Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤] اصحاب الاخدود کا قصہ اور ذونواس یہودی بادشاہ :۔ اس ضمن میں درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے :۔- صہیب (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ : ایک بادشاہ کا ایک کاہن تھا جو اسے غیب کی خبریں دیا کرتا تھا۔ کاہن نے بادشاہ سے کہا کہ ایک ذہین و فطین لڑکا تجویز کرو جسے میں یہ علم سکھا دوں، مجھے خطرہ ہے کہ مرجاؤں تو یہ علم ہی نہ اٹھ جائے اور تم میں اس کا کوئی استاد نہ رہے۔ چناچہ لوگوں نے ایسا لڑکا تجویز کیا اور اسے حکم دیا کہ وہ ہر روز اس کے پاس حاضر ہوا کرے۔ چناچہ وہ لڑکا اس کاہن کے ہاں آنے جانے لگا۔ اس لڑکے کے راستہ میں ایک گرجا میں ایک راہب رہتا تھا۔ معمر راوی کہتا ہے کہ میرے خیال میں ان دنوں ایسے عبادت خانوں کے لوگ ہی مسلمان تھے۔ وہ لڑکا جب اس راہب کے پاس سے گزرتا تو اس سے دین کی باتیں پوچھتا تاآنکہ راہب نے اسے بتایا۔ میں تو صرف اللہ کی عبادت کرتا ہوں۔ اب لڑکا راہب کے پاس زیادہ دیر رہنے لگا اور کاہن کے ہاں دیر سے پہنچتا۔ کاہن نے اس کے گھر والوں کو کہلا بھیجا کہ لڑکا میرے پاس کم ہی آتا ہے۔ لڑکے نے راہب کو یہ بات بتائی تو راہب نے اسے کہا۔ جب کاہن تم سے پوچھے کہ کہاں رہے تو کہہ دینا کہ میں اپنے گھر والوں کے پاس تھا اور اگر گھر والے پوچھیں تو کہہ دینا کہ میں کاہن کے پاس تھا۔ کچھ وقت اسی طرح گزرا۔ پھر ایک دفعہ یوں ہوا کہ کسی جانور نے بہت سے لوگوں کی راہ روک دی۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ جانور شیر تھا۔ لڑکے نے ایک پتھر اٹھایا اور کہنے لگا۔ یا اللہ جو کچھ یہ راہب کہتا ہے اگر یہ سچ ہے تو میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو (اس پتھر سے) اس (جانور) کو ہلاک کردے۔ پھر اس نے پتھر جو پھینکا تو جانور مرگیا۔ لوگ پوچھنے لگے۔ اس جانور کو کس نے مارا ہے ؟ کسی نے کہا، اس لڑکے نے اب لوگ گھبرائے اور کہنے لگے کہ اس لڑکے نے تو ایسا علم سیکھا ہے جو کوئی بھی نہیں جانتا یہ بات ایک اندھے نے سنی تو لڑکے سے کہا : اگر تو میری آنکھیں لوٹادے تو میں تمہیں بہت مال و دولت دوں گا لڑکے نے کہا : مجھے مال و دولت کی ضرورت نہیں البتہ اگر تیری بینائی لوٹ آئے تو کیا تو اس ذات پر ایمان لائے گا جس نے بینائی کو لوٹایا ؟ اندھا کہنے لگا ہاں چناچہ لڑکے نے اللہ سے دعا کی تو اس کی بینائی لوٹ آئی۔ پھر اندھا بھی ایمان لے آیا۔ جب بادشاہ کو یہ خبر پہنچی تو اس نے سب کو بلایا اور کہا کہ میں تم کو الگ الگ طریقے سے مار ڈالوں گا چناچہ راہب کو تو آرے سے چروا ڈالا اور اندھے کو کسی اور طرح سے مروا ڈالا۔ پھر اس لڑکے کے لیے حکم دیا کہ اسے فلاں پہاڑ پر لے جاؤ اور چوٹی پر جاکر اسے نیچے گرا دو ۔ چناچہ جب وہ اس چوٹی پر پہنچے جہاں سے لڑکے کو گرانا چاہتے تھے تو وہ خود گرنے لگے اور لڑکے کے سوا چوٹی پر کوئی نہ رہا۔ وہ لڑکا بادشاہ کے پاس آگیا تو اب اس نے حکم دیا کہ اب اسے دریا میں لے جاکر (کشتی سے گرا کر) ڈبو دو ۔ اب بھی اللہ نے ان لوگوں کو غرق کردیا اور لڑکے کو بچا لیا۔ اب لڑکا بادشاہ کے پاس آکر کہنے لگا کہ : اگر تم مجھے مارنا ہی چاہتے ہو تو اس کی صرف یہی صورت ہے کہ مجھے سولی پر لٹکا کر تیر مارو اور تیر مارتے وقت یوں کہو۔ اللہ کے نام سے جو اس لڑکے کا پروردگار ہے چناچہ اس نے ایسا ہی حکم دیا۔ پھر لڑکا سولی چڑھایا گیا پھر اس نے یہ کہہ کر تیر مارا۔ اللہ کے نام سے جو اس لڑکے کا پروردگار ہے چناچہ جب لڑکے کو تیر لگا تو اس نے اپنا ہاتھ اپنی کنپٹی پر رکھا اور مرگیا۔ اب لوگ کہنے لگے۔ یہ لڑکا تو وہ علم جانتا تھا جو کسی کو بھی معلوم نہیں۔ ہم اس لڑکے کے پروردگار پر ایمان لاتے ہیں لوگوں نے بادشاہ سے کہا : تم تو تین آدمیوں کی مخالفت سے گھبرا گئے تھے۔ اب یہ سارے لوگ تمہارے مخالف ہوگئے ہیں پھر بادشاہ نے بڑی بڑی خندقین کھدوائیں اور اس میں لکڑیاں ڈال کر آگ لگا دی۔ پھر لوگوں کو اکٹھا کرکے کہنے لگا : جو شخص اپنے (نئے) دین سے باز آتا ہے اسے تو ہم چھوڑ دیں گے اور جو نہ پھرے اسے ہم آگ میں ڈال دیں گے پھر وہ مومنوں کو ان خندقوں میں ڈالنے لگا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اسی بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ہلاک ہوئے خندقوں والے۔ وہ آگ تھی بہت ایندھن والی تاآنکہ آپ نے عزیز الحمید تک پڑھا۔ پھر فرمایا اور وہ لڑکا جو تھا وہ دفن کیا گیا راوی کہتا ہے کہ اس لڑکے کی نعش سیدنا عمر بن خطاب کے زمانہ میں نکالی گئی اور وہ انگلی اپنی کنپٹی پر رکھے ہوئے تھا جیسے اس نے قتل کے وقت رکھی تھی۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَّہُمْ عَلٰي مَا يَفْعَلُوْنَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ شُہُوْدٌ۝ ٧ ۭ- فعل - الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، - ( ف ع ل ) الفعل - کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔ - شاهِدٌ- وقد يعبّر بالشهادة عن الحکم نحو : وَشَهِدَ شاهِدٌ مِنْ أَهْلِها[يوسف 26] ، وعن الإقرار نحو : وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَداءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ فَشَهادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهاداتٍ بِاللَّهِ [ النور 6] ، أن کان ذلک شَهَادَةٌ لنفسه . وقوله وَما شَهِدْنا إِلَّا بِما عَلِمْنا [يوسف 81] أي : ما أخبرنا، وقال تعالی: شاهِدِينَ عَلى أَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ [ التوبة 17] ، أي : مقرّين . لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنا [ فصلت 21] ، وقوله : شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لا إِلهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلائِكَةُ وَأُولُوا الْعِلْمِ [ آل عمران 18] ، فشهادة اللہ تعالیٰ بوحدانيّته هي إيجاد ما يدلّ علی وحدانيّته في العالم، وفي نفوسنا کما قال الشاعر : ففي كلّ شيء له آية ... تدلّ علی أنه واحدقال بعض الحکماء : إنّ اللہ تعالیٰ لمّا شهد لنفسه کان شهادته أن أنطق کلّ شيء كما نطق بالشّهادة له، وشهادة الملائكة بذلک هو إظهارهم أفعالا يؤمرون بها، وهي المدلول عليها بقوله :- فَالْمُدَبِّراتِ أَمْراً [ النازعات 5] ، اور کبھی شہادت کے معنی فیصلہ اور حکم کے ہوتے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَشَهِدَ شاهِدٌ مِنْ أَهْلِها[يوسف 26] اس کے قبیلہ میں سے ایک فیصلہ کرنے والے نے فیصلہ کیا ۔ اور جب شہادت اپنی ذات کے متعلق ہو تو اس کے معنی اقرار کے ہوتے ہیں ۔ جیسے فرمایا وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَداءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ فَشَهادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهاداتٍ بِاللَّهِ [ النور 6] اور خود ان کے سوا ان کے گواہ نہ ہو تو ہر ایک کی شہادت یہ ہے کہ چار بار خدا کی قسم کھائے ۔ اور آیت کریمہ : ما شَهِدْنا إِلَّا بِما عَلِمْنا [يوسف 81] اور ہم نے تو اپنی دانست کے مطابق ( اس کے لے آنے کا ) عہد کیا تھا ۔ میں شھدنا بمعنی اخبرنا ہے اور آیت کریمہ : شاهِدِينَ عَلى أَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ [ التوبة 17] جب کہ وہ اپنے آپ پر کفر کی گواہی دے رہے ہوں گے ۔ میں شاھدین بمعنی مقرین ہے یعنی کفر کا اقرار کرتے ہوئے ۔ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنا [ فصلت 21] تم نے ہمارے خلاف کیوں شہادت دی ۔ اور ایت کریمہ ؛ شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لا إِلهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلائِكَةُ وَأُولُوا الْعِلْمِ [ آل عمران 18] خدا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتے اور علم والے لوگ ۔ میں اللہ تعالیٰ کے اپنی وحدانیت کی شہادت دینے سے مراد عالم اور انفس میں ایسے شواہد قائم کرنا ہے جو اس کی وحدانیت پر دلالت کرتے ہیں ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ۔ (268) ففی کل شیئ لہ آیۃ تدل علی انہ واحد ہر چیز کے اندر ایسے دلائل موجود ہیں جو اس کے یگانہ ہونے پر دلالت کر رہے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ باری تعالیٰ کے اپنی ذات کے لئے شہادت دینے سے مراد یہ ہے کہ اس نے ہر چیز کو نطق بخشا اور ان سب نے اس کی وحدانیت کا اقرار کیا ۔ اور فرشتوں کی شہادت سے مراد ان کا ان افعال کو سر انجام دینا ہے جن پر وہ مامور ہیں ۔ جس پر کہ آیت ؛فَالْمُدَبِّراتِ أَمْراً [ النازعات 5] پھر دنیا کے کاموں کا انتظام کرتے ہیں ۔ دلاکت کرتی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧ وَّہُمْ عَلٰی مَا یَفْعَلُوْنَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ شُہُوْدٌ ۔ ” اور مومنین کے ساتھ وہ جو کچھ کر رہے تھے خود اس کا نظارہ بھی کر رہے تھے۔ “- ان صاحب اقتدار و اختیار لوگوں نے اہل ایمان کو زندہ جلانے کے احکام جاری کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ان خندقوں کے کناروں پر انہوں نے باقاعدہ براجمان ہو کر اس دلدوز منظر کا نظارہ کرنے کا اہتمام بھی کیا۔ اسی طرح پچھلی صدی میں ہٹلر نے بھی بہت ” پرتکلف “ منصوبہ بندی کے ساتھ یہودیوں کے قتل عام کا اہتمام کیا تھا۔ اس مقصد کے لیے اس نے بڑے بڑے گیس چیمبرز نصب کیے اور انسانی لاشوں کو سائنٹیفک انداز میں ٹھکانے لگانے کے لیے نئے نئے طریقے ایجاد کیے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبُرُوْج حاشیہ نمبر :4 گڑھے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے بڑے بڑے گڑھوں میں آگ بھڑکا کر ایمان لانے والے لوگوں کو ان میں پھینکا اور اپنی آنکھوں سے ان کے جلنے کا تماشا دیکھا تھا ۔ مارے گئے کا مطلب یہ ہے کہ ان پر خدا کی لعنت پڑی اور وہ عذاب الہی کے مستحق ہو گئے ۔ اور اس بات پر تین چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے ۔ ایک برجوں والے آسمان کی ۔ دوسرے روز قیامت کی جس کا وعدہ کیا گیا ہے ۔ تیسرے قیامت کے ہولناک مناظر کی اور اس ساری مخلوق کی جو ان مناظر کو دیکھے گی ۔ پہلی چیز اس بات پر شہادت دے رہی ہے کہ جو قادر مطلق ہستی کائنات کے عظیم الشان ستاروں اور سیاروں پر حکمرانی کر رہی ہے اس کی گرفت سے یہ حقیر و ذلیل انسان کہاں بچ کر جا سکتے ہیں ۔ دوسری چیز کی قسم اس بنا پر کھائی گئی ہے کہ دنیا میں ان لوگوں نے جو ظلم کرنا چاہا کر لیا ، مگر وہ دن بہر حال آنے والا ہے جس سے انسانوں کو خبردار کیا جا چکا ہے کہ اس میں ہر مظلوم کی داد رسی اور ہر ظالم کی پکڑ ہو گی ۔ تیسری چیز کی قسم اس لیے کھائی گئی ہے کہ جس طرح ان ظالموں نے ان بے بس اہل ایمان کے جلنے کا تماشا دیکھا اسی طرح قیامت کے روز ساری خلق دیکھے گی کہ ان کی خبر کس طرح لی جاتی ہے ۔ گڑھوں میں آگ جلا کر ایمان والوں کو ان میں پھینکنے کے متعدد واقعات روایات میں بیان ہوئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں کئی مرتبہ اس طرح کے مظالم کیے گئے ہیں ۔ ان میں سے ایک واقعہ حضرت صہیب رومی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ ایک بادشاہ کے پاس ایک ساحر تھا ۔ اس نے اپنے بڑھاپے میں بادشاہ سے کہا کوئی لڑکا ایسا مامور کر دے جو مجھ سے یہ سحر سیکھ لے ۔ بادشاہ نے ایک لڑکے کو مقرر کر دیا ۔ مگر وہ لڑکا ساحر کے پاس آتے جاتے ایک راہب سے بھی ( جو غالباً ) پیروان مسیح علیہ السلام میں سے تھا ) ملنے لگا اور اس کی باتوں سے متاثر ہو کر ایمان لے آیاحتی کہ اس کی تربیت سے صاحب کرامت ہو گیا اور اندھوں کو بینا اور کوڑھیوں کو تندرست کرنے لگا ۔ بادشاہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ یہ لڑکا توحید پر ایمان لے آیا ہے تو اس نے پہلے تو راہب کو قتل کیا ، پھر اس لڑکے کو قتل کرنا چاہا ، مگر کوئی ہتھیار اور کوئی حربہ اس پر کارگر نہ ہوا ۔ آخر کار لڑکے نے کہا کہ اگر تو مجھے قتل کرنا ہی چاہتا ہے تو مجمع عام میں باسم رب الغلام ( اس لڑکے کے رب کے نام پر ) کہہ کر مجھے تیر مار میں مر جا ؤں گا ۔ چنانچہ بادشاہ نے ایسا ہی کیا اور لڑکا مر گیا ۔ اس پر لوگ پکار اٹھے کہ ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لے آئے ۔ بادشاہ کے مصاحبوں نے اس سے کہا کہ یہ تو وہی کچھ ہو گیا جس سے آپ بچنا چاہتے تھے ۔ لوگ آپ کے دین کو چھوڑ کر اس لڑکے کے دین کو مان گئے ۔ بادشاہ یہ حالت دیکھ کر غصے میں بھر گیا ۔ اس نے سڑک کے کنارے گڑھے کھدوائے ، ان میں آگ بھروائی اور جس جس نے ایمان سے پھرنا قبول نہ کیا اس کو آگ میں پھکوا دیا ( احمد ، مسلم ، نسائی ، ترمذی ، ابن جریر ، عبدالرزاق ، ابن ابی شیبہ ، طبرانی ، عبد بن حمید ) ۔ دوسرا واقعہ حضرت علیؓ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ ایران کے ایک بادشاہ نے شراب پی کر اپنی بہن سے زنا کا ارتکاب کیا اور دونوں کے درمیان ناجائز تعلقات استوار ہو گئے ۔ بات کھلی تو بادشادہ نے لوگوں میں اعلان کرایا کہ خدا نے بہن سے نکاح حلال کر دیا ہے لوگوں نے اسے قبول نہ کیا تو اس نے طرح طرح کے عذاب دے کر عوام کو یہ بات ماننے پر مجبور کیا یہاں تک وہ آگ سے بھرے ہوئے گڑھوں میں ہر اس شخص کو پھکواتا چلا گیا جس نے اسے ماننے سے انکار کیا ۔ حضرت علی ؓ کا بیان ہے کہ اسی وقت سے مجوسیوں میں محرمات سے نکاح کا طریقہ رائج ہوا ہے ۔ ( ابن جریر ) ۔ تیسرا واقعہ ابن عباسؓ نے غالباً اسرائیلی روایات سے نقل کیا ہے کہ بابل والوں نے بنی اسرائیل کو دین موسی علیہ السلام سے پھر جانے پر مجبور کیا تھا یہاں تک کہ انہوں نے آگ سے بھرے ہوئے گڑھوں میں ان لوگوں کو پھینک دیا جو اس سے انکار کرتھے ( ابن جریر ، عبد بن حمید ) ۔ سب سے مشہور واقعہ نجران کا ہے ۔ جسے ابن ہشام ، طبری ، ابن خلدون اور صاحب معجم البلدان وغیرہ اسلامی مورخین نے بیان کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حمیر ( یمن ) کا بادشاہ تبان اسعد ابو کرب ایک مرتبہ یثرب گیا جہاں یہودیوں سے متاثر ہو کر اس نے دین یہود قبول کر لیا اور بنی قریظہ کے دو یہودی عالموں کو اپنے ساتھ یمن لے گیا ۔ وہاں اس نے بڑے پیمانے پر یہودیت کی اشاعت کی ۔ اس کا بیٹا ذونواس اس کا جانشین ہوا اور اس نے نجران پر ، جو جنوبی عرب میں عیساٍئیوں کا گڑھ تھا ، حملہ کیا تاکہ وہاں سے عیسائیت کا خاتمہ کر دے اور اس کے باشندوں کو یہودیت اختیار کرنے پر مجبور کرے ۔ ( ابن ہشام کہتا ہے کہ یہ لوگ حضرت عیسی کے اصل دین پر قائم تھے ) ۔ نجران پہنچ کر اس نے لوگوں کو دین یہود قبول کرنے کی دعوت دی مگر انہوں نے انکار کیا ۔ اس پر اس نے بکثرت لوگوں کو آگ سے بھرے ہوئے گڑھوں میں پھینک کر جلوا دیا اور بہت سوں کو قتل کر دیا ، یہاں تک کہ مجموعی طور پر 20 ہزار آدمی مارے گئے ۔ اہل نجران میں سے ایک شخص دوس ذواثعلبان بھاگ نکلا اور ایک روایت کے رو سے اس نے قیصر روم کے پاس جا کر ، اور دوسری روایت کی رو سے حبش کے بادشاہ نجاشی کے ہاں جا کر اس ظلم کی شکایت کی ۔ پہلی روایت کی رو سے قیصر نے حبش کے بادشادہ کو لکھا اور دوسری روایت کی رو سے نجاشی نے قیصر سے بحری بیڑہ فراہم کرنے کی درخواست کی ۔ بہرحال آخر کار حبش کی 70 ہزار فوج اریاط نامی ایک جنرل کی قیادت میں یمن پر حملہ آور ہوئی ، دوانوس مارا گیا ، یہودی حکومت کا خاتمہ ہو گیا اور یمن حبش کی عیسائی سلطنت کا ایک حصہ بن گیا ۔ اسلامی مورخین کے بیانات کی نہ صرف تصدیق دوسرے تاریخی ذرائع سے ہوتی ہے بلکہ ان سے بہت سی مزید تفصیلات کا بھی پتہ چلتا ہے ۔ یمن پر سب سے پہلے عیسائی حبشیوں کا قبضہ 340؁ء میں ہوا تھا اور 378؁ء تک جاری رہا تھا ۔ اس زمانے میں عیسائی مشنری یمن میں داخل ہونے شروع ہوئے ۔ اسی کے قریب دور میں ایک زاہد و مجاہد اور صاحب کشفِ و کرامت عیسائی سیاح فیمیون ( ) نامی نجران پہنچا اور اس نے وہاں کے لوگوں کو بت پرستی کی برائی سمجھائی اور اس کی تبلیغ سے اہل نجران عیسائی ہو گئے ۔ ان لوگوں کا نظام تین سردار چلاتے تھے ۔ ایک سید ، جو قبائلی شیوخ کی طرح بڑا سردار اور خارج معاملات ، معاہدات اور فوجوں کی قیادت کا ذمہ دار تھا ۔ دوسرا عاقب ، جو داخلی معاملات کا نگراں تھا ۔ اور تیسرا اسقف ( بشپ ) جو مذہبی پیشوا ہوتا تھا ۔ جنوبی عرب میں نجران کو بڑی اہمیت حاصل تھی ۔ یہ ایک بڑا تجارتی اور صنعتی مرکز تھا ۔ ئسر ، چمڑے اور اسلحہ کی صنعتیں یہاں چل رہی تھیں ۔ مشہور حلئہ یمانی بھی یہیں تیار ہوتا تھا ۔ اسی بنا پر محض مذہبی وجوہ ہی سے نہیں بلکہ سیاسی اور معاشی وجوہ سے بھی ذونواس نے اس اہم مقام پر حملہ کیا ۔ نجران کے سید حارثہ کو جسے سریانی مورخین لکھتے ہیں ، قتل کیا ، اس کی بیوی رومہ کے سامنے اس کی دو بیٹیوں کو مار ڈالا اور اسے ان کا خون پینے پر مجبور کیا ، پھر اسے بھی قتل کر دیا ۔ اسقف پال ( ) کی ہڈیاں قبر سے نکال کر جلا دیں ۔ اور آگ سے بھرے ہوئے گڑھوں میں عورت ، مرد ، بچے ، بوڑھے ، پادری ، راہب سب کو پھکوا دیا ۔ مجموعی طور پر 20 سے چالیس ہزار تک مقتولین کی تعداد بیان کی جاتی ہے ۔ یہ واقعہ اکتوبر 523 ؁ء میں پیش آیا تھا ۔ آخر 525 ؁ء میں حبشیوں نے یمن پر حملہ کر کے ذونواس اور اس کی حمیری سلطنت کا خاتمہ کر دیا ۔ اس کی تصدیق حصن غراب کے کتبے سے ہوتی ہے جو یمن میں موجودہ زمانہ کے محققین آثارِ قدیمہ کو ملا ہے ۔ چھٹی صدی عیسوی کی متعدد عیسائی تحریرات میں اصحاب الاخدود کے اس واقعہ کی تفصیلات بیان ہوئی ہیں جن میں سے بعض عین زمانہ حادثہ کی لکھی ہوئی ہیں اور عینی شاہدوں سے سن کر لکھی گئی ہیں ۔ ان میں سے تین کتابوں کے مصنف اس واقعہ کے ہم عصر ہیں ۔ ایک پروکوپیوس ۔ دوسرا کوسماس انڈیکو پلیوسٹس ( ) جو نجاشی ایلیسبو عان ( ) کے حکم سے اس زمانے میں بطلیموس کی یونانی کتابوں کا ترجمہ کر رہا تھا اور حبش کے ساحلی شہر ادولیس ( ) میں مقیم تھا ۔ تیسرا یوحنس ملا لا ( ) جس بعد کے متعدد مورخین نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے ۔ اس کے بعد یوحنس افسوسی ( ) متوفی 585ء نے اپنی تاریخ کنیسہ میں نصاری نجران کی تعذیب کا قصہ اس واقعہ کے معاصر واری اسقف مارشمعون ( ) کے ایک خط سے نقل کیا ہے جو اس نے دیر جبلہ کے ریئس ( ) کے نام لکھا تھا اور مارشمعون نے اپنے خط میں یہ واقعہ ان اہل یمن کے آنکھوں دیکھے بیان سے روایت کیا ہے جو اس موقع پر موجود تھے ۔ یہ خط 1881ء میں روم سے اور 1890ء میں شہدائے مسیحیت کے حالات کے سلسلے میں شائع ہوا ہے ۔ یعقوبی بطریق ڈایو نیسیلوس ( ) کے اور زکریا مدللی ( ) نے اپنی سریانی تاریخوں میں بھی اس واقعہ کو نقل کیا ہے ۔ یعقوب سروجی کی کتاب درباب نصاری نجران میں بھی یہ ذکر موجود ہے ۔ الرھا ( ) کے اسقف پولس ( ) نے نجران کے ہلاک شدگان کا مرثیہ لکھا جو اب بھی دستیاب ہے ۔ سریانی زبان کی تصنیف الحمیریین کا انگریزی ترجمہ ( ) 1924ء میں لندن شائع ہوا ہے اور وہ مسلمان مورخین کے بیان کی تصدیقکرتا ہے ۔ برٹش میوزیم میں اس عہد اور اس سے قریبی عہد کے کچھ حبشی مخطوطات بھی موجود ہیں جو اس قصے کی تائید کرتے ہیں ۔ فلبی نے اپنے سفر نامے ( ) میں لکھا ہے کہ نجران کے لوگوں میں اب تک وہ جگہ معروف ہے جہاں اصحاب الاخدود کا واقعہ پیش آیا تھا ام خرق کے پاس ایک جگہ چٹانوں میں کھدی ہوئی کچھ تصویریں بھی پائی جاتی ہیں ۔ اور کعبہ نجران جس جگہ واقع تھا اس کو بھی آج کل کے اہل نجران جانتے ہیں ۔ حبشی عیسائیوں نے نجران پر قبضہ کرنے کے بعد یہاں کعبہ کی شکل کی ایک عمارت بنائی تھی جسے وہ مکہ کے کعبہ کی جگہ مرکزی حیثیت دینا چاہتے تھے ۔ اس کے اساقفہ عمامے باندھتے تھے اور اس کو حرم قرار دیا گیا تھا رومی سلطنت بھی اس کعبہ کے لیے مالی اعانت بھیجتی تھی ۔ اسی کعبہ نجران کے پادری اپنے سید اور عاقب اور اسقف کی قیادت میں مناظرے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور مباہلہ کا وہ مشہور واقعہ پیش آیا تھا جس کا ذکر سورہ آل عمران آیت 61 میں کیا گیا ہے ( ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، آل عمران حاشیہ 29 و حاشیہ 55 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani