ النور 6] ، أن کان ذلک شَهَادَةٌ لنفسه . وقوله وَما شَهِدْنا إِلَّا بِما عَلِمْنا [يوسف 81] أي : ما أخبرنا، وقال تعالی: شاهِدِينَ عَلى أَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ [ التوبة 17] ، أي : مقرّين . لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنا [ فصلت 21] ، وقوله : شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لا إِلهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلائِكَةُ وَأُولُوا الْعِلْمِ [ آل عمران 18] ، فشهادة اللہ تعالیٰ بوحدانيّته هي إيجاد ما يدلّ علی وحدانيّته في العالم، وفي نفوسنا کما قال الشاعر : ففي كلّ شيء له آية ... تدلّ علی أنه واحدقال بعض الحکماء : إنّ اللہ تعالیٰ لمّا شهد لنفسه کان شهادته أن أنطق کلّ شيء كما نطق بالشّهادة له، وشهادة الملائكة بذلک هو إظهارهم أفعالا يؤمرون بها، وهي المدلول عليها بقوله :- فَالْمُدَبِّراتِ أَمْراً [ النازعات 5] ، اور کبھی شہادت کے معنی فیصلہ اور حکم کے ہوتے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَشَهِدَ شاهِدٌ مِنْ أَهْلِها[يوسف 26] اس کے قبیلہ میں سے ایک فیصلہ کرنے والے نے فیصلہ کیا ۔ اور جب شہادت اپنی ذات کے متعلق ہو تو اس کے معنی اقرار کے ہوتے ہیں ۔ جیسے فرمایا وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَداءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ فَشَهادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهاداتٍ بِاللَّهِ [ النور 6] اور خود ان کے سوا ان کے گواہ نہ ہو تو ہر ایک کی شہادت یہ ہے کہ چار بار خدا کی قسم کھائے ۔ اور آیت کریمہ : ما شَهِدْنا إِلَّا بِما عَلِمْنا [يوسف 81] اور ہم نے تو اپنی دانست کے مطابق ( اس کے لے آنے کا ) عہد کیا تھا ۔ میں شھدنا بمعنی اخبرنا ہے اور آیت کریمہ : شاهِدِينَ عَلى أَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ [ التوبة 17] جب کہ وہ اپنے آپ پر کفر کی گواہی دے رہے ہوں گے ۔ میں شاھدین بمعنی مقرین ہے یعنی کفر کا اقرار کرتے ہوئے ۔ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنا [ فصلت 21] تم نے ہمارے خلاف کیوں شہادت دی ۔ اور ایت کریمہ ؛ شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لا إِلهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلائِكَةُ وَأُولُوا الْعِلْمِ [ آل عمران 18] خدا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتے اور علم والے لوگ ۔ میں اللہ تعالیٰ کے اپنی وحدانیت کی شہادت دینے سے مراد عالم اور انفس میں ایسے شواہد قائم کرنا ہے جو اس کی وحدانیت پر دلالت کرتے ہیں ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ۔ (268) ففی کل شیئ لہ آیۃ تدل علی انہ واحد ہر چیز کے اندر ایسے دلائل موجود ہیں جو اس کے یگانہ ہونے پر دلالت کر رہے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ باری تعالیٰ کے اپنی ذات کے لئے شہادت دینے سے مراد یہ ہے کہ اس نے ہر چیز کو نطق بخشا اور ان سب نے اس کی وحدانیت کا اقرار کیا ۔ اور فرشتوں کی شہادت سے مراد ان کا ان افعال کو سر انجام دینا ہے جن پر وہ مامور ہیں ۔ جس پر کہ آیت ؛فَالْمُدَبِّراتِ أَمْراً [ النازعات 5] پھر دنیا کے کاموں کا انتظام کرتے ہیں ۔ دلاکت کرتی ہے ۔