(بل ھو قرآن مجید) ’: اور اگر ان کا جھٹلانا اس خیال سے ہے کہ یہ کالم الٰہی نہیں یا اس میں شیطان کا کچھ دخل ہے تو ان کی یہ بات بھی غلط ہے، بلکہ یہ بڑی شان والا قرآن ہے، اس لوح میں سے اتارا گیا ہے جس کی فرشتوں کے ذریعے سے حفاظت کی جاتی ہے، کسی شیطان کا اس میں دخل نہیں ہوس کتا۔ اس کے کالم الٰہی ہونے میں کوئی شبہ نہیں، اگر انہیں شبہ ہے تو وہ بھی اس جیسی کوئی سورت بنا کرلے آئیں، جب یہ نہیں کرسکتے تو اس کے کلام الٰہی ہونے میں کیا شبہ رہ گیا ؟ (ماخوذ از احسن التفاسیر)
بَلْ ہُوَقُرْاٰنٌ مَّجِيْدٌ ٢١ ۙ- بل - بَلْ كلمة للتدارک، وهو ضربان :- ضرب يناقض ما بعده ما قبله، لکن ربما يقصد به لتصحیح الحکم الذي بعده وإبطال ما قبله، وربما يقصد تصحیح الذي قبله وإبطال الثاني، فممّا قصد به تصحیح الثاني وإبطال الأول قوله تعالی: إِذا تُتْلى عَلَيْهِ آياتُنا قالَ أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ كَلَّا بَلْ رانَ عَلى قُلُوبِهِمْ ما کانوا يَكْسِبُونَ [ المطففین 13- 14] ، أي :- ليس الأمر کما قالوا بل جهلوا، فنبّه بقوله :- رانَ عَلى قُلُوبِهِمْ علی جهلهم، وعلی هذا قوله في قصة إبراهيم قالُوا أَأَنْتَ فَعَلْتَ هذا بِآلِهَتِنا يا إِبْراهِيمُ قالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هذا فَسْئَلُوهُمْ إِنْ كانُوا يَنْطِقُونَ [ الأنبیاء 62- 63] - وممّا قصد به تصحیح الأول وإبطال الثاني قوله تعالی: فَأَمَّا الْإِنْسانُ إِذا مَا ابْتَلاهُ رَبُّهُ فَأَكْرَمَهُ وَنَعَّمَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَكْرَمَنِ وَأَمَّا إِذا مَا ابْتَلاهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَهانَنِ كَلَّا بَلْ لا تُكْرِمُونَ الْيَتِيمَ [ الفجر 15- 17] . أي : ليس إعطاؤهم المال من الإکرام ولا منعهم من الإهانة، لکن جهلوا ذلک لوضعهم المال في غير موضعه، وعلی ذلک قوله تعالی:- ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ بَلِ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي عِزَّةٍ وَشِقاقٍ [ ص 1- 2] ، فإنّه دلّ بقوله :- وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ أنّ القرآن مقرّ للتذکر، وأن ليس امتناع الکفار من الإصغاء إليه أن ليس موضعا للذکر، بل لتعزّزهم ومشاقّتهم، وعلی هذا : ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ بَلْ عَجِبُوا [ ق 1- 2] ، أي : ليس امتناعهم من الإيمان بالقرآن أن لا مجد للقرآن، ولکن لجهلهم، ونبّه بقوله : بَلْ عَجِبُوا علی جهلهم، لأنّ التعجب من الشیء يقتضي الجهل بسببه، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ فِي أَيِّ صُورَةٍ ما شاء رَكَّبَكَ كَلَّا بَلْ تُكَذِّبُونَ بِالدِّينِ [ الانفطار 6- 9] ، كأنه قيل : ليس هاهنا ما يقتضي أن يغرّهم به تعالی، ولکن تكذيبهم هو الذي حملهم علی ما ارتکبوه .- والضرب الثاني من «بل» : هو أن يكون مبيّنا للحکم الأول وزائدا عليه بما بعد «بل» ، نحو قوله تعالی: بَلْ قالُوا أَضْغاثُ أَحْلامٍ بَلِ افْتَراهُ بَلْ هُوَ شاعِرٌ [ الأنبیاء 5] ، فإنّه نبّه أنهم يقولون : أَضْغاثُ أَحْلامٍ بَلِ افْتَراهُ ، يزيدون علی ذلك أنّ الذي أتى به مفتری افتراه، بل يزيدون فيدّعون أنه كذّاب، فإنّ الشاعر في القرآن عبارة عن الکاذب بالطبع، وعلی هذا قوله تعالی: لَوْ يَعْلَمُ الَّذِينَ كَفَرُوا حِينَ لا يَكُفُّونَ عَنْ وُجُوهِهِمُ النَّارَ وَلا عَنْ ظُهُورِهِمْ وَلا هُمْ يُنْصَرُونَ بَلْ تَأْتِيهِمْ بَغْتَةً فَتَبْهَتُهُمْ [ الأنبیاء 39- 40] ، أي : لو يعلمون ما هو زائد عن الأول وأعظم منه، وهو أن تأتيهم بغتة، و جمیع ما في القرآن من لفظ «بل» لا يخرج من أحد هذين الوجهين وإن دقّ الکلام في بعضه .