- شَّهِيدُ- وأمّا الشَّهِيدُ فقد يقال لِلشَّاهِدِ ، والْمُشَاهِدِ للشیء، وقوله : مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق 21] ، أي : من شهد له وعليه، وکذا قوله : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء 41] ، وقوله : أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، أي : يشهدون ما يسمعونه بقلوبهم علی ضدّ من قيل فيهم : أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] ، وقوله : أَقِمِ الصَّلاةَ إلى قوله : مَشْهُوداً أي : يشهد صاحبه الشّفاء والرّحمة، والتّوفیق والسّكينات والأرواح المذکورة في قوله : وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ ما هُوَ شِفاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ [ الإسراء 82] ، وقوله : وَادْعُوا شُهَداءَكُمْ [ البقرة 23] ، فقد فسّر بكلّ ما يقتضيه معنی الشهادة، قال ابن عباس : معناه أعوانکم وقال مجاهد : الذین يشهدون لكم، وقال بعضهم : الذین يعتدّ بحضورهم ولم يکونوا کمن قيل فيهم شعر :- مخلّفون ويقضي اللہ أمرهمو ... وهم بغیب وفي عمیاء ما شعروا وقد حمل علی هذه الوجوه قوله : وَنَزَعْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ القصص 75] ، وقوله : وَإِنَّهُ عَلى ذلِكَ لَشَهِيدٌ [ العادیات 7] ، أَنَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ [ فصلت 53] ، وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء 79] ، فإشارة إلى قوله : لا يَخْفى عَلَى اللَّهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ [ غافر 16] ، وقوله : يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه 7] ، ونحو ذلک ممّا نبّه علی هذا النحو، والشَّهِيدُ : هو المحتضر، فتسمیته بذلک لحضور الملائكة إيّاه إشارة إلى ما قال : تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ أَلَّا تَخافُوا ... الآية [ فصلت 30] ، قال : وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ [ الحدید 19] ، أو لأنهم يَشْهَدُونَ في تلک الحالة ما أعدّ لهم من النّعيم، أو لأنهم تشهد أرواحهم عند اللہ كما قال : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ بِما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ آل عمران 169- 170] ، وعلی هذا دلّ قوله : وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ ، وقوله : وَشاهِدٍ وَمَشْهُودٍ [ البروج 3] ، قيل : الْمَشْهُودُ يوم الجمعة وقیل : يوم عرفة، ويوم القیامة، وشَاهِدٌ: كلّ من شهده، وقوله : يَوْمٌ مَشْهُودٌ [هود 103] ، أي : مشاهد تنبيها أن لا بدّ من وقوعه، والتَّشَهُّدُ هو أن يقول : أشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أنّ محمدا رسول الله، وصار في التّعارف اسما للتّحيّات المقروءة في الصّلاة، وللذّكر الذي يقرأ ذلک فيه .- شھید یہ کبھی بمعنی شاہد یعنی گواہ آتا ہے چناچہ آیت مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق 21] اسکے ساتھ ( ایک) چلانے والا اور ( ایک ، گواہ ہوگا ۔ میں شہید بمعنی گواہ ہی ہے جو اس کے لئے یا اس پر گواہی دیگا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء 41] بھلا اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے احوال بتانے والے کو بلائیں گے اور تم کو لوگوں کا حال بتانے کو گواہ طلب کریں گے ۔ میں بھی شہید بمعنی شاہد ہی ہے اور آیت کریمہ ؛ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہوکر سنتا ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ جو کچھ سنتے ہیں ان کے دل اس کی شہادت دیتے ہیں ۔ بخلاف ان لوگوں کے جن کے متعلق فرمایا ہے ۔: أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] ان کو ( گویا) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَقِمِ الصَّلاةَ ۔۔ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا کیونکہ صبح کے وقت قرآن کا پڑھنا موجب حضور ملائکہ ہے ۔ میں قرآن کے مشہود ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس کی قرات کرنے والے پر شفاء رحمت ، توفیق ، سکینت اور ارواح نازل ہوتی ہیں ۔ جن کا کہ آیت ؛ وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ ما هُوَ شِفاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ [ الإسراء 82] اور ہم قرآن کے ذریعہ سے وہ کچھ نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لئے شفا اور رحمت ہے ۔ میں ذکر پایا جاتا ہے ۔ اور آیت : وَادْعُوا شُهَداءَكُمْ [ البقرة 23] اور جو تمہارے مددگار ہیں ان کو بلا لو ۔ میں شھداء کی تفسیر میں مختلف اقوال ہیں جن پر معنی شہادت مشتمل ہے ۔ چناچہ ابن عباس نے اس کے معنی اعوان یعنی مددگار کے کئے ہیں اور مجاہدہ نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ جو تمہارے حق میں گواہی دیں ۔ اور بعض نے شہداء سے وہ لوگ مراد لئے ہیں ۔ جن کے موجود ہونے کو قابل قدر اور معتبر سمجھا جائے یعنی وہ ایسے لوگ نہ ہوں جن کے متعلق کہا گیا ہے ( البسیط) (269) مخلّفون ويقضي اللہ أمرهمو ... وهم بغیب وفي عمیاء ما شعروا وہ پیچھے رہتے ہیں اور لوگ اپنے معاملات کا فیصلہ کرلیتے ہیں وہ غیر حاضر اور بیخبر ہوتے ہیں اور ان کو اس بات کو علم تک نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : وَنَزَعْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ القصص 75] اور ہم امت میں سے گواہ نکال لیں گے ۔ میں بھی شہید کا لفظ انہی معانی پر حمل کیا گیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِنَّهُ عَلى ذلِكَ لَشَهِيدٌ [ العادیات 7] اور وہ اس سے آگاہ بھی ہے ۔ أَنَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ [ فصلت 53] کہ تمہارا پروردگار ہر چیز سے باخبر ہے ۔ وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء 79] اور ( حق ظاہر کرنے کو ) خدا ہی کافی ہے ۔ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے ک حق تعالیٰ سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : لا يَخْفى عَلَى اللَّهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ [ غافر 16] اور کوئی چیز خدا سے مخفی نہیں رہے گی ۔ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه 7] وہ تو چھپے بھید اور پوشیدہ بات تک کو جانتا ہے ۔ علی ہذالقیاس متعدد آیات ایسی ہیں جو اس معنی ( یعنی علم باری تعالیٰ کے محیط ہونے ) پر دال ہیں ۔ اور قریب المرگ شخص کو بھی شہید کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے پاس فرشتے حاضر ہوتے ہیں چناچہ آیت کریمہ : تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ أَلَّا تَخافُوا ... الآية [ فصلت 30] آلایۃ ان پر فرشتے اتریں گے اور کہیں گے کہ خوف نہ کرو ۔ میں بھی اسی معنی کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔ اور فرمایا ۔ وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ [ الحدید 19] اور اپنے پروردگار کے نزدیک شہید ہیں ان کے لئے ان کے اعمال کا صلہ ہوگا ۔ اور شھداء کو شھداء یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حالت نزع میں ان نعمتوں کا مشاہدہ کرلیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے تیار کی ہیں اور یا اس لئے کہ ان کے ارواح باری تعالیٰ کے ہاں حاضر کئے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ فرمایا : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ بِما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ آل عمران 169- 170] اور جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے اور ان کو مردہ مت سمجھنا اور آیت کریمہ : وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْاور پروردگار کے نزدیک شہید ہیں ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے اور آیت کریمہ : وَشاهِدٍ وَمَشْهُودٍ [ البروج 3] اور حاضر ہونے والے کی اور جو اس کے پاس حاضر کیا جائے اس کی قسم۔ میں بعض نے کہا ہے کہ مشھود سے یوم جمعہ مراد ہے اور بعض نے یوم عرفہ مراد لیا ہے ۔ اور بعض نے یوم قیامت اور شاھد سے ہر وہ شخص مراد ہوسکتا ہے جو اس روز میں حاضر ہوگا اور آیت کریمہ : يَوْمٌ مَشْهُودٌ [هود 103] اور یہی وہ دن ہے جس میں خدا کے روبرو حاضرکئے جائینگے ۔ میں مشھود بمعنی مشاھد ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ وہ دن ضرور آکر رہے گا ۔ التشھد کے معنی اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا رسول اللہ پڑھنے کے ہیں اور عرف میں تشہد کے معنی التحیات اور ان اذکار کے ہیں جو حالت تشہد ( جلسہ ) میں پڑھے جاتے ہیں ۔
آیت ٣ وَشَاہِدٍ وَّمَشْہُوْدٍ ۔ ” اور قسم ہے حاضر ہونے والے کی اور اس کی جس کے پاس حاضر ہوا جائے ۔ “- اس آیت کی بہت سی تعبیرات کی گئی ہیں ‘ جن میں سے ایک تعبیر یہ ہے کہ شَاہِد سے مراد جمعہ کا دن ہے ‘ جو شہر شہر بستی بستی لوگوں کے پاس حاضر ہوتا ہے ‘ جبکہمَشْہُوْد عرفہ (١٠ ذی الحجہ) کا دن ہے جس کے پاس لوگوں کو خود میدانِ عرفات میں جا کر حاضر ہونا پڑتا ہے۔
سورة الْبُرُوْج حاشیہ نمبر :3 دیکھنے والے اور دیکھی جانے والی چیز کے بارے میں مفسرین کے بہت سے اقوال ہیں ، مگر ہمارے نزدیک سلسلہ کلام سے جو بات مناسبت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ دیکھنے والے سے مراد ہر وہ شخص ہے جو قیامت کے روز حاضر ہو گا اور دیکھی جانے والی چیز سے مراد خود قیامت ہے جس کے ہولناک احوال کو سب دیکھنے والے دیکھیں گے ۔ یہ مجاہد ، عکرمہ ، ضحاک ، ابن نجیح اور بعض دوسرے مفسرین کا قول ہے ۔
2: قرآنِ کریم میں اصل لفظ ’’شاہد‘‘ اور ’’مشہود‘‘ ہیں۔ شاہد کا ترجمہ ’’حاضر ہونے والے‘‘ سے اور مشہود کا ’’جس کے پاس لوگ حاضر ہوں۔‘‘ سے کیا گیا ہے۔ اس کی ایک تفسیر یہ ہے کہ شاہد سے مراد جمعہ کا دِن ہے، اور مشہود سے مراد عرفہ کا دن ہے۔ اس کی تائید ترمذی میں حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ کی ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ جسے امام ترمذیؒ نے ضعیف کہا ہے، اور طبرانی میں حضرت ابو مالک اشعریؓ کی ایک حدیث سے بھی جسے علامہ ہیثمیؒ نے ضعیف کہا ہے۔ اس کی ایک دوسری تفسیر یہ ہے کہ شاہد سے مراد اِنسان ہے، اور مشہود سے مراد قیامت کا دِن ہے، کیونکہ ہر اِنسان اُس دن اﷲ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوجائے گا۔ حافظ ابن جریرؒ نے یہ تفسیر حضرت مجاہدؒ اور حضرت ضحاکؒ وغیرہ سے نقل کی ہے۔ ’’شاہد‘‘ کا ایک ترجمہ گواہ بھی کیا جاسکتا ہے، اور ’’مشہود‘‘ کا وہ جس کے بارے میں گواہی دی جائے۔ قیامت میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اہلِ اِیمان کے ایمان کی گواہی دیں گے، اس لئے اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے۔ حافظ ابن جریر رحمۃ اﷲ علیہ یہ سب تفسیریں نقل کر کے فرماتے ہیں کہ قرآنِ کریم کے الفاظ میں ان سب کی گنجائش موجود ہے۔