- بل ( حرف ) بل حرف استدراک ہے اور تدارک کی دو صورتیں ہیں ( 1) جبکہ بل کا مابعد اس کے ماقبل کی نقیض ہو تو اس صورت میں کبھی تو اس کے مابعد حکم کی تصیح سے ماقبل کی تردید مقصود ہوتی ہے اور کبھی اس کے برعکس ماقبل کی تصیحح اور بابعدار کے ابطال کی غرض سے بل کو لایا جاتا ہے ۔ چناچہ پہلی صورت کے متعلق فرمایا ۔ إِذا تُتْلى عَلَيْهِ آياتُنا قالَ أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ كَلَّا بَلْ رانَ عَلى قُلُوبِهِمْ ما کانوا يَكْسِبُونَ [ المطففین 13- 14] جب اس کو بیماری آیتیں سنائی جاتی ہیں تو کہنا ہے یہ تو اگلے لوگوں کے افسانے ہیں دیکھو یہ جود اعمال بد کر رہے ہیں ان کا ان کے دلوں پر زنگ بیٹھ گیا ہے ۔ تو بل کا معنی یہ ہیں کہ آیات الہی کو اساطیر کہنا صحیح نہیں ہے بلکہ یہ ان کے جہالت ہے پھر ران علی قلوبھم کہہ کر ان کی جہالت پر تنبیہ کی ہے ۔ اسی طرح حضرت ابراھیم (علیہ السلام) کے قصہ میں فرمایا : ۔ قالُوا أَأَنْتَ فَعَلْتَ هذا بِآلِهَتِنا يا إِبْراهِيمُ قالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هذا فَسْئَلُوهُمْ إِنْ كانُوا يَنْطِقُونَ [ الأنبیاء 62- 63] جب ابراہیم آئے تو ) توبت پرستوں نے کہا کہ ابرہیم بھلا یہ کام ہمارے معبودوں کے ساتھ تم نے کیا ہے ( ابراہیم نے کہا ) نہیں بلکہ یہ ان کے اس بڑے ربت نے کیا ہوگا اگر یہ بولتے ہوں تو ان سے پوچھ دیکھو ،۔ اور دوسری صورت میں ماقبل کی تصیحح اور مابعد کے ابطال کے متعلق فرمایا : ۔ فَأَمَّا الْإِنْسانُ إِذا مَا ابْتَلاهُ رَبُّهُ فَأَكْرَمَهُ وَنَعَّمَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَكْرَمَنِ وَأَمَّا إِذا مَا ابْتَلاهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَهانَنِ كَلَّا بَلْ لا تُكْرِمُونَ الْيَتِيمَ [ الفجر 15- 17] . مگر انسان ( عجیب مخلوق ہے کہ ) جب اس کا پروردگار اس کو آزماتا ہے کہ اسے عزت دیتا اور نعمت بخشا ہے تو کہتا ہے کہ ( آہا ) میرے پروردگار نے مجھے عزت بخشی اور جب دوسری طرح آزماتا ہے کہ روزی تنگ کردیتا ہے تو کہتا ہے کہ ( ہائے ) میرے پروردگار نے مجھے ذلیل کیا نہیں بلکہ تم لوگ یتیم کی خاطر نہیں کرتے ۔ یعنی رزق کی فراخی یا تنگی اکرام یا اہانت کی دلیل نہیں ہے ( بلکہ یہ پروردگار کی طرف سے آزمائش ہے مگر لوگ اس حقیقت سے بیخبر ہیں کیونکہ یہ مال کو بیجا صرف کررہے ہیں اور اسی طرح آیت : ۔ ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ بَلِ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي عِزَّةٍ وَشِقاقٍ [ ص 1- 2] قسم ہے اس قرآن کی جو نصیحت دینے والا ہے کہ تم حق پر ہو ( مگر جو لوگ کافر ہیں وہ غرور اور مخالفت میں ہیں میں کہہ کر یہ ثابت کیا ہے کہ قرآن تذکرہ یعنی نصیحت حاصل کرنے کی کتاب ہے اور کفار کا اس کی طرف متوجہ نہ ہونا اس کی نفی نہیں کرتا بلکہ ان کا اعراض محض غرور اور مخالفت کی وجہ سے ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ أنّ القرآن مقرّ للتذکر، وأن ليس امتناع الکفار من الإصغاء إليه أن ليس موضعا للذکر، بل لتعزّزهم ومشاقّتهم، وعلی هذا : ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ بَلْ عَجِبُوا [ ق 1- 2] قرآن مجید کی قسم ( کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیغمبر ہیں ۔ لیکن ان لوگوں نے تعجب کیا ۔ بھی اسی معنی پر محمول ہے یعنی ان کا قرآن پر ایمان نہ لانا قرآن کے بزرگ ہونے کے منافی نہیں ہے بلکہ محض ان کی جہالت ہے بل عجبوا کہہ کر ان کی جہالت پر متنبہ کیا ہے کیونکہ کسی چیز پر اسی وقت تعجب ہوتا ہے جب اس کا سبب معلوم نہ ہو ۔ نیز فرمایا : ۔ ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ فِي أَيِّ صُورَةٍ ما شاء رَكَّبَكَ كَلَّا بَلْ تُكَذِّبُونَ بِالدِّينِ [ الانفطار 6- 9] تجھ کو اپنے پروردگار کرم گستر کے باب میں کس چیز نے دہو کہ دیا ( وہی تو ہے ) جس نے تجھے بنایا اور ( تیرے اعضاء کو ) ٹھیک کیا ۔ اور ( تیرے قامت کو ) معتدل رکھا اور جس صورت میں چاہا جوڑ دیا ۔ مگر ہیبات تم لوگ جزا کو جھٹلاتے ہو ۔ یعنی رب کریم کے بارے میں کوئی چیز سوائے اس کے دھوکے میں ڈالنے والی نہیں ہے کہ وہ دین کو جھٹلا رہے ہیں ۔ (2 ) تدارک کی دوسری صورت یہ ہے کہ دوسری کلام کے ذریعہ پہلی کلام کے ذریعہ پہلی کلام کی وضاحت اور اس پر اضافہ مقصود ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ بَلْ قالُوا أَضْغاثُ أَحْلامٍ بَلِ افْتَراهُ بَلْ هُوَ شاعِرٌ [ الأنبیاء 5] بلکہ ( ظالم ) کہنے لگے کہ ( در قرآن ) پریشان ) باتیں ہیں جو ) خواب ) میں دیکھ لی ) ہیں ( نہیں بلکہ اس نے اس کو اپنی طرف سے بنالیا ہے ( نہیں ) بلکہ یہ ( شعر ہے ) جو اس شاعر کا نتیجہ طبع ) ہے ۔ یہاں متنبہ کیا ہے کہ والاد انہوں نے قرآن کو خیالات پریشان کیا پھر اس پر اضافہ کرکے اسے افترا بتلانے لگے پھر اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ آپ کے متعلق ( نعوذ باللہ ) کذاب ہونے کا واعا کرنے لگے کیونکہ قران کی اصطلاح میں شاعر فطرۃ کاذب کو کہا جاتا ہے اور آیت : ۔ لَوْ يَعْلَمُ الَّذِينَ كَفَرُوا حِينَ لا يَكُفُّونَ عَنْ وُجُوهِهِمُ النَّارَ وَلا عَنْ ظُهُورِهِمْ وَلا هُمْ يُنْصَرُونَ بَلْ تَأْتِيهِمْ بَغْتَةً فَتَبْهَتُهُمْ [ الأنبیاء 39- 40] اے کا ش کافر اس وقت کو جانیں جب وہ اپنے مونہوں پر سے ( دوزخ کی ) آگ کو روک نہ سکیں گے اور نہ اپنی پیٹھوں پر سے اور نہ ان کا کوئی مدد گار ہوگا بلکہ قیامت ان پر ناگہاں آواقع ہوگی اور ان کے ہوش کھودے گی ۔ بھی اس معنی پر محمول ہے کہ کاش وہ اس کے علاوہ دوسری بات کو جانتے ہوتے جو پہلی بات سے زیادہ اہم ہے یعنی یہ کہ قیامت ان پر ناگہاں آواقع ہوگی ۔ قرآن میں جتنی جگہ بھی بل آیا ہے ان دونوں معنی میں سے کسی ایک پر دلالت کرتا ہے اگرچہ بعض مقامات ذرا وضاحت طلب ہیں اور ان کے پیچیدہ ہونے کی بنا پر بعض علمائے نحو نے غلطی سے کہدیا ہے کہ قرآن میں بل صرف معنی ثانی کیلئے استعمال ہوا ہے - قرآن - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ[ الإسراء 78] أي :- قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77]- ( ق ر ء) قرآن - القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔- مجد - الْمَجْدُ : السّعة في الکرم والجلال، وقوله في صفة القرآن : ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ [ ق 1] - ( م ج د ) مجد - یمجد مجدا ومجا دۃ کے معنی کرم وشرف اور بزرگی میں وسعت اور پہنائی کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ [ ق 1] قرآن مجید کی قسم ۔
(٢١۔ ٢٢) اور رسول اکرم جو تمہیں قرآن حکیم سناتے ہیں وہ ایک باعظمت قرآن ہے جو لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